ہندوستانی معیشت بحران کی طرف گامزن، ہندوستانی مسلمانوں پر پڑیں گےبرے اثرات

اشرف محمدی
اشرف محمدی

چھوٹے خودرہ کاروباریوں کی حالت غیر مستحکم ہوجائے گی جبکہ دکانوں میں کام کرنے والے کروڑوں لوگوں پر بے روزگاری کی مار پڑ سکتی گے

ملک کی معاشی حالت انتہائی خراب ہے اور اب یہ بحران کی جانب گامزن ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ گھریلو بچت 20 سال کی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہےاور ڈائریکٹ ٹیکس کلیکشن بھی ہدف سے کافی پیچھے ہے۔جبکہ کئی اہم معاشی اشاروں میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ آٹو فروخت میں گراوٹ، ڈائریکٹ ٹیکس جمع میں کمی کے بعد اب ملک میں گھریلو بچت میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں گھریلو بچت گر کر 18-2017 میں 17.2 فیصد ہو گئی ہے جو 98-1997 کے بعد سے سب سے کم شرح ہے۔ آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق چونکہ گھریلو بچت میں گراوٹ آئی ہے، لہٰذا اس نے سرمایہ کاری کو 2012 سے 2018 کے دوران 10 بیسک پوائنٹ تک نیچے گرا دیا ہے۔ڈائریکٹ ٹیکس کے محاذ پر بھی حصولی ہدف کے مطابق نہیں رہا ہے۔ یکم اپریل کو جاری اعداد و شمار کے مطابق ڈائریکٹ ٹیکس حصولی کمزور انفرادی انکم ٹیکس حصولی کے سبب 50 ہزار کروڑ کم ہو گیاہے۔ اس کے سبب مالی سال 19-2018 کے لیے ترمیم شدہ 12 لاکھ کروڑ روپے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ ذرائع نے کہا کہ ذاتی انکم ٹیکس کا 5.29 لاکھ کروڑ روپے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا اور اس میں بھی 50 ہزار کروڑ روپے کی کمی رہی۔ اس کے سبب مالی سال 19-2018 کے لیے ڈائریکٹ ٹیکس حصولی کو نیچے گرا دیا۔سوسائٹی آف بھارتیہ آٹوموبائل مینوفیکچرس (سیام) کے ذریعہ جاری اعداد و شمار کے مطابق گھریلو بازار میں مسافر گاڑیوں کی فروخت میں سال در سال بنیاد پر مارچ میں 2.96 فیصد کی گراوٹ رہی اور یہ 291806 گاڑیوں کی رہی۔ مسافر گاڑیوں کی گھریلو فروخت 2018 میں 300722 گاڑیوں کی رہی۔ حالانکہ مالی سال 19-2018 کے دوران مسافر گاڑیوں کی فروخت میں 2.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔کمرشیل اور انڈسٹری وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق ڈائریکٹ فورن انویسٹمنٹ (ایف ڈی آئی) میں بھی موجودہ مالی سال کے اپریل-دسمبر مدت کے دوران سات فیصد کی گراوٹ آئی جو 33.49 ارب ڈالر رہی۔ جب کہ ایف ڈی آئی 35-94 ارب ڈالر رہا تھا۔ ان اہم معاشی محاذ میں بحران کی بنیاد پر ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر معیشت بہت اچھی حالت میں نہیں ہے۔معاشی معاملوں کے ماہر پرنب سین نے اس حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دراصل نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد غیر کارپوریٹ سیکٹر متاثر ہوا اور وہ اب ظاہر ہو رہا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ معاشی اشاروں میں آگے مزید گراوٹ آئے گی، کیونکہ غیر کارپوریٹ سیکٹر ہی ہندوستان میں زیادہ تر روزگار پیدا کرتا ہے اور یہی سیکٹر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ گھریلو بچت میں گراوٹ پر انھوں نے کہا کہ ’’حقیقی معنوں میں گھریلو بچت ہی حکومت کی اُدھاری ضرورتوں اور کارپوریٹ کی اُدھاری ضرورتوں کے لیے پیسے مہیا کراتا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر گھریلو بچت میں گراوٹ آتی ہے تو اس سے یا تو سرمایہ کاری میں گراوٹ آئے گی یا پھر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بڑھے گا۔‘‘
اضافہ انویسٹمنٹ کے سی ایم ڈی اشرف محمدی کہتے ہیں ’’چونکہ مسلمان خوردہ کاروبار میں سب سے زیادہ ہیں اور نوٹ بندی کے اثر کی وجہ سے سب سے زیادہ Unorganized سیکٹر متاثر ہو اہے لہذا میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ معاشی مندی کا بھی سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر پڑنے والا ہے لہذا بہتر ہوگا کہ مسلمان آنے برسوں کے لئے فائنانشیل پلاننگ کرلیں تاکہ وہ معاشی مندی سے محفوظ رہ سکیں۔‘‘اشرف محمدی کہتے ہیں ’’جی ایس ٹی اور ٹیکسیز کا اثر بھی سب سے زیادہ چھوٹے کاروباریوں کو برداشت کرنا پڑا ہےلہذا چھوٹے کاروباریوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ایسی پلاننگ کریں کہ کم از کم آنے والے طوفان کا سامنا کر سکیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018میںہندوستان کا شمار دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن کر اُبھرنے والے ملک میں ہورہا تھا۔ ملک کی سالانہ آمدنی 2.70 کے لگ بھگ اور فی کس سالانہ آمدنی آٹھ ہزار سے زائد تھی۔ چونکہ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہےلہذا ایک ارب بتیس کروڑ افراد پر مشتمل یہ ملک مختلف زبانوں، علاقوں، مذاہب اور نسلوں میں بٹا ہوا ہے۔ ملک کی آبادی میں 45فیصد درمیانہ طبقہ ہے جبکہ نچلا اوسط طبقہ اور چالیس فیصد کے لگ بھگ افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہندوستان کو سالانہ پچھتر ارب ڈالر سے زائد رقم تارکین وطن جو امریکہ، یورپ اور خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں ان سے موصول ہوتا ہے۔ ایک سو چودہ ارب پتی خاندان صنعتی، زرعی، بیمہ کاری اور سرمایہ کاری کے شعبوں پر قابض ہیں۔دعویٰ ہے کہ تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں پر حکومت خاطر خواہ توجہ دے رہی ہےلیکن ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم اپنی فوج اور اسلحہ پر 75ارب ڈالر سالانہ خرچ کرر ہے ہیں جس سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ جاری ہوگئی ہے اور عوام کے بیشتر بنیادی مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *