ہم اہل ہو ںیا نہ ہوں عید آہی جاتی ہے

دانش ریاض فلاحی

مولانا دانش ریاض فلاحی
مولانا دانش ریاض فلاحی

خوشیوں کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ زندگی کا سفر غموں کے چھائوں تلے جاری رہتاہے کہ اچانک بعض جھونکے زندگی کو پرمسرت بنادیتے ہیں۔ انسان خوش وخرم رہنے کیلئے ہزار جتن کرتاہے لیکن جب زندگی کی کشتی منجدھار میں ہوتی ہے تو مصنوعی خوشیاں راس نہیں آتیں۔ انسان کی اس جبلت نے ہی تمام مذاہب کے اندر خوشیوں کے حصول کیلئے مخصوص دن رکھنے کا جواز فراہم کیاہے۔ اسلام انسانی نفسیات کا خاص خیال رکھتاہے، اس نے اپنے متعلقین کو حقیقی خوشیاں عطا کرنے کیلئے جہاں رمضان المبارک کے فیوضات سے نوازا ہے وہیں عیدالفطر کا عظیم تحفہ بھی پیش کیاہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد : ’’ مَنْ صَامَ رَمَضاَنَ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘‘ کہ جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘ جہاں ہر انسان کے اندر یہ داعیہ پیداکرتاہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خشوع وخضوع کے ساتھ اس ماہِ مبارک کا اہتمام واحترام کرے ، وہیں مژدئہ عیدسناکر ہر اس شخص کے اندر قلبی طمانیت پیدا کی جاتی ہے جو رنج والم میں گرفتار ہوکر ’’ ایمان واحتساب‘‘ کا عملی مظاہرہ کرتاہے۔
لہٰذا عید دنیاوی عیش ونشاط کا ذریعہ ہی نہیں، آخرت کی زندگی کیلئے طمانیت کا زینہ بھی ہے۔ انسان خوشیوں میں مست ہوکر کبھی شیطان کے چنگل میں ایسا گرفتار ہوتاہے کہ آخرت میں اسے صرف ناکامی کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ اسی لئے عید کی خوشیوں کو پیش کرکے اللہ رب العزت نے آخرت کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کا انتظام بھی کردیاہے۔عید عربی زبان کے لفظ ’’ عَادَ یَعُوْدُ عِیْدًا‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی باربار لوٹ کے آنے کے ہیں ۔ آقائے مدنی سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلسفۂ عید بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’ ہرقوم کیلئے کوئی نہ کوئی دن عید اور خوشی کا ہوتاہے، اور آج ہمارے لئے عید کا دن ہے ‘‘ (بخاری ومسلم) جب نبی کریم ﷺ مکہّ مکرّمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ والے (ایران کے مجوسیوں کی پیروی میں) سال میں دودن تہوار کے طور پر مناتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ یہ دودن کیسے ہیں؟‘‘ انہوںنے جواب دیا کہ ہم زمانۂ جاہلیت سے ان ایام کو بطورِ تہوار مناتے ہوئے آرہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں سے بہتر تمہیں دو تہوار دیئے ہیں ، ایک یوم الاضحی (عیدقرباں) دوسرے یو م الفطر (عید) (ابودائود،نسائی)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ’’ ہر قوم کی نفسیات کا تقاضا ہے کہ سال کے کچھ دن بطورِ تہوار منائے جائیں ، انسانی جذبات وخواہشات کا لحاظ خالقِ کائنات کرتاہے ، اسلام میں زرّیں اصولوں کی طرح دوزرّیں تہوار منانے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ واجب قرار دیا گیا۔‘‘
دنیا کی دیگر قوموں میں مسرت وشادمانی کے ایام کی تقریبات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں ان قوموں کے نظریات اور عقائد کا صاف صاف عکس جھلکتاہے ۔ وہ کھیل کود کے مقابلے منعقد کرتی ہیں، انبساط کی محفلیں سجاتی ہیں، موسیقی کے مظاہرے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسی طوفان بدتمیزی ہوتی ہے کہ جشن میں شریک بھی جشن کی خرابیاں بیان کرتے ہیں۔

لیکن اسلام اس معاملے میں سادگی کا علمبردار ہے، وہ اپنے متعلقین کوعام ہدایت دیتاہے کہ خوشی ایسی ہو کہ ہرکوئی شادمانی محسوس کرے۔ اللہ رب العزت نے عید کے اجتماع کو خیر وبرکت کا ذریعہ بنایاہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عید کے دن حق تعالیٰ اپنے صالح بندوں پر فخر کرتے ہیں اور اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ بتائو اس مزدور کی کیا اجرت دی جائے جو اپنا کام بخوبی انجام دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ! اس کا صلہ یہ ہے کہ مزدور کو پوری پوری مزدوری دی جائے۔ اس پر اللہ رب العزت جواب دیتے ہیں کہ اے فرشتو! میرے بندوں نے میرے احکام کی تکمیل کی ہے؟ فرشتے بلند آواز سے لبیک کہتے ہیں اور بندوں کے اعمال کا اقرار کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قسم ہے مجھے اپنی عزت ، اپنے جلال ، اپنے علوئے مرتبت اور اپنی رفعت شان کی کہ میں اپنے روزے دار بندوں کی عید کے دن جو دعا کرتے ہیں ان کی دعا ئیں قبول کروں گا۔ جائو ! ان سے کہہ دو کہ اے بندوں میں نے تمہارے گناہوں کو معاف کیا اور گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا۔ چنانچہ اس حدیث کے راوی حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہ معاف کردیتے ہیں اور جب یہ بندے نمازِ عید کے بعد دعا مانگ کر لوٹتے ہیں تو ان کی دعائیں قبول ہوچکی ہوتی ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ عید کے موقع پر اپنے بندوں کو ’’دو عیدیں‘‘ عطا فرماتاہے ۔ ایک یہ کہ ان کے گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ اجابت دعا کی ضمانت دی جاتی ہے۔
اس وقت جب کہ ہرطرف جشنِ عید کاسماں ہے کیا امّتِ مسلمہ واقعی خوشی ومسرت محسوس کررہی ہے؟ دراصل خوشیاں تو ان قوموں کا نصیب ہوا کرتی ہے جنہیں زمانے کو برتنے کا سلیقہ حاصل ہو۔ ابلیس کے عالمی کارندوں نے عالمِ اسلام کے خلاف جس طرح کی چال چلی ہے اس نے جشن کو ماتم میں تبدیل کردیاہے۔ اس وقت ہر مسلمان دست بدعا ہے کہ اللہ رب العزت عالم انسانیت کو مامون ومحفوظ فرمادے!! نہ دھماکوں کی گونج سنائی دے، نہ معصوموں کی آہ وبکا، نہ غریب خالی پیٹ سوئے، نہ امیر سات دروازوں پہ قفل لگاکر کونے میں دبکے۔ بلکہ اگر مسلمان چین کی سانس لے تو غیر مسلم بھی امن کی بانسری بجائے، اگر غیرمسلم کے دل سے آہ نکلے تو اس کا مسلم دوست آہ پر واہ نہ کہے بلکہ اس کے درد کا مداوا کرے ، لیکن کیا ہم حقیقی خوشیوں کی طلب میں ان تعلیمات پر عمل کرتے ہیں؟ ہم اس بات کا ڈھنڈورا تو ضرور پیٹتے ہیں کہ ہم مظلوم ہیں، مقہور ہیں، مجبور ہیں، لیکن کیاہم اپنی مظلومیت کے خاتمہ کیلئے ، اپنی قہاریت کے حصول کیلئے اور اپنی قنوطیت کویاس وامید میں بدلنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں؟ ہم تمام اس بات سے باخبر ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے ۔ پھر ہم کیوں اللہ رب العزت سے انعام واکرام کی بارش کے طلبگار ہوتے ہیں؟ صرف اسی لئے نا کہ ہم اللہ کو وحدہٗ لاشریک لہٗ تسلیم کرکے یہ امید کرتے ہیں کہ اللہ ہماری کوتاہیوں کے باوجود ہمیں نوازے گا!! اور اللہ ہمیں خوشیاں دیکر ضرور نواز تاہے ع
مزا بہار کہن کا چکھا ہی جاتی ہے ٭ ہم اہل ہوں یا نہ ہوں عید آہی جاتی ہے
اس وقت گردشِ زمانہ نے امت مسلمہ کو جس چوراہے پر لا کھڑا کیاہے وہ چوراہا منزل مقصود تک پہنچنے کے اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ پوری امت فی الحال فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے کہ اس کا وجود مستقبل کے زائچوں میں خیر وعافیت کی نوید سنانے والا ہے یا حزن وغم کی خبرجانکاہ۔ قوموں کے عروج وزوال کی داستان میں اس کی تقریبات کا خاص ذکر کیاجاتاہے۔ ترقی یافتہ قوموں کا جشن پوری انسانیت کی نظریں اپنی طرف مرکوز کرواتاہے تو پسماندہ قومیں اپنی اچھائیاں بھی برائیوں میں شمار کرنے لگتی ہیں۔ جب ہم سریر آرائے خلافت تھے تو ہمارا جبہ ودستار خوش پوشوں اور امیروں کا لباس سمجھا جاتاتھا لیکن جب ہم نے اپنا وقار کھودیا تو آج یہی پگڑیاں غیروں کے پیروں تلے پڑی نظر آتی ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ جس سادگی نے ہمیں اوج کمال پر پہنچادیاتھا آج وہی سادگی ہماری خفت کا باعث بنتی ہے ۔آخر کیوں؟
تاریخ اسلامی کا مشہور واقعہ ہے کہ جب عمربن عبدالعزیز مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ کے زہد وتقویٰ نے چہار عالم میں آپ کی ہیبت بیٹھادی، آپ کی سادگی اگر لوگوں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوئی تو آپ کا غنیٰ ہر کسی کو آپ کا پرستار کئے دیتا، آپ کی خلافت کو چندہی عرصہ ہواتھا کہ عیدالفطر کاتہوار آیا۔ خلیفۂ وقت کی بیوی حضرت عائشہ شوہر نامدار سے فرماتی ہیں کہ ’’ ہر طرف عید کی تیاریاں ہورہی ہیں آپ بھی اپنے بچوں کیلئے نئے جوڑے بنوادیجئے! ‘‘وقت کابادشاہ بڑی سادگی سے جواب دیتاہے کہ ’’ میری اتنی آمدنی کہاں کہ میں نئے جوڑوں کا انتظام کروں‘‘ آخر عظیم بادشاہ کے لخت جگر پرانے کپڑوں میں ہی عید گاہ جاتے ہیں، بچوں کے دوست اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ارے تم خلیفہ کے بیٹے ہوتے ہوئے پرانے کپڑوں میں کیوں ہو؟ بچے معصومیت کاپیکر بنے جواب دیتے ہیں کہ ہمارے ابّا تمہارے ابّا سے زیادہ مالدار نہیں ہیں، ہمارے گھر میں نئے کپڑوں کیلئے پیسے نہیں تھے اس لئے ابّانے نئے جوڑے نہیں سلائے!!!!
وقت کا خلیفہ نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد جب گھر آتاہے تو بچیاں دور بھاگتی پھرتی ہیں، باپ پریشان کہ آخر ماجرا کیاہے؟ کیاعیدی نہ ملنے کی وجہ سے بچیاں ناراض ہوگئیں؟ باپ جب رفیقۂ حیات سے حقیقت دریافت کرتاہے تو اس بات کا انکشاف ہوتاہے کہ گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے یہ بچیاں کھاسکیں۔لہٰذا انہوںنے کچی پیاز کھاکراپنی بھوک مٹانے کی کوشش کی ہے، ان کے منھ سے نکلنے والی پیاز کی بو آپ کومحسوس نہ ہو اسلئے یہ آپ سے دور دور بھاگے پھر رہی ہیں۔ عمربن عبدالعزیزؒ سنتے ہیں تو آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، اپنے جگر کے ٹکڑوں کو قریب بلاتے ہیں اور دستِ شفقت پھیرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ اے خلیفہ کے بچیوں تمہارے باپ پر بڑا بوجھ ہے، کل قیامت کے د ن میں رسوانہ ہوجائوں اسلئے آج تمہاری خواہشات کو پوری نہیں کرسکا۔ میرے بچو! صبر کرو ، اللہ تمہیں عظیم نعمتوں سے نوازے گا۔‘‘
عیدالفطر کے حوالے سے تاریخ اسلامی کا یہ نادر واقعہ آج بھی سنہری حرفوں سے تاریخ کی کتابوں میں ثبت ہے۔ دنیاجانتی ہے کہ جب اس پائے کے لوگ بقیدِ حیات رہے تو دنیا امن کا گہورہ بنی رہی لیکن نیک خصلت لوگ جیسے جیسے اس دنیا سے اٹھتے گئے یہ دنیا شر وفساد کی آماجگاہ بن گئی۔ آج عمربن عبدالعزیزؒ اور ان کا خانوادہ ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن تاریخ اسلامی کایہ سنہری واقعہ ہر عید پہ لوگوں کے زبانِ زد عام ہوتاہے۔
روایتوں میںیہ بھی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں:
٭ جس دن مسلمان دنیاسے اپنا ایمان سلامت لے جائے اور شیطانی کاموںسے اس کا ایمان محفوظ رہے۔
٭ جس دن ایک مسلمان دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔
٭ جس دن ایک مسلمان دوزخ کے پُل صراط سے سلامتی سے گذرجائے۔
٭ جس دن مسلمان گناہ سے محفوظ رہے یعنی اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو وہ دن اس کیلئے عید ہے۔
٭ اور جس دن وہ اپنے پروردگار کا دیدار کرپائے اور اس کی رضا سے بہرہ ور ہوتو اس کی عید ہے۔
اس وقت ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں یہ تہذیبی سماجی اور ثقافتی اعتبا رسے ہمار اقدیم مسکن رہاہے۔اس دھرتی کے آب ودانہ نے نہ صرف ہمارے اسلاف کو پیروں کا استاد کیاہے، بلکہ ہماری تعلیمات نے ایسی جوت جگائی کہ ہم یہاں کے شہ نشین ہوگئے ۔لیکن جب جب ہم ان تعلیمات سے روگردانی کرتے رہے ، ہماری عاقبت کے ساتھ دنیا بھی خراب ہوتی رہی۔ ہماری زندگی ایسے منجدھار کا شکار ہوگئی جہاں کنارہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ عید کے یہ وہ ایام دراصل ہمیں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا ایک موقع بھی فراہم کرتے ہیں کہ جس طریق پر صوفیائے اسلام نے عمل کیا ، جس طریق پر خلفائے اسلام نے عمل کیا، اگر وہی طریقہ پھر اختیار کرلیاجائے تو یقینا ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ؎
شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی ٭ ظلمت شب میں نظر آئی کِرن امیدکی
ورنہ اگر اس کے علی الرغم معاملہ ہوتا رہا تو نہ ہم اس ہندوستان میں ہی چین کا سانس لے سکیں گے اور نہ ہی اُس دنیا میں ہی کوئی صفائی پیش کرسکیں گے جہاں ہرعمل کا حساب دیناہے۔ کاش ہم جشن عید مناتے، اس احساس کے ساتھ کہ ہم انہیں بھی یاد رکھتے جو ہم سے بچھڑگئے ہیں اور جن کی یادیں ہمارے دل کو کچوکے لگاتی رہتی ہیں ؎
کسی کو عید کے دن جب گلے لگاتے ہیں ٭ تو کتنے بچھڑے ہوئے لوگ یاد آتے ہیں

 عید دنیاوی عیش ونشاط کا ذریعہ ہی نہیں، آخرت کی زندگی کیلئے طمانیت کا زینہ بھی ہے۔ انسان خوشیوں میں مست ہوکر کبھی شیطان کے چنگل میں ایسا گرفتار ہوتاہے کہ آخرت میں اسے صرف ناکامی کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ اسی لئے عید کی خوشیوں کو پیش کرکے اللہ رب العزت نے آخرت کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کا انتظام بھی کردیاہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں:
٭ جس دن مسلمان دنیاسے اپنا ایمان سلامت لے جائے اور شیطانی کاموںسے اس کا ایمان محفوظ رہے۔
٭ جس دن ایک مسلمان دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔
٭ جس دن ایک مسلمان دوزخ کے پُل صراط سے سلامتی سے گذرجائے۔
٭ جس دن مسلمان گناہ سے محفوظ رہے یعنی اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو وہ دن اس کیلئے عید ہے۔
٭ اور جس دن وہ اپنے پروردگار کا دیدار کرپائے اور اس کی رضا سے بہرہ ور ہوتو اس کی عید ہے۔

اس وقت جب کہ ہرطرف جشنِ عید کاسماں ہے کیا امّتِ مسلمہ واقعی خوشی ومسرت محسوس کررہی ہے؟ دراصل خوشیاں تو ان قوموں کا نصیب ہوا کرتی ہے جنہیں زمانے کو برتنے کا سلیقہ حاصل ہو۔ ابلیس کے عالمی کارندوں نے عالمِ اسلام کے خلاف جس طرح کی چال چلی ہے اس نے جشن کو ماتم میں تبدیل کردیاہے۔ اس وقت ہر مسلمان دست بدعا ہے کہ اللہ رب العزت عالم انسانیت کو مامون ومحفوظ فرمادے!! نہ دھماکوں کی گونج سنائی دے، نہ معصوموں کی آہ وبکا، نہ غریب خالی پیٹ سوئے، نہ امیر سات دروازوں پہ قفل لگاکر کونے میں دبکے۔ بلکہ اگر مسلمان چین کی سانس لے تو غیر مسلم بھی امن کی بانسری بجائے، اگر غیرمسلم کے دل سے آہ نکلے تو اس کا مسلم دوست آہ پر واہ نہ کہے بلکہ اس کے درد کا مداوا کرے ، لیکن کیا ہم حقیقی خوشیوں کی طلب میں ان تعلیمات پر عمل کرتے ہیں؟

دانش ریاض

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *