تراویح رمضان کی خاص عبادت ہے

ابو نصر فاروق
ابو نصر فاروق

ابونصر فاروق : 6287880551 – 8298104514

(۱)’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی تو بہت سے لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ دوسری رات نبیﷺ نے نماز پڑھی تولوگ اور زیادہ ہو گئے۔پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ جمع ہوئے تو نبیﷺباہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا : میں نے دیکھ لیا تھا کہ تم لوگ جمع ہوئے ہو لیکن مجھے صرف ایک چیز نے باہر آنے سے روک دیا اور وہ یہ کہ یہ نماز تم پرفرض نہ کر دی جائے۔‘‘(بخاری،مسلم،ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، احمد، مالک)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں رسول اللہﷺنے کوئی ایسی نماز پڑھی جس کے پڑھنے کا اشتیاق لوگوں میں شدت سے پیدا ہوا چنانچہ دوسری رات زیادہ لوگ اور تیسری رات اور زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ تیسری یا چوتھی رات لوگ انتظار کرتے رہے لیکن رسول ﷺ اپنے حجرے سے باہر تشریف نہیں لائے اور صبح میں فرمایا کہ اس نماز کے فرض ہو جانے کے اندیشے سے میں نے یہ نماز جماعت سے نہیں پڑھائی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون سی نماز تھی؟ عام طور پر امت میں یہ نماز تراویح کے نام سے مشہور ہے۔اس نماز میں ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھی جاتی ہے جس کو ترویحہ کہتے ہیں، اسی لئے اس نماز کا نام تراویح ہو گیا۔مردوں اور عورتوں سب کے لئے یہ نماز امت میں سنت موکدہ تسلیم کی گئی ہے۔ تراویح وہ خاص نماز ہے جو صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، رمضان کے بعد نہیں پڑھی جاتی ہے۔’’رسول اللہﷺنے فرمایا:جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میںقیام کیا (یعنی تراویح کی نماز پڑھی)اس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے۔‘‘ (بخاری/مسلم) جس طرح روزہ پچھلے سارے گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے اسی طرح تراویح کی یہ نماز بھی پچھلے سارے گناہوں کو معاف کرا دیتی ہے۔ فرمان رسول کے مطابق،رمضان میںہر فرض کا ثواب ستر گنا اور ہر نفل کا ثواب فرض کے برابر ہو جاتا ہے۔ کیا کوئی اہل ایمان ، متقی اورنیک طبیعت مسلمان اس نماز سے جی چرائے گا اور اس کو پڑھنا پسند نہیں کرے گا۔رمضان توعبادتوں کا ہی مہینہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین سے بیزار اور شریعت سے ناواقف مسلمانوں نے اپنے دین کی طرح اس نماز کا بھی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ جس نماز کو رمضا ن کی ہر رات میں پڑھنا ہے اسے چھ دنوں میں ٹرخا دیا جاتا ہے۔اس سے بڑھے تو ۱۱ دن، ۱۵ دن، ۱۹دن یا ۲۱ دن تک پڑھ کر تراویح پڑھنا بند کر دیا جاتا ہے۔
کچھ لوگ ترایح اور تہجد کی نماز کوایک ہی نماز کہتے ہیں اور تراویح کو نفل مانتے ہیں۔چنانچہ تراویح کوتہجد سمجھنے والے شب قدر میں تراویح نہیں پڑھتے ہیں اور اس کے اجر و ثواب سے محروم رہتے ہیں۔لیکن جو لوگ اس کو تہجد نہیں تراویح کی الگ نماز سمجھتے ہیں وہ رمضان بھر اس کے پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں،اور اس کی اہمیت کے سبب اس کو سنت مؤکدہ مانتے ہیں۔دنیا بھر میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت تراویح کو تہجد نہیں مانتی ہے۔اور اس کا ایسا ماننا واجب ہے۔تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے ایسا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا ہے، بلکہ حدیث کا مفہوم سمجھنے کے فرق کی وجہ سے ایسا تصور پیدا ہوا ہے۔ لیکن چند نکات ہیں جو اپنا جواب چاہتے ہیں۔تہجد کی نماز نفل ہے اور یہ نماز عام لوگ نہیں بلکہ انتہائی خاص لوگ پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں،جب کہ تراویح ہر خا ص و عام، مرد عورت، بوڑھے بچے یہاں تک کہ نابالغ بچے سب پڑھتے ہیں۔تہجد کی نماز جب کچھ لوگوں نے پڑھنی چھوڑ دی تو نبی ﷺ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا،جب کہ تراویح رمضان کا چاند دیکھ کر پڑھنا شروع کرتے ہیں اور عید کا چاند دیکھ کر پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔تہجد کی نماز چھپ کر رات کے آخری پہر پڑھی جاتی ہے،جبکہ تراویح کی نماز کھلے عام عشا کی نمازکے بعد پڑھی جاتی ہے۔تہجدعشا کی نماز کے بعد سو کر اٹھنے کے بعد ہی پڑھی جا سکتی ہے،جبکہ تراویح بغیر سوئے ہوئے عشا کی نماز کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہے۔تہجد کی نماز کے ساتھ وتر پڑھنا بھی ضروی ہے، جبکہ تراویح کے بعدتہجد پڑھنے والے عام طور پر وتر نہیں پڑھتے ہیں۔تہجد کی نماز کے بیچ میں کسی طرح کی تسبیح نہیں پڑھی جاتی ہے ، جبکہ تراویح کی نماز تراویح کہلاتی ہی اس لئے ہے کہ اس کی ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھی جاتی ہے۔
(۲) مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوئی کتاب فقہ السنہ میں پاکستان کے اہل حدیث عالم جناب محمد عاصم لکھتے ہیں:’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضان میں جماعت سے الگ۲۰ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ ‘‘ (بیہقی)’’ حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ انہوںنے حضرت اُبئی بن کعبؓ اور تمیم داریؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو ۱۱ رکعت(مع وتر) پڑھائیں۔‘‘(مؤطا امام مالک ) ’’محمد بن نصر کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں لوگ ۲۱رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘مؤطا امام مالک، محمد بن نصر اوربیہقی کی روایت میں ۲۰ علاوہ وتر یا۲۳ مع وتر کا ذکر ملتا ہے۔عمدۃ القاری اور نیل الاوطار میں لکھا ہے کہـ: صحابہ اور تابعین ۱۶،۲۴،۳۶،۳۸ اور ۴۰ رکعت نمازیں پڑھا کرتے تھے،لیکن عام طور پر وتر کے علاوہ۲۰ رکعتوں کا رواج رہا۔ان حدیثوں سے تراویح کی نماز کا آٹھ(۸) رکعت سے چالیس(۴۰) رکعت تک پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مکہ میں جو لوگ تراویح پڑھتے تھے وہ ہر چار رکعت کے بعد طواف کرتے تھے۔مدینہ والوں نے کہا کہ ہم اس نیکی سے محرو م ہیں اس لئے ہم طواف کے بدلے مزید چار رکعتیں پڑھیں گے۔اس طرح چالیس رکعت تراویح پڑھنے کی رواج ہواتراویح پڑھنے میں آٹھ رکعت پڑھا جائے یا بیس رکعت اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ اہمیت اس کی ہے کہ اسے مہینے بھر پڑھا جائے۔نادان لوگوں نے اصل مسئلے سے امت کی توجہ ہٹا کر آٹھ اور بیس کی بیکار باتوں میں امت کو الجھا دیا ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ تراویح جماعت سے بیس رکعت پڑھنی چاہئے ، تنہا آدمی آٹھ رکعت بھی پڑھ سکتا ہے۔
(۳)حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺبھلائی کے معاملے میں(معمولاً)تمام انسانوں سے زیادہ فیاض تھے اور خاص طور پر نبیﷺ رمضان میں بے انتہا فیاض ہوتے تھے۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان کے زمانے میں ہر رات رسول اللہﷺکے پاس آتے تھے اور حضورﷺانہیں قرآن مجید سناتے تھے۔جب جبرئیل علیہ السلام نبی ﷺ سے ملتے تھے تو حضور ﷺبھلائی کے معاملے میں چلتی ہوا سے بھی زیادہ فیاض ہوتے تھے۔(بخاری/مسلم)یہ حدیث بتاتی ہے کہ ہر رمضان میں نبیﷺ جبرئیل علیہ السلام کو پورا قرآن سناتے تھے۔چنانچہ رمضان میں پورا قرآن پڑھنا بھی ایک سنت ہوئی۔جو لوگ قرآن پڑھنا نہیں جانتے ہیں وہ رمضان میں پور قرآن پڑھنے کی نیکی سے محروم رہتے ہیں ۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے امت کے اکابر نے تراویح کی نماز میں پورا قرآن ختم کرنے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ نمازی تراویح بھی پڑھ لے اور پورا قرآن بھی سن کر دہرا لے۔لیکن بے عمل اور بد دین لوگوں نے ایک نئی بدعت جاری کی۔انہوں نے سمجھ لیا کہ پورا قرآن ختم ہونے والی نماز تراویح ہے اور اس کے بعد جو نماز چھوٹی چھوٹی سورتوں کے ساتھ پڑھی جاتی ہے وہ سورہ تراویح ہے یعنی تراویح نہیں ہے۔جب قرآن والی تراویح پڑھ چکے تو فرض اد اہو گیا اب نفل کی فکر کون کرے۔چنانچہ ختم قرآن کے بعد لوگ تراویح پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔قرآن والی ترایح پڑھتے ہوئے اگر کسی وجہ سے ناغہ ہو گیا تو سمجھتے ہیں کہ اب تو سلسلہ ٹوٹ گیا اب نماز پڑھنے کا کیا فائدہ اور تراویح پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
ایک فتنہ یہ بھی پیدا ہوا کہ ایسے پیشہ ور حافظ لوگ رقم کی لالچ میں ہر جگہ تراویح پڑھانے لگے جو نہ سال بھر قرآن کا دورہ کرتے ہیںاور نہ ہی ان کو ٹھیک سے قرآن یادہے۔تراویح میں قرآن اس طرح پڑھنا چاہئے کہ نمازی قرآن کا ہر لفظ صاف صاف سنیں اور دل میں اس کو دہرائیں۔لیکن یہ حافظ لوگ ایسے طوفانی انداز میں قرآن پڑھتے ہیں کہ لوگوں کو یعلمون اور تعلمون کے سوا کچھ سنائی ہی نہیںدیتا۔گویا تراویح کی نماز ایک رسم بن کر رہ گئی ہے اور اس کی روح ختم ہو گئی ہے۔کسی جماعت کے ساتھ ایسی تراویح پڑھنے سے اچھا ہے کہ جس کو قرآن پڑھنا آتا ہو وہ تنہا تراویح پڑھے تاکہ ایمان اور احتساب کی شرط پوری ہو سکے اور یہ نماز ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت بن سکے۔تراویح کی نماز میں پورا قرآن پڑھنا حدیثوں سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔اصل چیز تراویح کی نماز کا پڑھنا ہے۔آسانی کے لئے قرآن اتنا پڑھنا چاہئے جو نمازی سکون سے سن سکیں، دہرا سکیں اور نماز میں عبادت کی کیفیت پیدا ہو۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر روز بیس رکعت میں ایک پارہ یاسوا پارہ قرآن پڑھا جائے۔یا ہر رکعت میں ایک رکوع سے زیادہ نہ پڑھا جائے، چاہے تراویح میں پورا قرآن مکمل ہو یا نہ ہو، کیونکہ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔اس بات کو ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی مقام پرکوئی حافظ نہ ملے تو کیا وہاں کے لوگ تراویح کی نماز نہیں پڑھیں گے ؟ ضرور پڑھیں گے۔امامت وہ کرے گا جس کو زیادہ قرآن یاد ہوگا۔ایسے ایک سے زیادہ لوگ بھی تراویح کی نماز کی امامت کر سکتے ہیں۔جہاں مسجد نہ ہو اور مسلمانوں کی اتنی آبادی بھی نہ ہو کہ جماعت ہو سکے تو جو چند آدمی الگ الگ جگہوں پر رہتے ہیں وہ اپنے مقام پر تنہا ہی رمضان بھر تراویح کی نماز پڑھتے رہیں گے اور قرآن اتنا ہی پڑھیں گے جتنا ان کو یاد ہو گا۔اصل چیز تراویح کی نماز پڑھنا ہے۔
رمضان میں بغیر سمجھے قرآن پڑھنے کا رواج مسلمانوں کے درمیان ایک طویل مدت سے چلا آ رہا ہے۔ بے علم اور نادان مسلمان اس کو نیکی سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ایسا کرنا کوئی نیکی نہیں ہے۔جاہل قسم کے مولویوںاورمذہبی لوگوں نے نبی ﷺ کی اس حدیث کوغلط طریقے سے مشہور کر رکھا ہے کہ۔’’حضرت عبد اللہ ؓ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھتا ہے اس کے بدلے میں اس کی ایک نیکی شمار ہوتی ہے اور(قرآن میں ایک اصول بیان کیاگیا ہے کہ)ہر نیکی کے بدلے میں دس گنا اجر ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ال م ایک حر ف ہے۔ الف ایک حر ف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ ‘‘(ترمذی،دارمی)اس حدیث کی بنیاد پر ہر حرف پر دس نیکی ملنے کی بات تو کہی گئی لیکن خود قرآن کے شروع میںجو کہا گیا ہے کہ ’’یہ(قرآن) راہ دکھانے والی کتاب ہے ان لوگوں کو جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ اس کو ایک دم نظر انداز کر دیاجاتا ہے۔قرآن کی بات کو بنیاد بنائیں تب اس حدیث کا صحیح مفہوم سمجھ میں آئے گا۔جو آدمی قرآن کو ہدایت پانے کے لئے معنی مفہوم کے ساتھ سمجھ کر پڑھا کرتا ہے، وہ کسی وقت کچھ آیتیں یا سورتیں بغیر معنی کے بھی پڑھے گا تو اس کو اس حدیث کے مطابق ثواب ملے گا، کیونکہ وہ قرآن پڑھنے کا حق ادا کرتار ہتا ہے۔جو قرآن کے اصلی مقصد کو نہ جانتا ہے نہ مانتا اور نہ پورا کرتا ہے، اس کو بے سمجھے قرآن پڑھنے کا ثواب کیسے ملے گا۔اس بات کو ایک اور مثال سے سمجھئے۔نبی ﷺنے فرمایا:ایک فقیہ شیطان پر ایک ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ بھاری ہے۔ (ترمذی،ابن ماجہ)یعنی ایک ہزار عبادت گزاروں کو شیطان بہت آسانی سے گمرا ہ کر سکتا ہے لیکن ایک سمجھدار مومن کو گمراہ کرنا لوہے کا چنا چبانے جیسا ہے۔اس مثال کے مطابق بغیر سمجھے قرآن کا پڑھنے والاعبادت گزار ہے سمجھدار مومن نہیں۔اور قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والا اور علم رکھنے والا سمجھدار مومن شیطان کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوگا۔اس لئے رمضان میں سورہ البقرہ کا سمجھ کر پڑھ لینا اتنی بڑی نیکی ہے کہ پورے قرآن کو دس بار بھی بغیر سمجھے ہوئے پڑھا جائے تو ویسی نیکی نہیں ملے گی۔جہاں تک قرآن کا مطالعہ کرنے کا تعلق ہے تو ہر مسلمان پر پورے قرآن کو سمجھ کر پڑھنا فرض ہے۔ جو قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھتا ہے وہ مومن اور مسلم کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ پھر اس کی نماز، روزہ، حج اور عمرہ کیسے قبول کیا جائے گا۔ وہ تو مومن ہے ہی نہیں۔ اللہ کی نگاہ میں وہ تو کافر و مشرک ہے۔ عبرت حاصل کرو اے آنکھ رکھنے والو !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *