
پارلیمانی انتخابات میں تعلیم ،صحت،معیشت ،روزگارکے ساتھ عوامی بہبود کے کاموں کو موضوع بحث بنایا جائے
ممبئی: (معیشت نیوز) ملک میں پارلیمانی انتخابات کی گہما گہمی ہے مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے انداز میں تشہیری مہم چلا رہی ہیں لیکن عوام یہ چاہتی ہے کہ تمام پارٹیاں تعلیم،صحت،معیشت،روزگار،سڑک،بجلی ،پانی جیسے بنیادی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کریں اور انہیں موضوعات کو اپنی مہم کا حصہ بنائیں۔ملک میںبے روزگاری کی وجہ سے نوجوان مایوسیوں میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔معاشی مندی کی وجہ سے تاجر برادری غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے گرانٹس نہ ملنے کی وجہ سے طلبہ احتجاجات کر رہے ہیں جبکہ پانی و بجلی کے مسائل نے عام لوگوں کی زندگی مفلوج کر رکھی ہے ۔بامبے اسٹاک ایکسچینج بروکرس فورم کے سی او او ڈاکٹر آدتیہ سری نواس کہتے ہیں’’ملک میں 7.2%بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ہر برس تقریباً ایک کروڑ بچے پاس آئوٹ ہو رہے ہیں لیکن دس لاکھ بچوں کو بھی جاب نہیں مل پا رہی ہے۔جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۸ میں تقریباً ۹۶ہزار کروڑ روپئے جی ایس ٹی سے جمع کئے گئے،انکم ٹیکس میں ۷لاکھ کروڑ کا اضافہ ہوا۔کروڈ آئل کی گرتی قیمتوں کی وجہ سے تین برس کے اندر تقریباً دس لاکھ کروڑ کی بچت ہوئی ہے ۔لہذا میرا سوال یہ ہے کہ جب اتنے پیسے آرہے ہیں تو یہ جا کہاں رہے ہیں‘‘۔ آدتیہ کہتے ہیں’’خطیر رقم کی وصولی کے باجود حکومت آر بی آئی سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ کروڑ کا مطالبہ کر رہی تھی جو آربی آئی کے گورنر کے استعفیٰ کی صورت میں ظاہرہوا،آخر ایسا کیوں؟ یقیناً اس وقت سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ مذکورہ موضوعات کو ہی انتخابی موضوع بنائیں‘‘۔
ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر سینئر صحافی شکیل رشید کہتے ہیں”پارلیمانی انتخابات میں ہمیں ان لوگوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے جن پر بار بار بھروسہ کرکے دھوکہ کھا چکے ہیں بلکہ یقیناً ان لوگوں کی طرف توجہ دینی چاہئے جو تعلیم وصحت، معاش و معیشت، روزگار و تجارت کے سلسلے میں کچھ کرنے کا عندیہ دے رہے ہوں۔ بچے پڑھ لکھ کر جب روزگار نہیں پاتے تو جرائم کی دنیا کا شکار ہوجاتے ہیں لہذاایک بہتر معاشرہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان لوگوں کو منتخب کیا جائے جو مذکورہ موضوعات پر توجہ دینے والے ہوں ۔”شکیل رشید کہتے ہیں “جن لوگوں کو ہم نے ماضی میں آزما لیا ہے اور انہوں نے کچھ کام نہیں کیا لیکن اگر وہ دوبارہ انہیں لالی پاپ کے ساتھ آئیں تو ان کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ کامیابی کے بعد کونسا امیدوار ہے جو ملک کی ترقی کے لئے بہتر کام کرے گا “۔
آئیڈیل فائونڈیشن سے وابستہ مشہور سماجی کارکن داؤد چوگلے کہتے ہیں’’ ملک کا سیاسی ماحول اب اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں تعلیم و روزگار پر گفتگو ہو۔ مذہبی منافرت، وقتی مفادات ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا جارہا ہے۔ آج کا نوجوان اب پڑھا لکھا ہے لہذا وہ اپنے مستقبل کو روشن بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوجوان کے مسائل سے جڑے سوالات پر انتخابی مہم میں گفتگو ہونی چاہئے تاکہ ہم ملک کے سیاسی ماحول میں معاش و معیشت کو اہمیت دلواسکیں۔”داؤد چوگلے مزید کہتے ہیں “معاشی مسائل کی وجہ سے طلبہ کی بڑی تعداد تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہے، سماجی تنظیمیں گوکہ ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن کیا ہی خوب ہو جب یہ کام حکومتی سطح پر بغیر کسی تعصب کے انجام پائے اور بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع میسر آئیں، سیاسی مجلسوں میں اگر ان امور پر بھی گفتگو ہوگی تو گراس روٹ پر ماحول میں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی”-مہاراشٹر اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کے اسپیشل آئی جی آئی پی ایس آفیسر عبد الرحمن کا کہنا ہے کہ”یقیناََ اس وقت انہیں موضوعات پر گفتگو ہونی چاہئے جس کا تذکرہ کیا جارہا ہے دراصل میری کتاب Denial and Deprivation کا موضوع بھی یہی ہے ۔اس وقت ان موضوعات پر اگر توجہ نہیں دی گئی تو آگے چل کر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
مشہور سماجی کارکن آصف فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’یہ بات درست ہے کہ اس وقت ہر جگہ کوائیلیٹی کی کمی ہے۔تعلیمی میدان کا ہی جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ میڈیکل میں جس طرح کی تعلیم ہونی چاہئے اس کا گراف گرا ہے. جس کا راست اثر عوام کی روز مرہ زندگی پر پڑرہا ہے “.پرائیویٹ اسکول کا چلن اس قدر بڑھ چکا ہے اورجس طرح فیس لی جا رہی ہے وہ عام انسانوں کی کمر توڑ دے رہا ہے۔یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جس پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ کسی خاص کمیونٹی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ تمام ہندوستانیوں کی آواز ہے لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اگر تمام سیاسی پارٹیاں اس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں تو یقیناً ملک کی تعمیر وترقی میں کامیابی ملے گی”.