عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی مکمل آزادی ہے

علماء کرام نے سپریم کورٹ میں داخل عرضداشت کو اسلام دشمن عناصر کی کارستانی قرار دیا
ممبئی(معیشت نیوز) ہندوستان میں اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے نِت نئے طریقے اختیار کر رہی ہیں جبکہ وہ لوگ جنہیں اسلام کا بہت زیادہ علم نہیں ان کے دام فریب میں گرفتار بھی ہو رہے ہیں ۔دام فریب میں گرفتار ہونے والے ایسے ہی پونہ کے ایک مسلم جوڑے نے جب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مسجدوں میں عورتوں کے داخلے کی درخواست کی تو مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے نے فوراً سمجھ لیا کہ یہ ان لوگوں کی شرارت ہے جو مسلمانوں کو ہر محاذ پر گھیرنا چاہتی ہیں۔جامعہ اسلامیہ نور باغ کے ناظم مولانا عبد الحکیم مدنی کہتے ہیں ’’ عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی مکمل آزادی ہےبلکہ آغاز اسلام سے ہی مسلم عورتیں مسجدوں کا رخ کر رہی ہیں ۔ہمارے یہاں یعنی نور باغ کوسہ کی مسجد میں نہ صرف ان کے لئے علاحدہ انتظام ہے بلکہ جمعہ اور عیدین میں عورتوں کی بڑی تعدادنماز کی ادائیگی کے لئے پابندی سے آتی ہے ۔لہذا سپریم کورٹ میں داخل عرضداشت نہ صرف بے معنی ہے بلکہ مسلمانوں کو الجھانے کی ہی ایک کوشش ہے‘‘۔مولانا کہتے ہیں ’’ حدیث شریف میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر کوئی خاتون نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد کا رخ کرنا چاہے تو اسے مسجد جانے دیا جائے ۔بلکہ عیدین کے تعلق سے تو نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ گھر کے تمام لوگ خواہ مرد،عورت ،بچے سب عید گاہ کا رخ کریں اور نماز ادا کریں حتی کہ اگر کوئی حالت حیض میں ہو یا حالت نفاس میں ہو تو وہ بھی عید گاہ جائے اور نماز نہ پڑھتے ہوئے صرف دعا میں شریک رہے،لہذا یک طرف جب اس طرح کا حکم ہے تو ان لوگوں پر ہنسی آتی ہے جنہوں نے بغیر سو چے سمجھے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے‘‘۔مولانا کہتے ہیں ’’البتہ موجودہ حالات میں اگر پانچ وقت کی نماز خواتین گھر پر ادا کریں تو یہی بہتر ہے ۔لیکن جمعہ و عیدین کے لئے انہیں مسجدوں میں ہی جانا چاہئے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے۔‘‘ شیعہ عالم دین مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں ’’یہ مسئلہ اگر غیر شرعی ہوتا تو شیعہ و سنی کی تفریق نہیں کی جاتی لیکن ہمارے یہاں بھی خواتین کو مسجدوں میں نماز کی مکمل آزادی ہےبلکہ اس کا علحدہ نظم بھی کیا جاتا ہے۔دراصل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اجازت شرارت کے لئے ہے یا واقعی نماز کی ادائیگی کے لئے ‘‘۔مولانا کہتے ہیں’’لندن میں اجازت کے بہانے ہی خاتون نے جس طرح کی شرارت کی تھی اور نماز کی امامت کے لئے آگے بڑھ گئی تھی کہیں یہاں بھی تو اسے دہرانے کی کوشش نہیں ہوگی ؟لہذاہمیں ان مسئلوں پر بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا‘‘۔بھنڈی بازار میں واقع مغل مسجد کے ٹرسٹی علی نمازی کہتے ہیں ’’مغل مسجد جسے مسجد ایرانیان بھی کہا جاتا ہے میں مردوں کے لئے علحدہ ہال ہے جبکہ عورتوں کے لئے علحدہ ہال بنایا گیا ہے ۔لہذا عورتیں نہ صرف مجلس میں شرکت کے لئے آتی ہیں بلکہ نماز بھی ادا کرتی ہیں ۔اسلئے ہمارے یہاں بھی عورتوں کے مسجد میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سابری مالا میں جس طرح ہندو عورتوں کا داخلہ ممنوع تھا اور انہوں نے سپریم کورٹ میں عرضداشت کے ذریعہ اجازت طلب کی ،کچھ حلقوں کو لگا کہ شاید مسلمانوں کی مسجدوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہو۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی جس طرح حفاظت کی ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔