
ممبرا میںعید کے خریدار تین حصوں میں تقسیم،بیوپاریوں کو مشکلات کا سامنا
رمضان مارکیٹ تنور نگر،گلاب پارک مارکیٹ اور متل گرائونڈ مارکیٹ کے بیچ فاصلہ سے خریداربھی پریشان،باہر سے آنے والے بیوپاری بھی خوش نہیں ہیں
ممبرا: کوسہ ممبرا میں رمضان المبارک اور عید الفطر کی خریداری کے لئے بنایا گیا عارضی رمضان مارکیٹ یوں تو ابتداء سے ہی تنازع کا شکار رہا ہے جبکہ متل گرائونڈ پر راجیو گاندھی ہاکرس یونین سے وابستہ ہاکرس گراہکوں کی کم آمد کی شکایت کرتے رہے ہیں جبکہ غیر قانونی پارکنگ نے گلاب پارک مارکیٹ کی رونق بھی متاثر کردی ہےایسے میں گراہک تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ گلاب پارک مارکیٹ کے سامنے سے ہاکروں کو دوسری جگہ منتقل کرکے عوام کو ٹریفک سے نجات دلانے کی کوشش تو کی گئی تھی لیکن غیر قانونی پارکنگ نے اس کی قلعی کھول دی ہے اور ٹریفک کا نظام دوبارہ متاثر ہونا شروع ہوگیا ہے۔جبکہ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک میں جیسی خریداری ہوا کرتی تھی ویسی خریداری نہیں ہے ۔راجیو گاندھی ہاکرس یونین کی طرف سے متل گرائونڈ میں بنائے گئے عارضی ہاکرس زون میں گالا نمبر ۸۱کے قادر شیخ جنہوں نے نان اسٹیک کچن آئیٹم کی دکان لگا رکھی ہے معیشت سے کہتے ہیں ’’یہ دکان میرے بھائی توفیق شیخ کی ہے جو ابھی کہیں گیا ہوا ہے ۔یہ ۱۲ برس سے شریفہ روڈ پردکان لگایا کرتا تھا لیکن جب سے کاروبار یہاں منتقل ہوا ہے تیس سے چالیس فیصد گراہک ٹوٹ گئے ہیں ۔البتہ یہاں یہ سہولت ضرور ہے کہ ۲۰روپیہ کی کارپوریشن کی پائوتی پر ہمیںاب بھاگ بھاگ کر کہیں چھپنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘گالا نمبر ۷۵کے تاجر محمد شاکر کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا کاروبار تقریباً ۳۰فیصد متاثر ہوا ہے ۔گرمی کی وجہ سے خریدار بھی نہیں آرہے ہیں جبکہ شام کے وقت اتنی بھیڑ نہیں ہے جو کبھی ہوا کرتی تھی۔پانی کی سہولت بھی یہاں نہیں ہے جبکہ ایک پیشاب خانہ تھا اسے بھی توڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں ضروریات کی تکمیل کے لئے دور جانا پڑتا ہے‘‘۔لیڈیز گارمنٹ کے کاروباری قیصر علی شیخ جن کا گالا نمبر ۷۶ہے معیشت سے کہتے ہیں ’’۸برس سے میں اس کاروبار میں ہوں ،یہاں منتقل ہونے کے بعد ۵۰ سے ساٹھ فیصد کاروبار متاثر ہوا ہے لیکن جن لوگوں کےپاس میرا فون نمبر ہے اب وہ فون کرکے ہی میرے پاس آتے ہیں لہذا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فون کے ذریعہ جو میرا کاروبار تھا وہ تو الحمد للہ چل رہا ہے لیکن خود سے جو گراہک آیا کرتے تھے اس میں کافی حد تک کمی واقع ہوگئی ہے۔لوگوں کواپنی مطلب کا دکان ڈھونڈھنے میں پریشانی ہوتی ہے جبکہ تمام کاروباری ابھی بکھرے ہوئے ہیں‘‘۔گالا نمبر ۷۴کے سفیان جو جینس پینٹ شرٹ کا کاروبار کرتے ہیں کہتے ہیں ’’مارکیٹ کی منتقلی سے کاروبار پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے ۔یقیناً یہ بات درست ہے کہ کوئی بھی چیز اگر نئے سرے سے کی جائے تو پریشانیاں آتی ہیں لہذا ابھی ہم پریشانی والے مراحل سے گذر رہے ہیں‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام کارباریوں کا یہ کہنا تھا کہ اگر رمضان مارکیٹ جسے تنور نگر میں بنایا گیا ہے اگر اسے بھی متل میں ہی بنایاجاتا تو نہ صرف خریدار ایک جگہ جمع ہوتے بلکہ کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتاہے کہ لوگ خریداری کے لئے پلان کرکے نکلتے ہیں لیکن کوئی ایسی چیز نظر آجاتی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے خرید لیتے ہیں۔متل کے لوگ اگر بہت زیادہ خوش نہیں تو بہت زیادہ ناراض بھی نہیں ہیں لیکن کھل کر بات کرنے کا خوف اب بھی ان پر برقرار ہے ،المیہ تو رمضان مارکیٹ تنور نگر کا ہے جہاں بیوپاری خریدار نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں وہیں گالا،ٹیبل اور دیگر لوازمات کے لئے ہزاروں روپیہ خرچ کرکے بھی انہیں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے۔ڈومبیولی سے لیڈیز گارمنٹ کی تجارت کرنے آئے دنیش کہتے ہیں ’’میں نے سات ہزار میں گالا خریدا ہے جبکہ دو ہزار ٹیبل کےلئے دیا ہے دیگر اخراجات ملا کر تقریباً ۱۲ ہزار روپیہ خرچ ہوچکا ہے لیکن گراہک نہ ہونے کی وجہ سے میرا سراسر نقصان ہی ہونے والا ہے۔‘‘گذشتہ برس کی داستان بیان کرتے ہوئے دنیش کہتے ہیں ’’پچھلے برس ہم نے گلاب پارک مارکیٹ میں اچھا کاروبار کیا تھااسی کو دیکھتے ہوئے امسال بھی میں نے رمضان مارکیٹ میں گالا نمبر ۲۹۳لیا ہے لیکن ۱۲ ہزار خرچ کرنے کے باوجود ابھی تکخاطر خواہ کوئی فروخت نہیں ہوئی ہے۔‘‘گالا نمبر ۲۶۲کے ضرار علی یہ تو نہیں بتاتے کہ انہوں نے کتنی رقم ادا کی ہے البتہ ان کے چہرے پر مایوسی ضرور دیکھی جاسکتی ہے ۔معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’فی الحال تو نقصان میں ہی کاروبار ہے بس اوپر والے کا سہارا ہے کہ شاید ایک دو دن میں کوئی معجزہ ہوجائے اور گراہک میں اضافہ ہو۔‘‘بچوں کا کپڑا بیچ رہے معین الدین شیخ کہتے ہیں ’’ہمیں دو ہزار میں گالا ملا ہے جبکہ ٹیبل کا خرچ خود برداشت کررہا ہوںوہ کتنا ہوگا ابھی نہیں کہا جاسکتا، چونکہ ابھی ہم نئے آئے ہیں اسلئے کوئی گراہک بھی نہیں ہے۔‘‘دوہزار گالے کا کرایہ اور ۱۸۰۰سو ٹیبل کا خرچ دے کر چادر کا کاروبار کررہی محمد حنیف بیگا کی اہلیہ پروین بیگا کہتی ہیں ’’ہم تیس برس سے ا س کاروبار میں ہیںاجوا سویٹس کے سامنے گلاب پارک میں جو رونق تھی وہ یہاں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ بیوپاریوںکے تین حصوں میںتقسیم کے ساتھ مارکیٹ مافیائوں نے جس طرح غریبوں کو لوٹا ہے اس کی نظیر ممبرا کوسہ میں نہیں ملتی۔تنور نگر میں رمضان عید مارکیٹ لگوانے والے کارپوریٹرشانو پٹھا ن معیشت سے کہتے ہیں ’’ہم نے غریبوں کے فائدہ کے لئے محض دو ہزار میں ایک گالا رمضان عید کے کاروبار کے لئے دیا ہے۔جس میں ایم ایس ای بی سے بجلی بھی سپلائی کی جارہی ہے۔بقیہ انتظام لوگوں نے خود کیا ہےاس سے زیادہ اور ہم کیا کرسکتے تھے؟‘‘کارپوریٹرشاکر شیخ کا کہنا ہے کہ ’’اس مارکیٹ میں حصہ لینے کے لئے لوگ دور دور سے آتے ہیں اور اپنا کاروبار کرتےہیں ہم نے یہ موقع انتہائی سستے میں لوگوں کو فراہم کرکے دیا ہےاگر لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں تو یہ ان کی غلطی ہے انہیں حقیقت حال کا علم حاصل کرنا چاہئے پھر کوئی بات کہنی چاہئے‘‘۔لیکن ان تمام مسئلوں پر سینئر صحافی رفیق کامدار کا کہنا ہے کہ ’’کارپوریشن نے جن لوگوں سے ۹۰۰ روپیہ رجسٹریشن کا لیا ہے کیا رمضان مارکیٹ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش نہیں ہے ،یہی نہیں بلکہ رمضان مارکیٹ میں لوگوں نے جس طرح مہنگے داموں گالا بیچا ہے یہ ان کی غریب پروری کا پول کھولنے کے لئے کافی ہے‘‘۔
البتہ کارپوریٹر صغیر انصاری عرف راجو انصاری کا کہنا ہے کہ ’’راجیو گاندھی ہاکرس یونین میں ۳۹۰ لوگ رجسٹرڈ ہیں آخر ان لوگوں کے لئے کارپوریشن نے ہاکرس زون بناکر کیوں نہیں دیا؟ساڑھے پانچ کلومیٹر پر بسے کوسہ ممبرا میں اگر ہاکرس زون کو پھیلا کر انتظام کیا جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسئلہ درپیش آئے گا‘‘کارپوریٹر ظفر نعمانی مہنگے داموں گالا خریدنے والوں پر لب کشائی کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’کچھ لوگوں نے ایسا کیا ہے کہ دوہزار میں گالا خرید کر اسے کسی اور کو اس سے زائد رقم میں بیچ دیا ہے لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے زائد رقم دے کر گالا خریدا ہے انہوں نے غلط کاری کو فروغ دیا ہے ،لہذا اس کی سزا بھی انہیں ہی ملنی چاہئے‘‘۔البتہ ظفر نعمانی مزید کہتے ہیں ’’کارپوریشن کو رمضان کے بعد اس بات پر ضرور توجہ دینی چاہئے کہ کسی کی دکان گلیوں اور سڑکوں کے باہر نہ لگی رہے۔بلکہ ہاکرس زون بنایا جائے اور اسے قانونی شکل دے کر لوگوں کے حوالے کیا جائے میں نے مہاسبھا میں بھی جہاں کمیونیٹی ہال،اولڈ ایج ہائوس کی بات کی ہے وہیں ہاکرس زون کا بھی مطالبہ کیا ہے‘‘۔