
ارض ِکوکن کا بہادر کوہ کن حسن عبد الکریم چوگلے

حسن چوگلے کی خدمات اور شخصیت پر لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ، مگر یہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے ۔ ان کی شخصیت اور خدمات پر ملک کے مشہور دانشوروں ، صحافیوں اور ادیبوں نے جو کچھ لکھا ہے ، وہ سب کچھ اگر ہم پڑھ لیں ، تو یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے ۔ حسن عبدالکریم چوگلے کا تعلق خطۂ کوکن بہرولی سے ہے ۔دابھول کھاڑی کے کنارے اور پہاڑی کے دامن میں آباد رتنا گیری ضلع کے اس خوبصورت گاؤں میں حسن چوگلے کا آبائی مکان ہے ۔ کوکن کے لوگ یوں تو زمیندار ، کاشتکار یا ماہی گیر ہوتے ہیں۔مگرحسن چوگلے نے گاؤں سے باہر قدم نکالا توتیشہ بدست تھے اور فرہاد کی حسرت نایافت کو پورا کیا ۔ وہ کوکن کی وادیوں سے دوحہ قطر تک جوئے شیر نکالنے کے عمل سے گزرتے ہوئے کامیاب تاجر کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے ۔ 2005 اور 2009 حسن چوگلے کا نام ’’ ہنڈریڈ گلوبل انڈین ‘‘ میں شامل کیا گیا ۔ ہنڈریڈ گلوبل انڈین میں نام شامل ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کامیاب تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت کا جذبہ بھی رکھتے ہیں ۔
کوکن کی مٹی کی خوشبو اور لمس لیے جب اپنے والدین کے ساتھ ممبئی آئے ، توان کی رہائش وڈالا ، ممبئی میں تھی ، اس لیے کہ ان کے والد بامبے پورٹ ٹرسٹ میں ملازم تھے ، جیسا کہ اس دور میں کوکن کے لوگوں کا ایک خاص انداز تھا ۔ کسی ہوٹل میں ملازم ہو جاتے تھے یا پھر پڑھے لکھے ہوں یا کوئی جان پہچان ہو تو بامبے پورٹ ٹرسٹ کی ملازمت حاصل کر لیتے تھے۔حسن چوگلے کی ابتدائی تعلیم انجمن اسلام ہائی اسکول کرلا سے ہوئی ۔ اس کے بعد انہوں نے مہارشی دیا نند کالج سے بی ایس سی کر لیا ، مگر ٹیکنکل لائن میں دلچسپی ہونے کی وجہ سے انہوں نے ڈارفٹ مین کا کورس کر کے انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ۔ حسن چوگلے کے مطابق اس دوران ان کی مالی حالت بہتر نہیں تھی ۔ لہٰذا انہوں نے ’’ لارسن اینڈ ٹیوبرو ‘‘ کو جوائن کیا اور پھر اسی کمپنی کے ذریعہ وہ دوحہ ،قطر چلے گئے ۔
دوحہ ، قطر کی کمپنی میں انہوں نے صرف گیارہ ماہ میں ایسا محسوس کیا کہ ان کے ساتھ اور ان جیسے دیگر افراد کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے یا حق تلفی ہو رہی ہے ۔ اس حق تلفی کے خلاف انہوں نے قانون کا سہارا لیا اور کیس جیت گئے ۔ انہوں نے ہندستانیوں کی اہمیت کا احساس دلایا اور استعفیٰ دے کر واپس آ گئے ۔ایک سال بعد قطر گئے ، اس دوران ایک شخص نے ان کی اخلاقی مدد کی تھی وہ تھے محی الدین خطیب ۔ قطر میں انہوں نے ٹراویل ایجنسی جوائن کی ، مگر انہیں اطمینان نہیں تھا۔ خطیب صاحب کے ساتھ مل کر ایک الیکٹریکل ٹریڈنگ اینڈ کانٹریکٹنگ کمپنی قائم کی ، محی الدین خطیب کانٹریکٹ دیکھتے تھے اور حسن چوگلے ٹریڈنگ، اس طرح کاروبار اچھا چل پڑا ۔ محی الدین خطیب درمیان ہی میں کسی وجہ سے چھوڑ کر چلے گئے، پھر تمام معاملات حسن چوگلے تنہا ہی دیکھنے لگے ۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اور کمپنی قائم کی ۔ ’’ عماد ٹریڈرس ، السارہ ٹریڈنگ ،دوحہ گرانڈ ہوٹل ،پولو سزلر ریستوراں ۔ ہوٹل اور ریستوراں کے معاملات ان کی بیگم نے سنبھال لیے کیونکہ انہیں شروع ہی سے ہوٹل کی تجارت سے دلچسپی تھی ۔
تجارت کی دنیا میںان کا نام روشن ہو رہا تھا ۔ وہ ایک کامیاب تاجر کی حیثیت سے اپنی شناخت بنا چکے تھے ۔ کوکن سے قطر تک انہوں نے گویا جلتے صحرا سے سفر کیاتھا ، جہاں کوئی سایہ نہ شجر تھا۔انہیںاپنے بچپن کا وہ دور بھی ہمیشہ یاد رہا ، جب انہوں نے علم حاصل کرنے کے لیے فلاحی اداروںکی مدد لی تھی ۔ اسی لیے لارسن اینڈ ٹیوبرو کی ملازمت کے دوران ہی انہوں نے وڈالامیں ’’ اسٹوڈنٹ ایڈ سینٹر ‘‘ نامی تنظیم قائم کی، جس کے ذریعے وہ ذہین اور ضرورت مند طلبا و طالبات کی مدد کیا کرتے تھے۔ قطر میں انہوں نے آئیڈیل فاؤنڈیشن نامی ادارہ قائم کیا ، جس کے ذریعے تقریباً ۳۰۰ ؍ طلبا و طالبات کے تعلیمی اخراجات پورے کیے جاتے ہیں ۔ ہر سال ۵۰؍ نادار خاندانوں کی اس طرح مالی اعانت کی جاتی ہے کہ ان کے گھر میں چولہا جلتا رہے۔ حسن چوگلے قوم کے لیے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کا تعلیمی معیار اونچا ہو ، کبھی پسماندہ نہ رہے ۔ کوکن کے تین اضلاع کے اسکولوں سے بیسٹ اسٹوڈنٹ کا ایوارڈ بھی دیتے ہیں ۔پھوپھلی ، چپلون میں آئیڈیل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بھارتیہ شکشن سنستھان کے ذریعہ الامین اردواسکول قائم کیا گیا ہے ۔
آئیڈیل فاؤنڈیشن ہر سال سماجی شخصیت کو ’’ کوکن کا سپوت‘‘ ایوارڈ بھی دیتی ہے ۔ اب تک یہ ایوارڈ ، محمود الحسن ماہر ، ڈاکٹر عبدالستار دلوی ، ڈاکٹر ظہیر قاضی اور مبارک کاپڑی کو دیا گیا ۔۱۹۸۴؍ میں قطر میں آئیڈیل فاؤنڈیشن اسکول کا آغاز ہوا ۔ اسی طرح کوالیٹی کانسیپٹ کے ساتھ ۲۰۰۰؍ میں دہلی پبلک اسکول شروع کیا گیا ۔یہ اسکول آج بھی قطر میں ہندستانی اسکولوں میں سر فہرست ہے ۔ اسکالر اکیڈمی شروع کی گئی ، جہاں بچوں کو کمپیوٹر اینی میشن کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ۲۰۱۰ ؍ میں مورننگ اسٹار نرسری کا آغاز کیا گیا۔
پچھلے ۳۵؍ سال سے دوحہ قطر میںہیں ، مگر اس دوران انہوں نے تجارتی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور فلاحی اداروں کی ایک کہکشاں بنائی ہے ، جو قطر سے ہندستان تک جھلملاتی نظر آتی ہے۔قطر کے چار بڑے ادارے ’ انڈین کلچرل سینٹر ‘،’’انڈین اسپورٹس سینٹر‘‘ ’انڈین( benevolent)بینوولنٹ فورم‘، ’ انڈین بزنس کونسل ‘ ہندستانی سفارت خانے کے زیر سرپرستی چلتے ہیں ۔ حسن چوگلے ان چاروں اداروں کے دو دو مرتبہ صدر رہ چکے ہیں اور فی الحال ان تمام اداروں کی سرپرستی کر رہے ہیں ۔ حسن چوگلے ’’انجمن محبان اردو دوحہ قطر ‘‘ کے زیر اہتمام ہر سال ہندستانی یوم جمہوریہ کے موقع پر آل انڈیا مشاعرہ کرواتے ہیں ۔ ایک ادارہ ہے ’’کوکن سوشل فورم‘‘ جس کا مقصد ہے قطر میں رہنے والے ہندستانیوں کے مسائل کو حل کرنا ۔ دوسرا ادارہ ہے حلقۂ احباب کوکن قطر ، اس ادارے کے تحت ہندستانی طلبا کے تعلیمی مسائل حل کیے جاتے ہیں ۔ دینی اور عصری علوم حاصل کرنے میں طلبا کی اخلاقی اور مالی مدد کی جاتی ہے ۔ ان اداروں کی سرپرستی بھی حسن چوگلے ہی فرما رہے ہیں ۔ ان ہی کی کوششوں سے جامعہ حسینیہ میں ایک بڑی لائبریری کا قیام عمل میں آ سکا ، جس کا افتتاح جنوری ۲۰۱۲ ؍ میں کیا گیا۔
۲۰۱۰؍ میں دوحہ قطر میں انڈین اور سیز کانگریس کے صدر بنائے گئے ۔ ۲۰۰۹ میں انہیں ’’ قطر نیشن ہیومن رائٹس ‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ ۲۰۱۰ میںحسن چوگلے کو ’’ پرائڈ آف انڈیا لیڈرشپ ایوارڈ‘‘ دیا گیا ۔ ۲۰۱۲ میں صدر جمہوریہ ہند پرتیبھا تائی پاٹل نے جے پور میں پرواسی بھارتیہ سمان عطا کیا۔ ایسے نہ جانے کتنے ہی ایوارڈ حسن چوگلے کی خدمت میں پیش کیے گئے اور کئی ایوارڈ ان کے دست مبارک کے لمس کے منتظر ہوں گے ۔ یہ ایوارڈ اپنی جگہ اہم ضرورہیں ، مگر حسن چوگلے کے قد سے کہیں زیادہ نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ حسن چوگلے ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے ۔ اپنی شخصیت کو منوا کر قوم و ملت کے لیے انہوں نے جو کام کیا ہے ،اس کی مثال ملنا مشکل ہی ہے ۔ وہ واقعی پہاڑ کاٹنے کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنے پیچھے ایک ہموار راہ چھوڑ کر آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اسی لیے انہیں ’’کوکن کا بہادر کوہ کن ‘‘کہا جا سکتا ہے ۔وہ ہر ماہ ہندستان آتے ہیں ۔ یہاں ان کے اعزاز میں کئی جلسے ہوچکے ہیں ۔ ملک کے مشہور و معروف سیاسی لیڈران ، شاعر ، ادیب، پروفیسر ، صحافی ، سماجی شخصیات اور دیگر فلاحی اداروں سے وابستہ افراد ان کی کامیابی اور سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں ۔ ہندستان سے دوحہ قطر تک جد وجہد اور کامیابی کا ایک طویل سلسلہ ہے ، جو روشن اور قابل تقلید بھی ہے ۔ یہ سفر انہوں نے تنہا شروع کیا تھا اور اب ان کے پیچھے ایک کارواں ہے ، جو ان کے نقش قدم پر اپنی منزل کی تلاش میں چل پڑا ہے ۔حسن چوگلے کی شخصیت اور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کئی مشہور و معروف افرادنے بے ساختہ مضامین لکھے ہیں ۔ ایسے تمام مضامین اور حسن چوگلے کے اپنے رشحات قلم پر مبنی ایک کتاب شائع کی گئی ’ نقوش قدم ‘‘ جس کا نام ہے ۔ اس وقت اگر ان تمام معزز افراد کے نام درج کیے جائیں تو تحریر طویل ہو جائے گی ۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو ، جس نے اپنی تحریر اور تقریر میں حسن چوگلے کی خدمات کا اعتراف نہ کیا ہو۔
کوکن سے چل پڑے حسن چوگلے کا سفر ابھی جاری ہے اور وہ اپنے قدموں کے نشاں چھوڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ نقوش قدم کا مطلب شاید یہی ہوتا ہے ۔ نقوش قدم کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ حسن چوگلے صرف کوکن سے قطرتک ہی محدود نہیں ہیں ، بلکہ ہندستان کے سینے میں دل بن کر دھڑک رہے ہیں ۔ ہر فرد ان سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کر رہا ہے ۔ان کی خدمات کا اعتراف کر رہا ہے ۔
نرم گفتار ، تیز رفتار اور ایک ایسا شہسوار ، جو پس غبار رہتا ہے … وہ ہیں حسن چوگلے ۔ واقعی انہوں نے اپنی جہد مسلسل سے دشواریوں اور رکاوٹوں کے پہاڑ کاٹے ہیں۔