عام آدمی اور جمہوریت

ابو ذر کمال الدین
ابو ذر کمال الدین

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
میں اپنے محدود علم کے باوجود ایک بات یک گونہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پچھلے تمام زمانوں کے مقابلے ہم اس وقت More Enlightendدور میںجی رہے ہیں ۔ یقیناً ماضی کے علم و تجربہ نے اس کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم ماضی کے کسی عہد کا موجودہ عہد سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ انسانی سماج میں ہمیشہ دولت و اقتدار کو طاقت اور عزت کا ذریعہ مانا گیا ہے ۔ علم و کردار کی اہمیت تسلیم کی جاتی رہی ہے ۔ مگر اس کی حیثیت ثانوی ہے ۔ آج بھی اس ذہنیت میں کوئی بڑا فرق نہیں آیا ہے لیکن موجودہ عہد ایک معنی میں پچھلے تمام عہدوں پر ایک فوقیت رکھتا ہے او ر وہ ہے عام آدمی کی اہمیت ۔ عام آدمی سے مراد وہ آدمی ہے جس کے پاس اقتدار و قوت نہیں ہے ۔ اس کے پاس دولت کی بھی کمی ہے ۔ وہ مزدور ہے ، کسان ہے ، چھوٹا بیوپاری ہے ، نچلے درجے کا سرکاری ملازم ہے ، عورت ،بچہ، بوڑھا اور جوان ہے ۔ بیمار اپاہج ہے اپنی روز مرہ کی ضروریات اپنی آمدنی سے پوری کرنے میں اس کو خاصی پریشانی ہوتی ہے ۔ اس کے خوشیاں بہت چھوٹی ہیں اس کا دکھ بہت محدود ہے وہ بغیر کسی اطلاع کے اس دنیا میں آتا ہے اور بغیر کسی اطلاع کے دنیا سے چلا جاتا ہے ۔ کبھی کبھی اسےپیٹ بھر کھانا میسر نہیں ہوتا ۔ اس تن پر موسم کے لحاظ سے ٹھیک کپڑے بھی نہیں ہوتے ۔ اس کاگھر ٹاٹ پھونس یا کھپڑے اور اینٹوں کی بنی ایک ایسی عمارت ہے جہاں ایک خیالی سایہ اور سکون اس کا استقبال کرتا ہے اس کو اکثر موسم کی نا مہربانیاں ہلاک کردیتی ہیں ۔ سیلاب اور سکھاڑ اس کے لئے قہر خدا وندی ہوتی ہیں ۔ زلزلہ اور دیگر آفات سماوی وارضی اسے تل پٹ کردیتے ہیں ۔ یہی وہ آدمی ہے جو تمدن و تہذیب کا سارا بوجھ ڈھوتےڈھوتے نحیف و نزار ہوگیا ہے ۔ لیکن ابھی تک کسی نے اس سے نہیں پوچھا تم کس حال میں ہو ؟
دراصل ابھی تک اقتدار کی تبدیلی طاقت کے بل پر ہوتی تھی جس میں عام آدمی محض تما شائی ہوتا تھا ۔ جب کبھی فاتح فوج کا کوئی دستہ اس کی بستی اور آبادی کو تخت و تاراج کر تا ہوا گذرتا تو اسے محسوس ہوتا کہ شاید تبدیلی اقتدار ہوگیا ہے ۔حکومت اور عوام کا رشتہ لٹیر وں کے ہاتھوں میں نہتے گروہ کا رشتہ تھا۔عوام کو لوٹنا چوسنا اور جس کی عزت و آبرو کھیتی اور باغات کو تاراج کرنا حکمراں اور فاتح کا پیدائشی حق تھا اور ذلت و مظلومی عوام کی پیدائشی تقدیر ۔
لیکن جب سے جمہوریت کا چلن آیا اور یہ باور کیا جانے لگا کہ اقتدار بندوق کی نلی سے نہیں عوام کے ووٹ سے حاصل ہوتی ہے اور عام آدمی کو ووٹ کا حق حاصل ہے تو عام آدمی کی اہمیت اور طاقت میں ناقابل یقین اضافہ ہوا ۔ اب اس کے مسائل ، ضروریات ، امنگیں اور آرزوئیں ، اس کا دکھ اس کے آفات اس کی خوشیاں اور اس کے حالات تو جہ اور دلچسپی کی چیزیں بن گئیں اور ذمہ دار اور جوابدہ سیاست کا دورشروع ہوا ۔ نابل انعام یا فتہ پر و فیسر امرتیہ سین نے قحط پر اپنی تحقیق کے دوران بتایا کہ جن ملکوں میں جمہوریت کا چلن ہے وہاں قحط میں بہت کم لوگ بھوک سے مرے بہ نسبت ان ملکوں کے جہاں ملوکیت یا تانا شاہی تھی ۔ عام طور پر سیلاب ،قحط ، سکھاڑ ، زلزلہ ، وغیرہ کو آفات سماوی مان کر حکمراں ٹولی خود کوان ذمہ داریوں سے سبکدوش کر لیتا تھا اور لوگوں کو حالات کے حوالے کر دیتا تھا جس کے نتیجے میں ان آفات کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کی جانیں ضائع ہوجاتی تھیں ۔
جمہوریت کا تجربہ مغربی ملکوں میں بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے اور وہاں کی ذمہ دار حکومتیں عوامی فلاح کے معا ملے میں بہت حساس ہیں کیو نکہ ہر پانچ سال یاچار سال پر ہونے والے انتخابات میں انہیں عوام کے سامنے جانا پڑتا ہے ۔ ان ملکوں میں مضبوط اپوزیشن ، آزادپریس ، آزادعدلیہ اور بےدار رائے عامہ کی وجہ سے انہیں ہر وقت اقتدار سے باہر جانے کا خطرہ بنا رہتا ہے ۔ تیسری دنیا کے ممالک جس میں بھارت بھی ہے،میں جمہوری طرز حکومت اختیار کیاگیا ہے ، بلکہ جمہوری حکومت کی کامیاب ہونے کے جو شرائط ہیں وہ بھارت میں موجود نہیں ہونے کے باوجود یہاں اس کا کامیاب تجر بہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے ۔ بہت سے ممالک جو بھارت کے ساتھ آزاد ہوئے اور جہاں فلاحی ، جمہوریت اختیار کی گئی تھی آگے چل کر انہوںنے تانا شاہی اختیار کرلی ۔ پاکستان ، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک اس کی مثال ہیں ۔
دیش کو جب آزادی ملی تو انگریزوں سے اقتدار جن لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوا وہ دیسی جاگردار ، زمیندار ، سرمایہ دار مہاجن اور بنیا تھے ۔ معیشت اور اقتدار کی کنجی انہی کے ساتھ رہی ۔ یہ سب کے سب بعض استثناء کو چھوڑ کر بڑی ذات کی ہندو تھے ۔ شروع میں عوام کے دل میں ان کا خاص احترام تھا کیو نکہ یہی لوگ آزادی کی جنگ کے سورما تھے اورانہوں نے بڑی قربانیاں دیکر ملک کو آزاد کرایا تھا۔مگر آزادی ملنے کے بعد ان میں سے بیشترلوگوں نےملک کی تعمیر و ترقی اور انصاف و آزادی کے برکات سےعام لوگوں کو مستفیض کرنے کے بجائے اپنے گرو ہی مفاد کی سیاست شروع کر دی اور اپنی خدمات و قربانیوں کو سود کے ساتھ وصولنا شروع کیا اور عام آدمی کے نزدیک غلامی اور آزادی میں کوئی فرق کرنا محال ہو گیا تو لوگوں میں بے چینی پیداہوئی اور ان طبقات کے خلاف اضطر اب وبے اطمینانی پیدا ہونے لگی ۔ جس نے بعد میں چل کر ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ۔ چنانچہ ہندئوں کی درمیانی ذاتوں نے جن کی ملک میں اکثر یت ہے گول بند ہوکر سماجی انصاف اور ریز رویشن کے تحت بڑی ذات کے لوگوں کے اقتدار کو چیلنج کیا اور بالآخر کم ازکم ریا ستوں کی حد تک ان سے بیشتر جگہوں میں اقتدار چھین لیا ۔
یہ نعرہ اور تحریک اتنی زبر دست تھی کہ بڑی ذات کے ہندئوں نے اپنی بچائو کے لئے ایک طرف فرقہ پرستی کا سہارا لیا اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز سیاست شروع کرکے اپنی سیاسی زمین کو کھسکنے سے بچانے کی ناکام کو شش کر تے رہے اور دوسری طرف اپنے Progressive Imageکو مکھوٹہ بناکر نچلی اور پچھڑی ذاتوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے رہے ۔ مگر ان کے ہاتھوں سےپچھلے پندرہ سالوں سے بہار ، یوپی اور کئی دیگر ریاستوں سے اقتدار جاتا رہا جس کو پانے کی وہ جی توڑ کوشش کرر ہے ہیں ۔
عوام نے بڑی ذات کی جگہ پر جن پچھڑی ذات کے لوگوں کو اقتدار منتقل کیا انہوں نے بھی محض نعرے وعدے اور دکھاوے سے کام لیا ۔ عام آدمی کی بھلائی ان کے ایجنڈے میں تھا ہی نہیں ۔ وہ اپنا گھر بھر نے میں اتنا مشغول ہو گئے کے عوام پیچھے چھوٹ گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کسی پر اعتماد کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔ اقتدار دھیرے دھیرے منتقل ہو کر سماج کے سب سے نچلے طبقے یعنی دلتوں کے ہاتھ تک آ پہنچا ہے ۔ یو پی میں دو بار مایا وتی کی قیادت میں سرکار بن چکی ہے ۔ رام بلاس پاسوان مر کز میں بر سوں سے و زیر ہیں ۔ بہار میں انہوںنے زبردست سیاسی قوت حاصل کر لی ہے ۔ دلت چونکہ تاریخ کے ستائے ہوئے لوگ ہیں اور پہلی بار انہیں سانس لینے اور اپنی سیاسی حیثیت کے اظہار کا موقع مل رہا ہے اس لئے ا ن کو معلوم ہے کہ ہندوستان کا سماج بنیادی طور پر مادی سماج ہے جہاں پیسہ ، عہدہ اور اقتدار کی پوجا ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ ان کے حصول میں کسی بھی اخلاقی حد کےپا نبد نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پیسہ جہاں سے آئے جیسے آئےاورجتنا آئے وہ کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے ۔ اس معاملہ میں مایاوتی کی کرشمہ سازی ایک مثال ہے ۔
بہر حال ہندوستانی سیاست ایک عبوری دور سے گذررہی ہے ۔ لیکن ان تمام مرحلوں میں عام آدمی کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ دھیرے دھیرے تعلیم کے فروغ سے جوبے داری آرہی ہے اور لوگ اپنے حقوق کے باب میں جس طرح جاگروک ہو رہے ہیں اسے خوش آئند کہا جاسکتا ہے ۔ ملک میںدبے پائوں ایک بڑا سماجی انقلاب آرہا ہے ۔ لیکن اس کا رخ اور اس کی منزل متعین نہیں ہے ۔ اس لئے اس پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
سب سے بڑا سوال اس ملک میں بسنے والی اقلیت کا ہے ۔ کہنے کو تو بودھ ، جین ، سکھ بھی اقلیت ہیں مگر ان کا سماجی اور تمدنی ڈھانچہ چونکہ ہندؤں جیسا ہے اس لئے ان کو ہندوں کا ایک پیٹھ مانا جاتا ہے ۔ اقلیت فی الوا قع اس ملک میں مسلمان اور کرشچن ہیں ۔ اس وقت عیسائی دنیا میں جس قسم کا سائنسی تمدنی ، عسکری اور اقتصادی غلبہ پایا جاتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے عیسائیوں کے سامنے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ ان کی جانب سے تبدیلی مذہب کی جو کوششیں ہو رہی ہیں اس پر کبھی کبھی احتجاج اوراعتراض دیکھنے کو ملتا ہے ورنہ عیسائی نسبتاً خوش اور خوشحال ہیں اور پوری طرح محفوظ و مامون ہیں ۔ اقلیت ہو نے کے نا طے جو بھی مسئلہ ہے وہ مسلمانوں کا ہے ان کی جان و مال عزت و آبرو ، سماجی اور دینی ادارے ، پر سنل لا ء ، کھیت و کھلیان ، صنعت و تجارت ، تعلیم و ثقافت ، سیاسی حصہ داری ، نوکری روز گار سب خطرے کی زد میںہیں اور ان کو آزادی اور جمہوریت کے برکات سے پوری طرف محروم رکھاگیا ہے ۔
ملک میں ہر شہری کو بلا لحاظ مذہب رنگ و نسل اور جنس ایک ووٹ کا اختیار حاصل ہے ۔ شہریوں کی سطح پر کوئی فرق نہیں ہی مگر جب ان کو کمیو نٹی اور برادری کی شکل میں دکھا جاتا ہے تو صورت حال بہت تشویشنا ک ہوجا تی ہے ۔ اس وقت ووٹ چونکہ امیدوار کی شخصی خوبیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذات اور برادری کے نام پر دئے جاتے ہیں اور جب معاملہ کسی مسلمان کا ہوتو اس وقت مذہبی عصبیت عود کر آتی ہے اس لئے مسلمانوں کو اکثر ہندئوں کا ووٹ نہیں ملتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھنے کے بجائے گھٹتی جارہی ہے جو بھارت کے جمہوری عمل کو کمزور کرنے والا عمل ہے ۔ جبکہ مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ہر بڑی اور چھوٹی ذات یہاں تک کہ ہر یجنوں کے ساتھ بھی سیا سی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور جتاتے اور بر سر اقتدار لانے میں جی جان کی بازی لگا دی ہے ۔ ہندوستان کے جمہوری عمل میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ کب ہندئوں میں اتنی وسعت نظر ی پیدا ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کی شخصی خوبیوں کی بنا پر اپنا ووٹ دے کر کا میاب بناتے ہیں ۔
ملک کی سیاست کو یہ سبق سیکھانا ہو گا ورنہ عام آدمی کی جنگ جیتنا نا ممکن ہو گا ۔ سحر سامری پھر کوئی نیا کھیل کھیل کر اقتدار پر قابض ہو جائے گا اور لوگ جمہوریت کے برکات سے محروم رہ جا ئیں گے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *