رمضان المبارک میں زکوۃ قرب و جوار کےمستحقین تک پہنچائیں

روزنامہ انقلاب کے مدیر شاہد لطیف
روزنامہ انقلاب کے مدیر شاہد لطیف

زکوۃ مافیائوں سے ہوشیار رہ کر غریب و مسکین رشتہ دار،پاس پڑوس اور اپنے علاقے کے لوگوں کا خیال کریں
ممبئی: (معیشت نیوز) رمضان المبارک آتے ہی جہاں نیکیوں میں سبقت حاصل کرنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور خوب خوب عبادتیں کی جاتی ہیں وہیں زکوۃ کی دائیگی کے لئے بھی لوگ پریشان رہتے ہیں ۔چونکہ خلافت نہ ہونے کی وجہ سے بیت المال کا نظم قائم نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ دینی جماعتوں نے اپنے طور پر زکوۃ کی وصولی کانظم ترتیب دے رکھا ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ رشتہ دار،قرب وجوار ،آس پڑوس کے لوگ جو مستحق زکوۃ ہوتے ہیں وہ تو محروم رہ جاتے ہیں جبکہ دور دراز سے آئے ہوئے لوگ ،زکوۃ مافیا ،ایسے ادارے جو زکوۃ کی رقم کا غلط استعمال کرتے ہیں زکوۃ وصول کر کےچلے جاتے ہیں نتیجتاً علاقے کے لوگ سال بھر تک پھر کسمپرسی میں زندگی گذارتے ہیں۔لہذا ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم جہاں زکوۃ کی مدوں کا لحاظ کرتے ہوئے زکوۃ دیں وہیں آس پاس کا بھی لحاظ کریں۔روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر شاہد لطیف کہتے ہیں ’’ہر صاحب نصاب کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ زکوۃ کے مصارف کیا ہیں۔کن لوگوں کو زکوۃ دی جانی چاہئے علماء بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں لیکن میں ذاتی طور پر سمجھ سکتا ہوں کہ صاحب نصاب کو اپنے آس پاس کے لوگوں کی معاشی حالت کا کچھ نہ کچھ تو احساس اور علم ہونا چاہئے۔لہذازکوۃ کی تقسیم اسی بنیاد پرہونی چاہئے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مستحقین زکوۃ تک ہم کیسے پہنچیں اس کا خیال ہونا چاہئے۔زکوۃ کی رقم کو جیسے تیسے تقسیم کردینے کا جو رجحان پنپ رہا ہے وہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ہمارے یہاں ایک موضوع عرصہ دارز سے اجتماعی نظم زکوۃ کا زیر بحث ہے۔چنانچہ جن علاقوں میں اجتماعی نظم زکوۃ کی کوئی چھوٹی موٹی کوشش بھی کی گئی ہو اور نظم قائم ہو تو ہمیں پہلے اس کا لحاظ رکھنا چاہئے۔یقیناً جب ہم ان کوششوں کی طرف توجہ دیں گے تو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ مل سکتا ہے اور ہم حقیقی مستحقین تک پہنچ سکیں گے‘‘۔

مولانا دانش ریاض فلاحی
 دانش ریاض فلاحی

مولانا دانش ریاض فلاحی کا کہنا ہے کہ عموماًزکوۃ وصولنے والے ان مصارف کا تذکرہ نہیں کرتے جس سے ان کے تگ و دو پر اثر پڑے المیہ تو یہ ہے کہ ممبئی میں ایسی تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں جو زکوۃ وصول کر عیش کوشی میں مبتلاء ہیں۔‘‘مولانا کہتے ہیں ’’جن آٹھ مصارف میں زکوۃ خرچ کرنا واجب ہے انہیں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہےچنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکوۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]پہلا اور دوسرا مصرف یعنی فقراء اور مساکین یعنی ان لوگوں کو زکوۃ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دی جائے گی۔تیسرا مصرف یعنی زکوۃ جمع کرنے والے اہل کاریعنی وہ لوگ جنہیں خلافت اسلامیہ کی طرف سے زکوۃ جمع کرنے پر مقرر کیا گیا ہو۔چوتھا مصرف یعنی جن لوگوں کی تالیف قلبی مقصود ہویعنی اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اسلام کے قریب لانے کیلئے کچھ دیا جائے چاہے کوئی ایسا غیر مسلم ہو جس کے مسلمان ہونے کا امکان ہو۔پانچواں مصرف یعنی گردن آزاد کروانا یعنی اگر کوئی مسلمان کفار کی قید میں ہے، تو کفار کو زکوۃ سے رقم دےکر مسلمان کو آزاد کروا لیا جائےاسی زمرے میں وہ قیدی بھی آتے ہیں جو جیلوں میں صرف اس وجہ سے بند ہیں کہ وہ پرہیزگار مسلمان ہیں۔چھٹا مصرف یعنی مقروض لوگ، اہل علم نے ان کی دو قسمیں بیان کی ہیں:1- دو متحارب گروپوں میں صلح کروانے پر دونوں کو مال دےکر صلح پر آمادہ کرنا،2- اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض لیا ہو اور اسے ادا نہ کرپا رہا ہو۔ساتواں مصرف یعنی فی سبیل اللہ اور یہاں “فی سبیل اللہ” سے مراد صرف جہاد ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی مراد نہیں ہے، چنانچہ نیکی و بھلائی کے دیگر تمام راستے اس میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔آٹھواں مصرف یعنی ابن سبیل: اس سے مراد مسافر ہے، یعنی ایسا مسافر جس کے پاس زادِ راہ ختم ہو چکا ہو، تو اسے اپنے علاقے تک پہنچنے کیلئے زکوۃ سے امداد دی جائے گی۔‘‘‘ان مصارف کے علاوہ کسی اور مصرف میں زکوۃ دینے سے نہ تو وہ ادا ہوپائیگی اور نہ ہی اسلام کو وہ مقصودہی ہےکیونکہ اسلام تمام لوگوں کی بھلائی چاہتا ہےلہذا بہتر ہے کہ لوگ قریبی لوگوں کا خیال رکھیں اور ذاتی عیش کوشی پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنے والوں سے ہوشیار رہیں‘‘۔مولانا نے کہا کہ ’’حیلے بہانے سے زکوۃ کی رقم کے اتنے مصارف بنا لئے گئے ہیں کہ قرآن واضح لفظوں میں جس کی تلقین کرتا ہے اس کی نفی ہوتے دکھائے دیتی ہے لہذا اس رمضان میں قر آن پاک میں بتائے ہوئے واضح پیغام پر عمل کریں اور کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *