میڈیا :تبصرہ ،مشورہ اور تجاویز !

اردو اخبار معیشت
پروفیسر عبد الرحمن مؤمن۔ممبئی
(مضمون نگار پروفیسر عبد الرحمن مؤمن شعبہ ءِسماجیات (سوشیالوجی) ممبئی یونیورسٹی کے سابق صدر ،گراؔز یونیورسٹی آسٹریا (یورپ) اور انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور ،ملیشیا کے وزیٹنگ پروفیسر ، ممبئی یونیورسٹی میں یو جی سی کے پروفیسر ایمیریٹس اور ایک درجن سے زائد علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں ۔انہوں نے مذکورہ مضمون میں جس کرب کا اظہار کیا ہے وہ ملت اسلامیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔یقیناً معیشت میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ نے کسی حد تک موصوف کے پیش کردہ نکات پر پہلے سے ہی کوششیں شروع کر رکھی ہیں لیکن یہ سلسلہ مزید سنجیدہ فکر کا متقاضی ہے۔موصوف کے مضمون پر لوگوں کی آراء کا انتظار ہے۔ادارہ)

انگریزی اخباروں اور میڈیا کی طرح (بیشتر)اردو اخباروں پر بھی تجارتی اغراض اور مفادات غالب ہیں ۔اردو اخباروں میں جو تحریریں اور مضامین شایع ہوتے ہیں وہ زیادہ تر سیاسی خبروں اور ان کے سطحی اور (اکثر ) ناقص تجزیے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اردو اخباروں میں جو صحافی اور کالم نگار مستقل طور پر لکھتے ہیں، اُن (میں سے بیشتر ) کی صلاحیت ،عصری حالات و کوائف سے (کما حقہ)آگہی کے معیار ،بالغ نظری اور ملی شعور و حمیت کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے ۔مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو اخباروں میں جس نوعیت اور معیار کی تحریریں شایع ہوتی ہیں اُن کی افادیت صرف معمولی تعلیم یافتہ قارئین تک محدود ہے ۔ آزاد اور خود مختار اخبارات اور میڈیا جمہوری نظام حکومت کا ایک نہایت اہم جزو ہیں۔ اخبارات کی ذمہ داری صرف خبروں کی ترسیل و ابلاغ تک محدود نہیں ہے۔ غیر جانب دار اخبارات اور میڈیا کے فرائض ِمنصبی میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ عوام کی آرا ،اُن کے احساسات اور مسائل کی ترجمانی کریں اور انہیں صاحب اقتدار اور سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش بھی کریں ۔صحافیوں اور قلم کاروں کی یہ اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام ا لناس با لخصوص معاشرے کے کمزور اور بے سہارا طبقات اور زیر دستوں کی آواز اور اُن کے مسائل سے حکومت وقت کو آگاہ کر تے رہیں اور جمہوری اقدار کی پامالی اور بر سر اقتدار طبقے کی آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں ۔ لیکن ، بد قسمتی سے ہمارے ملک کے زیادہ تر اخبارات اور میڈیا حکومت وقت کی خیر خواہی ،ثنا خوانی اور خوشامد میں لگے ہوئے ہیں ۔مجھے ملک میں کوئی ایسا اردو اخبار نظر نہیں آتا جس میں ملک کے سیاسی ،اقتصادی ،معاشرتی اور تعلیمی حالات و مسائل پر اور بین الاقوامی معاملات اور کوائف پر مستند اور فکر انگیز تحریریں شایع ہوتی ہوں ، جس میں ہندستانی مسلمانوں کے معاملات و مسائل پر معلومات افزا اور جامع نوعیت کے مضامین ہوں ،جو اردو کے قارئین کو دنیا کے مختلف ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں مستند اور تازہ معلومات فراہم کرے ،جو ہندستانی مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیبی و دینی میراث سے روشناس کرائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو خود احتسابی کی دعوت بھی دے ،جس کو دانشور ،اہل علم اور ادباو شعرا دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور اس کی تحریروں سے استفادہ کریں اور جس کے مضامین میں زبان و بیان کی چاشنی بھی ہو ۔
جن موضوعات کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے ان پر معلومات کے وسیع اور متنوع ذرائع انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں موجود ہیں ۔انگریزی میں اعلی معیار کے جو اخبار اور رسالے ہیں اور جو انٹرنٹ پر بھی پڑھے جاسکتے ہیں مثلاً۔۔ ’دی نیو یارک ٹائمز ‘،’دی انڈیپنڈنٹ‘،’دی ٹائمز‘ ،’دی اِکنامِسٹ‘ ،’ٹائم‘ میگزین ،’دی نیو یارک ریویو آف بُکس ‘اور’ اِسپیگل اِنٹر نیشنل‘ ۔اِن میں وَقتاً فوَقتاً عالم اسلام کے متعلق معلومات افزا اور فکر انگیز تحریریں بھی شایع ہوتی ہیں ۔
انگریزی میں’ الجزیرہ نیوز‘ ویب سائٹ تمام آن لائن میڈیا سے منفرد اور کئی لحاظ سے بہتر ہے ۔اس میں عالم اسلام کے سیاسی ،اقتصادی ،معاشرتی اور دیگر حالات و معاملات کے بارے میں تحقیقی ،مستند اور فکر انگیز تحریریں شایع ہوتی ہیں ۔ہمارے ملک کے بعض انگریزی رسالوں مثلاً ’ فرنٹ لائن ‘اور ’ دی کارواں ‘ میں عصری حالات و کوائف پر چشم کشا اور مستند تحریریں شایع ہوتی ہیں ۔اسی طرح متبادل آن لائن میڈیا مثلاً ’دی وائر ‘ ، ’ دی کؤنٹ ‘ اور ’اے ایل ٹی نیوز ‘(The Wire,The Quint,&ALT News) وغیرہ میں شایع ہونے والی تحریں اور تجزیے نہایت معلوماتی اور فکر انگیز ہوتے ہیں ۔ سوشل میڈیا میں اور بھی بہت سی کار آمد اور دلچسپ خبریں ،کوائف اور وقائع آتی رہتی ہیں ۔بد قسمتی سے معلومات و اطلاعات کے اِن اَہم اور حد درجہ کار آمد ذرائع سے اکثر اُردو اَخبارات لا علم اور لا تعلق ہیں ۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ جس میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی شامل ہیں اور ہمارے نام نہاد دانشور بھی بڑی حد تک معلومات کے اِن ذرائع سے لاعلم ہیں کچھ عرصہ پہلے اسلامی سائنس کے سب سے عظیم تُرک مؤرخ اور بے مثل عالم ’فواؔد سیزگن‘ Fuat Sezginکا ۳۰ جون ۲۰۱۸ کو استنبول(ترکی) میں انتقال ہوا تھا ۔شاید ہی کسی اُردو اخبار نے ان کی حیرت انگیز اور حد درجہ وقیع خدمات پر کوئی مضمون شایع کیا ہو ۔اِن اَفسوسناک حالات کے پس منظر میں آج ایک ایسے اردو اخبار کی ضرورت ہے (جو روزنامہ نہ سہی کم از کم ہفت روزہ تو ضرور ہو ) جو اس خلا کو پر کر سکے ۔اس اخبار کے مندرجات اور مشمولات کا جو خاکہ میرے ذہن میں ہے وہ درج ِذَیل ہے :
عالم اسلام با لخصوص دنیا کے مختلف ملکوں اور خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کے معاشرتی ،اقتصادی ،دینی ،تہذیبی اور تعلیمی معاملات و مسائل پر مستقل فیچر ۔ہندستانی مسلمانوں کے معاملات و مسائل کا معروضی انداز میں تجزیہ ( جس میں خود احتسابی کا جذبہ بھی کار فرما ہو )۔عالمی حالات و کوائف پر مستقل فیچر ۔عالَمیت (یا عالَم کاری۔گلوبلائزیشن)اور عالم اسلام پر مستقل فیچر ۔امریکہ،یورپ ،آسٹریلیا اور دیگر ملکوں اور بر اعظموں میں رہنے والے مسلمان مہاجرین اور تارکین وطن ،ان کے معاملات و مسائل ،جدید اطلاعات و نشریات کی تکنولوجی کا بڑھتا ہوا نفوذ اور اثر ،حلال صنعت(حلال انڈسٹری )جس میں حلال کھانے ،حلال مالیات اور حلال ادویہ ،سیاحت اور فیشن وغیرہ شامل ہیں اور جو بڑی تیزی کے ساتھ دنیا کے مختلف ملکوں میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے ۔وطن عزیز کے سیاسی حالات اور سیاسی خبروں کا متوازن ،غیر جانب دار انہ اور معروضی انداز میں تجزیہ ۔بیسویں اور اکیسویں صدی میں عالم اسلام بالخصوص ہندستان کی عظیم المرتبت ہستیوں کا تذکرہ (اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں !)’متاع ِکاررواں‘ (ہندستانی مسلمانوں کی دینی و تہذیبی میراث پر معلومات افزا فیچر)۔’حکایتِ مہرو وفا‘ (ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کی دل فریب داستان ،اس کی تشکیل و ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ ،دل چسپ واقعات ۔
ممتاز اور ناموَر اہلِ کمال اور ماہرین فن کے ساتھ گفتگو ( انٹرویو)تعلیمی ،فلاحی اور رضاکارانہ انجمنوں اور ان کی خدمات کا تعارف ۔تاریخ کے جھروکے سے ۔ہمارے زمانے کے بعض ناموَر یورپی و امریکی مؤرخین اور ماہرین فن نے ہندستان کی تاریخ کے بعض ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہےجن کا تعلق مسلمانوں سے ہے ۔مثلاً ’رچرڈ ایٹن ‘Richard Eatonنے جو ایک ممتاز امریکی مؤرخ ہیں ،اپنی تحریروں میں اس مفروضے کی قلعی کھولی ہے کہ بر صغیر میں اسلام بزور شمشیر پھیلا ،یا مسلمان حکمرانوں نے بڑی تعداد میں ہندوؤں کے ،مندر منہدم کیے ۔’ولیم ڈلرمپل ‘ کی کتاب ’ دی لاسٹ مغل ‘ میں آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے عہد حکومت اور اس زمانے کے سیاسی ،معاشرتی اور تہذیبی حالات و کوائف پر مستند معلومات موجود ہیں ۔Rutgers University.Newarkمیں تاریخ کی اسسٹنٹ پروفیسر مس ’آڈرے ٹرشکے‘Audrey Truschke کی کتاب ’کلچرس آف اِنکاؤنٹرس :دی رائیز اینڈ ڈِیکلائن آف سنسکرت ڈیورنگ دی مغل رول ‘ میں عہد مغلیہ میں سنسکرت زبان و ادب کی شاہی سرپرستی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔مصنفہ کی دوسری کتاب ’دی لائف اینڈ ٹریجڈی آف انڈیاز موسٹ کنٹروونشیل کنگ ‘میں شہنشاہ اورنگ زیب کے بارے میں کئی غلط بیانیوں اور بد گمانیوں کا ازالہ کیا گیا ہے ۔اس نوع کی کتابوں اور ان میں مذکور چشم کشا حقائق سے اردو قارئین کو روشناس کرایا جا سکتا ہے۔اخبار کا ایک صفحہ شعرو ادب کے لیے مختص ہونا چاہیے ۔ایک صفحہ خواتین کے متعلق ہو ۔پیشہ ورانہ رہنمائی (ووکیشنل گائڈنس ) پر مستقل فیچر یا کالم ،اخبار کا ایک صفحہ انگریزی زبان میں ہونا چاہیے ۔ہمارے بہت سے نوجوان (لڑکے اور لڑکیاں )انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بڑی حد تک اردو سے نابلد ہیں ۔اس صفحے کے ذریعے ان طلبہ و طالبات کو ان کی تہذیب ،معاشرے اور دینی و فلاحی اقدار سے روشناس کرایا جا سکتا ہے ۔
جن موضوعات کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے ان پر معلومات کی کمی نہیں ہے لیکن ایک بڑی دقت یہ ہے کہ یہ معلومات زیادہ تر انگریزی میں ہیں ۔ اِن مضامین کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرایا جا سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری قوم میں ایسے افراد بہت کم ہیں جو انگریزی کی عمدہ استعداد رکھتے ہوں اور جن میں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو ۔اردو اخباروں میں جو لوگ اس کام کے لیے مامور ہیں ان میں سے بیشتر کی صلاحیت بھی معیاری نہیں ۔کچھ عرصہ پہلے نائب صدرِ جمہوریہ ہند جناب حامد انصاری اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے ۔الوداعی تقریب میں ملک کے وزیر اعظم نے بعض بظاہر ’تعریفی‘ لیکن فی الواقع ’تمسخرانہ ‘ کلمات کہے ( جسے ہماری زبان میں جوتا لپیٹ کر مارنا کہا جاتا ہے) اس کی رپورٹنگ بعض اردو اخباروں نے اس طرح کی کہ جیسے وزیر اعظم نے انصاری صاحب کی توہین نہیں، تعریف و ستائش کی ہو !
جس نوعیت اور معیار کے اردو اخبار کا تصور میرے ذہن میں ہے اور جس کا سرسری سا خاکہ میرے سطور بالا میں پیش کیا گیا ہے اس کو عملی شکل دینے کے لیے کم از کم چار باتیں ضرور پیش نظر رہنی چاہئیں ۔اول تو یہ کہ اس اخبار کی ادارت ایسے شخص کے سپرد کی جائے جو ہر لحاظ سے اس کا اہل ہو اور جس میں انتظامی صلاحیت اور تجربہ بھی ہو ۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی عصبیت ،تنگ نظری اور مداہنت سے بلند صاحب علم اور صاحب فکر اہل قلم ہو،جس کی تحریر شگفتہ بھی ہو اور پُر اَثر بھی ۔ ،ملک و ملت کے حالات و معاملات اور عالمی حالات و کوائف سے پوری طرح باخبر ہو ۔نہ صرف اسلامی ذہن و فکر رکھتا ہو بلکہ ملی حمیت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہو یعنی بلا خوف لومۃ و لائم حقیقت بیانی کی جرائت ایمانی کا مالک ہو ۔اور سب سے بڑھ کے خود احتسابی کا جذبہ رکھتا ہو جس سے فی زمانہ ہمارے علما اور قائدین ِ ملت نے پہلو تہی اختیار کر رکھی ہے ۔دوسرے یہ کہ اس اخبار میں مستقل طور پر لکھنے والوں کی ایک جماعت ہونی چاہیے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس نوعیت کے اخبار کے لیے قارئین کی خاصی تعداد موجود ہے ؟ چوتھا سوال ( جو سب سے زیادہ دشوار گزار ہے )وہ مالی وسائل کی فراہمی کا ہے۔ پہلے تین سوالوں کا جواب تو میرے خیال میں زیادہ مشکل نہیں ہیں ۔
ہماری نوجوان نسل میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کی فکر اس مضمون میں درج معیار صحافت و قیادت سے مطابقت رکھتی ہے۔جن کے ذہن پرانی پیڑھی کی کمزوریوں ،مصلحت کوشی اور بندشوں سے آزاد ہیں ۔جو قوم و ملت کی بے غرضانہ خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ان میں سوچنے سمجھنے ،پڑھنے لکھنے کی صلاحیت بھی ہے۔ ایسے افراد کو تلاش کر کے اُن کی ضروری تربیت کی جاسکتی ہے ۔البتہ جہاں تک مالی وسائل کی فراہمی کا سوال ہے اس کے بارے میں کوئی مشورہ دینے سے قاصر ہوں ۔بس حق تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اس کار خیر کے لیے وسائل مہیا فرمادے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *