مسلم علاقوں میں مقیم لوگوں کے لئےبینکنگ اور فائنانشیل سسٹم کا جاننا انتہائی ضروری ہے

بینکنگ وفائنانس سے وابستہ محمدعارف اعظمی کا کہنا ہے کہ کمیونیٹی میں معاشی و مالیاتی بیداری کی شدید ضرورت ہے
ممبرا:’’ اگر مسلم علاقوں کے نوجوانوں کو صبح صبح بہتر ماحول میسر نہ آئے تو پھر وہ وہی کریں گے جس کا کہ ہم رونا رو رہے ہیں لہذا صبح اٹھ کر بچے ایسے ماحول میں تربیت پائیں جہاں وہ دوسروں کو دیکھ کر اس بات کو محسوس کرسکیں کہ ان کے اندر کیا کمی ہے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اوراس کے لئے ہمیں اپنے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنا ہوگا۔ان خیالات کا اظہار کوسہ ممبرامیں بینکنگ سے وابستہ سٹی بینک کے سابق ملازم محمد عارف اعظمینےمعیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ ’’اگر ہم ان کو بہتر ڈائرکشن نہیں دیں گے تو غیر قانونی سرگرمیوں سے انہیں کوئی نہیں روک سکے گا کیونکہ اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لئے وہ ان راستوں کواختیار کریں گے جسے کوئی سماج برداشت نہیں کرتالہذا ممبرا سے باہر جانے کے لئے سب سے پہلے ٹرین ،بس یا میٹرو کا بہتر انتظام ہوتاکہ بچے کارپوریٹ دنیا کو دیکھ سکیں ۔کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ Opportunity موجود ہے لیکن اس کے لئے ہمارے بچے تیار نہیں ہیں۔مثلاً ٹیکنالوجی کا میدان ہو،این بی ایف سی( Non Banking Financial Company (ہو،بینک ہو،ٹیکنیکل ایجوکیشن ہو ،فارمیسی کے کورسیز ہوں۔ان تمام فیلڈس میں اچھی نوکریاں مل سکتی ہیں۔المیہ تو یہ ہے کہ جو بنیادی چیزیں ممبرا میں ہونی چاہئیں مثلاً ڈیزائننگ،3Dمیکس،کمپیوٹر ڈیزائننگ،اینی میشن،ہوٹل انڈسٹری جہاں ہمیشہ جاب موجود رہتا ہے لیکن ہمارے کتنے بچے اس اندسٹری کا حصہ بنتے ہیںکیا کبھی آپ نے سوچا ہے؟
واضح رہے کہ ۸مئی ۱۹۷۵ کو بی ایس ٹی اسٹاف کوارٹر گوونڈی میں محمد انیس اعظمی کے گھر آنکھیں کھولنے والے محمد عارف اعظمی جب گیارہ برس کے تھے تبھی ان کے والد کا ۳۳برس کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔اعظم گڈھ کے ابراہیم پور سے تعلق رکھنے والے خانوادے کو آخر دادا اقبال احمد اعظمی نے سپورٹ کیا لیکن عارف جب گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم تھے تو داداجان نے بھی آنکھیں موند لیں اور ایک بار پھر عارف بے یار و مددگار ہوگئے۔
سومیہ کالج سے بی کام کرنے کے بعد سٹی بینک کے کال سینٹر میں ملازمت کرچکے عارف معیشت سے کہتے ہیں ’’میں نے کسمپرسی میں زندگی گذاری ہے لہذا تعلیم کی اہمیت سمجھتا ہوں ۔والد اور دادا کے انتقال کےبعد جب نانا جان ارشاد احمد اعظمی نے دست تعاون دراز کیا تو ہم پانچ بھائیوں نے جی جان سے پڑھائی کی اور اچھی ملازمت کی تلاش میں سرگرداں رہےاور الحمد للہ آج کسی حد تک ہم خوشحال زندگی گذار رہے ہیں‘‘۔
عارف کہتے ہیں ’’کمیونیٹی میں مالیاتی بیداری نہیں ہے ۔کمپنیاں لون دینا چاہتی ہیں لیکن کاغذات درست نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی مجبور رہتی ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہر آدمی موٹر انشورنس یا ہیلتھ انشورنس حاصل کرنا چاہتا ہےلیکن کاغذات درست رکھنا نہیں چاہتا۔ اسی طرح یہ کہنا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں کریڈٹ کارڈ نہیں دیا جاتا وہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ اگر آپ کسی اچھی کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں تو اس کی بنیاد پر آپ کو کریڈٹ کارڈ مل جاتا ہے خواہ آپ کہیں بھی رہ رہے ہوں۔دراصل بہت سارے معاملات میں جغرافیائی ماحول کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے جس کا اثر ملازمت پر بھی پڑتا ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ممبرا میں کنسٹرکشن کمپنیوں نے تھوڑی راحت دی ہے اور نوجوانوں کو مواقع میسر آرہے ہیں ویسے باہری دنیا سےاتنی ساری Opportunitiesہندوستان آرہی ہیں کہ اگر اس طرف ہمارے بچےتوجہ دیں تو انہیں یقیناً کامیابی ملے گی‘‘۔