ڈاکٹر رحمت اﷲ ،جنسیوا کوآپریٹیو، ممبئی
معا شیا ت جد ید دور کا وہ علم و فن ہے جو انسان کو اپنے محدود وسا ئل کے استعمال سے انتہا ئی درجہ کا نفع حا صل کر نے کاگُرسکھا تا ہے۔ انسان اپنی تگ ودو سے وسائل حاصل کر کے اپنی ضروریات کو پو را کر تا ہے تا کہ اسے پر سکون اور پُر وقا ر زند گی میسر ہو لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ تمام تر کا وش کے باوجود انسان کی دسترس میں موجود وسائل اس کی خوا ہشا ت کے مقا بلہ میں بہت کم اور قلیل ہو تے ہیں اور یہیں سے انسا ن کے معا شی مسا ئل جنم لیتے ہیں ۔ ان مسا ئل کے حل کی تلاش و جستجوہی سے جو علم وفن و جود میں آ یا ، اسے علمِ معا شیات کے نام سے مو سوم کیا گیا ، دیگر علوم کی طر ح اس علم نے بھی سا ئنس کی شکل اختیار کر لی۔ علم معا شیا ت کا بنیا دی اُصول یہ ہے کہ اگر محدود و سا ئل کے استعما ل سے انتہائی در جہ کا نفع و نتیجہ چا ہئے تو اول یہ کہ ان کا تر جیحی استعمالUse Priority کر نا چا ہئے دوئم یہ کہ ان کا بارآور استعمال Productive Use کر نا چاہئے ، سو ئم یہ کہ اُ ن کا اثرآ فر یں استعما ل Efficient Use کر نا چا ہئے چہا رم یہ کہ اُ ن کا کفا یت شعاری سے استعما ل Economic Use اور آ خری با ت یہ ہے کہ اس نظا مِ استعما ل کو اپنا بو جھ خود اُ ٹھا نے کی صلا حیت Sustainable ہو نی چا ہئے ، اس طرح جد ید معا شیات کے اُصولوںکا لحا ظ کر کے اگر زکوٰۃ کی رقم استعما ل کی جا ئے تو چند بر سوں میں مسلم معا شرہ محرو می اور لاچاری کے دلدل سے نکل کرپر سکون اور باوقار زند گی گزارنے کے لا ئق ہو جا ئے گا۔ یہ ما ہر ین معا شیا ت کے مر تب کر دہ اصول و ضوابط ہیں، جن کی روشنی میں فرد وجما عت اپنے محدود و سا ئل سے امکا نی حد تک Maximum Possible Return حا صل کر سکتے ہیں۔مثا ل کے طور پر اشیا ء کے صرف Consumption ، اشیا ء کی پیدا وار production ، سر ما یہ کاری Investment وسا ئل کی عا دلانہ تقسیم Distribution مصنو عا ت کی قیمتوں کا تعین Price Determination تجا رت Trade عوامی وسا ئل کا استعمال Public Fund Utilization اور منصوبہ بندی Planning وغیرہ سے متعلق تفصیلی اُصول اور ضوا بط کی تدوین کی ہے جن کی روشنی میں فر د و جما عت و سائل کا ایک خا ص انداز میں استعمال کر کے اس کے بہتر ین نتا ئج حا صل کر سکتے ہیں۔ غرض زند گی کے ہر شعبے میں بھی ہم مسا ئل کے حل کیلئے اپنے محدود و سا ئل کو استعما ل کر تے وقت معاشیا ت کے متعلقہ ر ہنما اُصولوں سے استفادہ کر یں تا کہ متوقع نتیجہ انتہا ئی فا ئدہ کا ہو ، یہی عقل و دا نش سے قر یب تر ہے ، اور یہی مطلوب اور اما نت و دیا نت کے مطا بق بھی ، یہا ں اس تذ کیر کی ضرورت محسو س ہو تی ہے کہ ارض و سما ء کے وسا ئل قدرت نے کسی خا ص گروہ یا خا ص زمانے کے لو گو ں کیلئے مخصوص نہیں کئے ہیں ۔ کو ئی بھی شخص یا جما عت وسائل کا با اُصول استعما ل کر کے استفادہ کرسکتا ہے ، لیکن اُصول و ضوابط سے آزاد ، کفا یت شعا ری سے دُور غیر حکیما نہ ،ا اور فضول خر چی کے ساتھ و سائل کا استعما ل ہوا ، تو ہم مستقبل میں معاشی مجر م اور گنہگار کہلا ئیں گے۔ اب اگر آ پ انسانی معا شرہ پر غور کر یں تو معلوم ہو گا کہ اس میں ہر طر ح کے لو گ پا ئے جا تے ہیں، مثلاً طاقتوروکمزور،امیر و غر یب ، با رو زگاروبے رو زگار ، بو ڑھے و بچّے ، عورت اور مرد ہیں۔ اس میں ہر شخص اپنی کفالت پر قادر نہیں ہے۔ چو نکہ سماج میں کہیں بھی پا ئی جا نے والی غر بت و مفلوک الحا لی پو رے سماج پر برا،اثر ڈالتی ہے، اور اس کے سکون و وقار کیلئے خطر ہ بن جا تی ہے، اس لئے تا ریخ کے ہر دور میں کمزور طبقا ت کی کفا لت انفرادی طور پر متمو ل افراد اور اجتما عی طور پر باشعور گروہ اور حکو متیں کر تی رہی ہیں۔ ایک مکّمل نظا م ِزند گی اور ایک فلا حی معا شرے کی تعمیرپر خصوصی تو جہ ا سلام نے بھی دی ہے۔ اسلامی تعلیما ت نے نہ صرف اپنے ما ننے والوں کو بے سہا را لوگو ں کی مدد پر اُکسایہ ہے، بلکہ امیروں کے ما ل میں سائل اور محروم کے حق کا اعلا ن کر کے صاحب ایما ن کو بیکسوں کی اعا نت کیلئے مجبور کر دیا ہے۔
زکوٰۃ دراصل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، عُرف عام میں زکوٰۃ اس خصوصی صد قہ کو کہتے ہیںجو صاحب نصاب اپنی سالا نہ بچت / پو نجی/ کا 2.5 فیصد کے حساب سے خا لص اﷲ کی رضا کیلئے غریبوں کی مدد اور مفا دعا مہ کیلئے خرچ کر تا ہے اسلام دین فطرت ہو نے کی وجہ سے یہ امتیاز ر کھتا ہے کہ اس کی ہر تعلیم اور ہر حکم سے حاصل ہو نے والے فوائد رو حا نی اور ما دّی دونوںنو عیت کے ہو تے ہیں، چنا نچہ قر آ ن و سنت کے مطا لعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ زکوٰۃ کی فر ضیت اورادائیگی سے اس طر ح کے کئی فوا ئد حا صل ہو تے ہیں ۔ مثلاً زکوٰۃ کی ادائیگی سے ما ل کی تطہیر و پا کی حا صل ہو تی ہے، یہ امر قا بلِ ذکر ہے، کہ انسان جو مال کما تا ہے ، وہ صرف خا لص اپنی کو شش کا نتیجہ ہی نہیں ہو تا، بلکہ اُس کے بننے سنورنے اور کما نے میں ہوا ئوں اور فضا ئوں کے علا وہ لو گوں کی نیک خواہشات ، دعا ئوں، اور رب العا لمین کی مہر با نیوں کے نتیجہ میں حاصل ہو تا ہے ، ظا ہر ہے کہ بطورشکر انہ اور ادائیگی حق کے طور پر بند ہ صدقہ کر تا ہے، تا کہ اس کا ما ل پا ک ہو کر رشتے داروں اور خودکے استعمال کے لا ئق بن جا ئے۔
دوسرے یہ کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے تز کیہ نفس حا صل ہو تا ہے ، انسان کا نفس اس کا سب سے بڑ ا دشمن ہے، اگر انسان کو یہ محسوس ہو نے لگے کہ اس کا ما ل خالص اس کی محنت و مشقت کا نتیجہ ہے ، تو وہ قا رون بن جا ئے گا ، اور خود کو اموال کا خا لق تصّور کر بیٹھے گا ، اور جب کبھی ایسا ہو تا ہے توانسان ، ما ل و زر کوضرورتوں کو پو را کر نے کا ذریعہ بنا نے کے بجائے اسی کو مقصو د زند گی بنا لیتا ہے ، ایسی صورت میںشکر ، ہمدردی، غمگسا ری ، محبت اور عدل جیسی خصوصیا ت سے عاری ہو کر جا نوروں سے بد تر زند گی بسر کر نے لگتا ہے۔ اس کے بر عکس جب وہ اپنی خوا ہشات پر رب کی رضا کیلئے لگا م لگا دیتا ہے تو سکون محسوس کر تا ہے اور اپنے رزق میں اضا فہ بھی ۔ زکوٰۃ کے ذریعے معا شرہ کے معذور و مجبور طبقہ کی کفا لت ہو تی ہے ، جو فطر ی اور غیر فطر ی و جو ہا ت کی بنا پر اپنی مددآ پ کر نے پر قادر نہیں ہو تے ، دراصل زکوٰۃ سماج سے غر بت و افلاس کے ازالہ کا الٰہی نسخہ ہے ، اس پر عمل کرکے ایک فلا ہی معا شرہ کی تعمیر ہو تی ہے ، جوہر خاص و عام کی خوا ہش ہے، اس طر ح انسا نی معا شرہ بقا و تر قی کے منا زل طے کر تا ہوا آ گے بڑ ھتا ہے ۔ تا ریخ شا ہد ہے کہ جب بھی مسلم معا شرہ منظم اور مستحکم ر ہا، مر کزی بیت الما ل کے ذر یعے زکوٰۃ و صد قات کی تحصیل ہو تی ر ہی اور منظم اور منصوبہ بند طر یقہ پر اس کے استعما ل سے غر یبوں اور دیگر ضرورت مندوں کو سماجی تحفظ Social Security حاصل رہا ، لیکن ملّی شوکت پر زوال نے فکر و عمل کو بھی بر ی طر ح متاثر کیا اور اجتما عیت کا شیر ازہ بکھر گیا جس کی ایک مثال زکوٰۃ کی تقسیم، تحصیل، اور اس کا استعما ل ہے۔
٭ مو جودہ دو ر میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے مسا ئل توکم حل ہو ئے ، البتہ اُس نے گداگروںکی ایک جما عت ضرور پیدا کر دی ،جو زکوٰۃ کی وصولی کواپنا پیشہ بنا ئے ہو ئے ہیں ۔مو جود ہ نظام ِ زکوٰۃ پر غورو فکر سے اندزاہ ہوتا ہے کہ یہ نظام افراط و تفریط کابھی شکار ہے ۔ اس کی تقسیم و استعمال دونوں معا شی اُصولوں کی ر ہنما ئی سے محروم ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے تزکیہ نفس کا حصول صاحب ما ل کی ذات سے متعلق ہے جس پر تجز یہ اس وقت کر نا نہ تومنا سب ہے اور نہ ہی مطلو ب ، لیکن زکوٰۃ کے استعما ل کا طر یقہ اور اس سے ہو نے والے فوائدبے اطمینا نی کا سبب بنے ہو ئے ہیں ، یا د کیجئے قرآن کی رو سے زکوٰۃ ہے ،فقرا ء کیلئے، مسا کین کیلئے،زکوٰۃ کے صیغہ میں کا م کر نے والوں کیلئے، اُن کیلئے جن کا دل اسلام کی طرف پر چا نا ہے ، گر دن چھڑ ا نے میں ، قرضداروں کو، اﷲ کی را ہ میں ، اور مسافر نوازی میں ، یہ حصّہ اﷲ کی طرف سے ٹھرا ئے ہو ئے ہیں اور اﷲ جا ننے و الا اور حکمت والا ہے ، غور کیجئے ان مدّات کی نشاندہی اﷲ نے کی ہے جو علم والا اور حکیم ہے ، زکوٰۃ کے استعما ل میں ان مدّات سے چشم پو شی یاان کو خا ر ج از عمل نہیں کیا جا سکتا ، اور اس تقسیمی منصوبہ کے پسِ پُشت کوئی خا ص حکمت کار فر ما ہے ، جسے اﷲہی بہتر جا نتا ہے ۔اور کسی حد تک اہل علم و دانش بھی جو اﷲ کے عطا کر دہ عقل و خرد کے استعما ل سے وا قف ہیں، بہر حال یہ امر مسلّم ہے کہ اس سلسلہ کی ہدا یا ت سے صر فِ نظر ،بگا ڑ، اور فساد کی بنیا د بنا ہے اور بنا ر ہیگا۔
زکوٰۃ کی تقسیم ، تحصیل اور استعما ل کے تعلق سے کو ئی ایسی Study تحقیقی ر پو رٹ مو جو د نہیں ہے، جس کی رو شنی میں ان مقا صد کے حصول اور معا شرہ پر مرتب اثرات کے با رے میں کو ئی حتمی رائے قا ئم کی جا سکے، لیکن یہ عوامی تا ثر ہے کہ زکوٰۃ کی زیا دہ ترر قم ، دینی و عصر ی تعلیم، دین کی اشا عت و تبلیغ ، ارضی و سما وی آ فا ت پر امداد، کا ر خیر کی تنظیمیں ،اور ان کی اسکیمیں ،اور اسکول و یتیم خا نہ کی بلڈنگو ں کی تعمیر و غیر ہ پر صرف ہو تی ہے ، کچھ اشخاص اور ادارے صرف صحت و تند رستی پر ہی رقوما ت خرچ کر تے ہیں ، بہر حا ل عا م را ئے یہ ہے کہ زکوٰۃ کو میل تصور کر تے ہو ئے صاحب نصاب اسے جلد ازجلد تقسیم کر کے گلو خلا صی چا ہتیہیں ، لیکن یہا ں بھی عا لم یہ ہے کہ زکوٰۃ سب کی سب ما ہ رمضان میں ادا و تقسیم کر دی جا تی ہے ،تا کہ اس کے ثواب میں ۷۰ ؍ گنے کا اضا فہ ہو جا ئے ۔
لیکن دیکھنے کی با ت یہ ہے کہ کیاصا حب نصا ب تقسیم ِ زکوٰۃ کے وقت بھی اسی منصوبہ،احتیا ط اور عقل مند ی کا مظا ہرہ کر تا ہے ، جو وہ اپنی سر ما یہ کاری دنیا میں اضافہ کیلئے کر تا ہے، آ خر زکوٰۃ بھی تو غر یب کا سر ما یہ اور صاحب ما ل کے پاس غر یب کی اما نت ہے، اس لئے اس کی ادا ئیگی اور استعما ل کے بارے میں متفکر ہو نا اور منفعت بخش اندازمیں سر ما یہ کے استعما ل کو یقینی بنا نا بھی تقسیم کا ر کی ذمہ داری بنتی ہے ، ظا ہرہے کہ خیا نت یا ذمہ داری کی ادائیگی میں کو تا ہی اﷲ کے غضب کا سبب بنے گی، بندے کا یہ عمل آ خر ت کیلئے سر ما یہ کا ر ی کے بجا ئے خسا رہ اور گھا ٹے کا سودا بن جا ئے گا ، دو سر ی قابلِ تو جہ با ت یہ ہے کہ کیا تقسیم مال کے وقت اﷲ علیم و حکیم کی طرف سے ٹھرا ئے ہو ئے حصّو ں کالحاظ کیا جا تا ہے ؟ عا م خیا ل ہے کہ ایسا نہیں ہو ر ہا ہے ، خاص مدّ ات پرزیادہ ر قم صرف کر دی جا تی ہے ، جبکہ کچھ رقم دیگر مدّات پر بھی صر ف کی جا تی ہے ۔ لیکن کچھ مدّات کو تو عملا تر ک کر دی جاتی ہیں حالا نکہ وہ علیم اور حکیم کی طر ف سے متعین مدیں ہیں ۔ مثلاً گر دنیں چھڑا نے مرا دغلا موں کو آ زاد کرا نے سے لیا گیاہے ۔ اب چونکہ غلا می بطور رسم اور دستور ختم ہو گئی ہے اس لئے اس پر تو جہ نہیں کی جاتی ہے ۔ حا لا نکہ بند ھوا مزدوروی کی شکل میں معا شی غلامی آ ج بھی مو جو دہے ۔ ضما نت کی رقم ادا نہ کر پا نے کی وجہ سے قا نو نی غلا می مو جو د ہے۔ غلا می تو دراصل آ زادی کے فقدان کا نا م ہے ، جس کی الگ الگ شکلیں اور صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ اگر اس طر ح غور کیا جا ئے تو آ ج بھی ہما را معا شر ہ بڑ ے سنگین قسم کے مسا ئل سے دو چار ہے ۔ اسی طر ح ایک بڑا طبقہ مسا کین کا ہے جو اپنی ضرورتوں کو پورا کر نے کیلئے ہا تھ پھیلا نے کی ذلت اُ ٹھا نے کے بجائے سو دی قرض لیکر اس کے بوجھ تلے دبا ہو ا ہے ، لیکن نہ تو متمول حضرات کو ان کی معلوما ت کی کو ئی فکر ہے اور نہ ہی اس کے ازا لہ کیلئے کو ئی اسکیم ، مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ اُ ن خبروں سے لگا ئی جا سکتی ہے جو ملک کی نسبتا ً غر یب ریاستوں سے آ تی ہیں جہا ں لو گ اپنی اولاد کو بیچتے ہیں ۔ قر ضوں سے پر یشا ن ہو کر کبھی خود کشی کر لیتے ہیں اور کبھی عورتیں اپنی عفت اور عصمت کو فرو خت کر نے کے گھنا و ٔنے عمل کی مر تکب ہو ر ہی ہیں ۔ لیکن اب ہما رے نظا م زکوٰۃ میں عملا ً نہ اُن کیلئے کوئی را حت ہے اور نہ ہی صاحب ما ل ، اس کے تحصیل داروں اور سما ج کے دانشوروں کے پا س کو ئی اسکیم۔ مسلم معا شر ہ کی مجمو عی معاشی صورت حا ل تشو یشنا ک حد تک خرا ب ہے ، غر بت و افلا س کے تعلق سے حکو متیں اور غیر حکو متی سطح کے الگ الگ تخمینے مو جود ہیں ۔ ان کی روشنی میں بلا مبا لغہ یہ با ت کہی جا سکتی ہے کہ ملک کے تقر یبا ً ۱۵؍ کرو ڑ مسلم آبا دی کا ۴۰؍ فیصدیعنی ۶؍ کروڑ مسلمان یا تقر یباً سوا کروڑ مسلم خا ندان اپنی کفا لت کی صلا حیت نہیں ر کھتے ۔ زکوٰۃ کی رقم اولا ً اسی مقصد کیلئے یعنی غر یب کی مدد اور غر بت کے خا تمہ کیلئے کی جا نی چا ہئے ۔ یہ اس لئے کہ آیتِ صد قات کی یہی تر جیح متعین ہو تی ہے۔ سکہّ کا دوسرا ر خ یہ ہے کہ اس ملک میں زکوٰۃ کی شکل میں تقسیم کی جا نے والی رقم کا تخمینہ سالا نا تقر یبا ً ۱۵ ؍ ہزار کروڑہے۔ اس طر ح ہر غر یب کے حصہ میں تقر یبا ًدو ہزا ر پا نچ سو رو پیہ یا ہر غر یب خا ندان کے حصّہ میں مبلغ بارہ ہزار پا نچ سو رو پیہ ا ٓ تے ہیں ، ظا ہر ہیکہ یہ رقم ہر سال مختلف اندازمیں اُ نھیں پر خرچ کی جا تی ہے ۔ لیکن صورت حا ل میں کو ئی خا طر خوا ہ تبد یلی نظر نہیں آ تی ۔ نہ تو تحصیل داروں کی قطارمیں کوئی کمی ہے اور نہ ہی معذوروں و مجبو روں کے ان مسا ئل کا جن کا تذ کر ہ کیا جا چکا ہے۔
غور و فکر کے نتیجہ میں اس کی مختلف و جو ہا ت سا منے آ تی ہیں لیکن جو با ت با لکل عیا ں ہے وہ یہ کہ غریبوں کے اس سر ما یہ کا استعما ل معا شی اُ صول و ضابطوں کے ان دیکھی اور اُس کی ر ہنما ئی کے بغیر کیا جا تا ہے ۔ اس لئے یہ رقو مات ایک با ر میں خرچ ہو کر ختم ہو جا تی ہیں ۔ نہ انھیںسر ما یہ کی شکل حا صل ہو پا تی ہے اور نہ ہی مستقبل میں مسلسل نفع و آ مد نی کا ذریعہ بنے کا شر ف حا صل ہو پا تا ہے ۔ یہ با ت یاد ر کھنے کی ہیکہ ، غر یب کی غر بت کو دُور کر نے کے بہت سارے طر یقہ ہو سکتے ہیں مثلا ًتعلیمی بیداری کی مہم کے ذریعے غریبوں کو یہ سبق یا د دلا یا جا ئے کہ ذلت کی زند گی سے چھٹکارا حاصل کر نے میں اﷲ بھی اُ ن کی مدد اس وقت تک نہیں کر ے گا جب تک وہ خود فکر ی اور عملی طور پر کو شش نہ کر یں ۔
پھر اُ ن میں جو لو گ نو کر ی کر نے کی صلا حیت ر کھتے ہیں ان کے رو زگار حا صل کر نے میں مدد کی جائے جو لو گ ذاتی رو زگار و کا روبار کر نے کی صلا حیت رکھتے ہیں اُ ن کی حو صلہ افزائی اور ما لی امداد کی جائے جو لو گ کسی بھی طرح معا شی طور پر فعا ل نہین بنا ئے جاسکتے ان کے نا م سے مختلف طر ح کی سر ما یہ کا ری کی جائے تاکہ اُ ن کی حاصل کر دہ اصل رقم بھی سر ما یہ کی شکل میں با قی ر ہے اور ہر ما ہ کرا یہ نفع یا حصّہ داری کی شکل میں آمد نی بھی ملتی ر ہے ۔ تصور کی دنیا میں پر واز کر یں تو آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ منصوبہ بندی کے ذریعے غر یبوں کی حا صل شدہ زکوٰۃ کو سر ما یہ میں تبد یل کر کے بڑ ے پیمانے کے ایسے کاروبا ر کو بھی شر مند ئے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو مسلسل بڑ ی آ مد نی کا ذریعہ بننے کے علا وہ سرما یہ Assetمیں اضا فے کا سبب بنے گا ، معا شر ہ کی اہم ترین اشیا ء کی رسد میں اضا فہ ہو گا اور یہ مسلم سماج کی ملک میں بگڑی ہو ئی بو جھ والی تصویرLiability بد ل کر سر ما یہ افتخار Asset والی بنا دیگا۔
یہ با ت ایک مثال کے ذریعے بھی سمجھی جا سکتی ہے اگر یہ ما ن لیا جا ئے کے مستحقین کی فور ی ضرورتیں ایسی ہے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لئے کل رقم کا آ دھا حصہ تقر یبا ً ۵۔۷؍ ہزار کروڑ رو پیہ اس پر صرف کر دیا جا تا ہے ، اس صورت میں آ دھی رقم بچ جا تی ہے ، اس بچی ہو ئی رقم کا آ دھا حصہ روزگار اور ذاتی رو زگار کے فروغ پر خر چ کیا جا ئے یعنی تین ۳۷۵۰؍ ہزار کروڑ رو پیہ تو ملت کی کا م کر نے والی آبا دی کا تقر یبا ً دس فیصد کے چو تھائی حصہ جو بے روزگار ہے، اسے روز گار سے لگا یا جا سکتا ہے ۔ یعنی 22.50؍لا کھ لو گو ں کو روزگار سے لگا یا جا سکتا ہے ۔ اب با قی ما ند ہ رقم یعنی ۳۷۵۰ ہزار کروڑ سے معا شی طور پر نا قا بل ِفعا ل افراد کیلئے سر ما یہ کا ری کی جائے اور اس پر سا لا نہ نفع ۱۲ فیصد ہوتو اس سے ۵۰،۴؍ کروڑ رو پیہ کا نفع حا صل ہو گا ، اگر ایک خا ندان کی ضرورت ۲۵۰۰؍ ہزار رو پیہ ماہا نہ حسا ب سے مبلغ ۳۰؍ ہزار ہو تو ا س سر ما یہ کے طفیل میں سے۱۵۰؍ہزار خاندان یعنی ملک میں مسلمانوں کی غر یب آ با دی کا تقر یبا ًایک فیصد خو د کفیل ہو جا ئیگا ۔ اور اپنے سر ما یہ کا ما لک بن کہ اس کو محفو ظ بھی ر کھ سکتاہے ۔اگر یہ عمل منصوبہ بند طریقہ سے زکوٰۃ کی رقم کو ۱۰-۵؍ سال تک استعما ل کیا جا ئے تو مسلمانوں سے غر یبی اجنبی بن کر عجا ئب خا نہ کا حصّہ بن سکتی ہے ۔
واﷲ اعلم با لصواب

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں
دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...