
لنچنگ ذہنیت؛تمہاری باری بھی آئے گی
ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
ماب لنچنگ کی تشویشناک صورت حال مزید تشویشناک ہوتی جارہی ہے ، خطرناک حد تک اس میں اضافہ ہو چکا ہے ، تازہ وارداتیں یوپی بہار اور جھارکھنڈ کی ہیں ۔ خبروں کے مطابق یوپی کے بارہ بنکی میں ایک شخص اپنی سسرال جا رہا تھا راستے میں ایک گاؤں میں کتے اس پر بھونکنے لگے اسی پر لوگوں نے اسے چور سمجھ کر پکڑ لیا خوب پٹائی کی ، جب اس نے یہ قبول نہیں کیا کہ وہ چور ہے تو اسے بجلی کا کرنٹ لگا یا گیا اور آخر میں پٹرول ڈال کر آگ لگادی گئی ،انتہائی نازک حالت میں اسے اسپتال میں داخل کیا گیا ۔بہار میں گاؤں کے لوگوں نے تین افراد کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا ، ان تینوں پر الزام ہے کہ وہ مویشی چوری کے لئے گاؤں میں گئے تھے ، کچھ بکریاں چرا چکے تھے جبکہ ایک بھینس چوری کی کوشش میں پکڑے گئے ۔ جھارکھنڈ میں چار لوگ ہلاک کئے گئے ان چاروں پر الزام ہے کہ وہ جادو ٹونا کرتے تھے ، یہ چاروں افراد ساٹھ اور اس سے زائد عمر کے تھے جن میں دو عورتیں بھی شامل ہیں۔ بہار اور جھارکھنڈ کی وارداتوں کے متعلق ذمہ داروں کے بیانات انتہائی غیر ذمہ دارانہ بلکہ شرمناک ہیں ۔ دی پرنٹ ۱۹ جولائی کی رپورٹ کے مطابق بہار کے معاملہ میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا ہے کہ اسے ماب لنچنگ نہیں سمجھنا چاہئے ، جو مارے گئے وہ شیڈول ٹرائب کے لوگ ہیں اور جنہوں نے مارا وہ بھی پچھڑے لوگ ہیں ، یہ واقعہ اس وقت ہوا جب وہ تینوں (مقتول ) چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑے گئے ۔ تو جناب وزیر اعلیٰ صاحب کیا ہمارے ملک میں چوری کی سزا موت اور چوروں کو اسی طرح مارڈالنے کا قانون ہے؟کیا آپ نے آپ کی ریاست کے لوگوں کو یہ آزادی دے رکھی ہے کہ چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑے جانے والوں کو پیٹ پیٹ کر مارڈالیں۔ مذکورہ معاملہ میں تو ابھی یہ ثابت بھی نہیں ہوا کہ مقتولیں واقعی چور تھے ، ہمیں تو تعجب ہے کہ کیا آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کسی ملزم کو اس وقت تک مجرم نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ اس پر جرم ثابت نہ ہو جائے ۔ اور اس کے لئے ہمارے ملک میں عدلیہ کا مضبوط اور وسیع نظام موجود ہے اگر لوگ کسی کو چور کہہ دیں اور اسی بنیاد پر اسے چور مان لیا جائے تو پھر پولس اور عدلیہ کا اتنا بڑا سسٹم جاری رکھنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ جھارکھنڈ معاملہ میں وہاں کے ایس پی صاحب نے بھی اسی طرح کا بیان دیا ہے انڈیا ٹوڈے۲۱ جولائی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ مقتولین جادو ٹونا میں ملوث تھے ۔تو کیا ایسا کرنے والوں کو مارڈالنے کا قانون ہے ؟کیا ان لوگوں سے نمٹنے کے لئے ایس پی صاحب اور نظام عدل کافی نہیں ہے؟ ہمارے یہاں یہ بات کامن ہوگئی ہے کہ ہجومی تشدد میں ظالموں کے بجائے مظلومین کو ہی مجرم قرار دیہا جاتا ہے انہی کے گناہ گنوائے اور اجاگر کئے جاتے ہیں ، سیاسی لوگ اپنے سیاسی مفادات کے لئے ایسا کرتے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار افسران بھی ایسا ہی کرنے لگ جائیں تو یہ بات انتہائی تشویش کا با عث اور خطرناک ہے ۔ مسلمانوں کی لنچنگ کے معاملات میں اسی طرح مظلومین و مقتولین کوہی گناہ گار ثابت کرنے کی مذموم کوشش کر کے گویا لنچنگ کو جواز فراہم کیا گیا ،مقدمات کمزور کئے گئے اور اس طرح لنچنگ کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کی وجہ سے اب اس طرح کی وارداتوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے بلکہ یہ لوگوں کی ذہنیت بنتی جا رہی ہے ساتھ ہی اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے ، یوپی بہار اور جھاررکھنڈ کی مذکورہ وارداتیں خاص طور سے مسلم مخالف نہیں ہیں کہ اس میں مظلومین غیر مسلم ہیں سوائے ایک کے جو غیر مسلم مظلومین کا ساتھی تھا ،نہ ہی ان وارداتوں میں ہندو مذہبی نعرے لگوائے گئے لیکن اس بنیاد پر اسے ماب لنچنگ نہ کہنا بھی غلط ہے ، یہ دراصل ماب لنچنگ کا بڑھا ہوا دائرہ ہے جو مسلمانوں سے شروع ہوا اور اب غیر مسلموں کو بھی اپنے چکر ویو میں لے رہا ہے ، بہار کے معاملہ میں تو الزام ہے کہ مقتولین چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑے گئے تھے لیکن یوپی کے معاملہ میں محض کتوں کے بھونکنے کی وجہ سے ہی چوری کا شک کیا گیا اور اسی شک کی بنیاد پر لنچنگ ہوئی ،یہی نہیں پچھلے دنوںپونے کے ایک ڈاکٹر صاحب کسی لیکچر کے سلسلے میں دہلی گئے تھے صبح چہل قدمی کر رہے تھے کہ کچھ نوجوانوں نے انہیں روکااور جئے شری رام کا نعرہ لگانے کا حکم دیاڈاکٹر صاحب ہندو ہیں انہیں نعرہ لگانے میں کیا قباحت ہو سکتی تھی لیکن اس زبردستی پر وہ بھی دنگ رہ گئے انہوں نے جئے شری رام کہہ دیا لیکن سامنے والوں نے اصرار کیا کہ بآواز بلند کہیں،’ کیا آپ ہندو نہیں ہیں؟‘۔ یعنی مسلم مخالفت سے شروع ہوئی لنچنگ اب ذہنیت بن چکی ہے اب یہ ذہنیت معمولی معمولی باتوں پربغیر کسی مذہبی امتیاز کے بھی لنچنگ کر سکتی ہے۔ اور یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ابتدائی معاملات میں ہی لنچنگ کے خلاف کڑے اور تابڑ توڑ اقدامات کر کے اور اس کے خاطیوں کو عبرتناک سزائیں دلوا کر اسے ذہنیت بننے سے نہیں روکا گیا بلکہ بر سر اقتدار لوگوں نے اپنی مسلم مخالف سیاست کی کامیابی کے لئے اس میں مظلومین و مقتولین کو ہی گناہ گار قرار دیا ۔ملزمین کی حمایت کی انہیں قانونی امداد فراہم کی ضمانت ملنے پر ان کی گل پوشی بھی کی گویا لنچنگ کے معاملات کو بڑھا وا دے کر اسے ذہنیت بنانے کی کامیاب کوشش کی ۔ اب بھی اگر اس ذہنیت کو ختم کرنے کے اقدامات نہیں کئے گئے تو ماب لنچنگ کا دائرہ اسی طرح وسیع ہوتا رہے گا کل صرف مسلمان اس کے نشانے پر تھے اب سماج کی دوسری مذہبی اکائیاں بھی اس کے نشانے پر آگئی ہیں ، پہلے مسلمانوں پر گؤ کشی کا الزام لگاکر لنچنگ کی گئی لیکن اب کسی الزام کی ضرورت نہیں رہی محض شک ہی اس کے لئے کافی ہو گیا ہے،آنے والے دنوں میں ہر وہ شخص اس کے نشانے پر آجائے گا جو اس ذہنیت کی ذرا بھی خلاف ورزی کرے گا ان سیاستداں کی باری بھی آئے گی جنہوں نے اس کو ذہنیت بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔