Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

طلاق ثلاثہ بل، اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا بہانہ ہے

by | Aug 1, 2019

آئینہ

فیصل فاروق
گزشتہ دنوں لوک سبھا میں طویل بحث اور اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود طلاق ثلاثہ کا بل منظور کر لیا گیا۔ اِس موقع پر کئی اپوزیشن پارٹیوں نے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔ بل کی حمایت میں ۳۰۳/اور مخالفت میں ۸۲/ووٹ پڑے۔ بل کو قانون بنانے کیلئے اب حکومت کو اِسے راجیہ سبھا سے بھی منظور کرانا ہوگا۔ واضح رہے کہ حکومت اِس بل کو پہلے بھی لوک سبھا سے منظور کرا چکی ہے لیکن راجیہ سبھا میں یہ بل نا منظور ہو گیا تھا۔
ایوان میں بل پر تبادلہ خیال کے دوران کانگریس لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ کانگریس کی جانب سے مَیں تین طلاق بل کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ یہ بل مسلم خاندانوں کے خلاف ہے اور صرف ایک طبقہ کو دھیان میں رکھ کر لایا جا رہا ہے۔ اُن کے بقول، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں مگر اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ حکومت کو طلاق ثلاثہ قانون کی بجائے یکساں قانون لانا چاہئے جس میں صرف مسلم مردوں کو ہی ہدف نہ بنایا گیا ہو۔
بہت ضروری ہے کہ اِس شریعت مخالف بل کے تعلق سے ہم بھی اِسی طرح کا رویہ اختیار کریں۔ مطلب یہ کہ دانشوروں اور سماجی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر مذہبی لحاظ سے بحث کو روکنے کے بجائے اِس کو صنفی انصاف کے اِرد گِرد لا کر سخت مخالفت کرنا چاہئے۔ کیونکہ اِس بل سے مسلم خواتین کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں اور حکومت بھی۔ حکومت کو مسلم عورتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ہر بار حقائق کی روشنی میں پوری مضبوطی سے اِس بل کی شدید مخالفت کی ہے اور اِسے امتیازی قرار دیا ہے۔ اویسی کے مطابق جب عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے، یعنی تین بار طلاق دینے سے شادی ختم نہیں ہوتی تو پھر یہ قانون کیوں بنایا جا رہا ہے؟یہ قانون دستور کی دفعات۴ ۱/اور۵ ۱/کی خلاف ورزی کرتا ہے اور دیگر ضابطے بھی پامال ہوتے ہیں۔
بلاشبہ یہ بل مسلم معاشرہ کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔ وقت رہتے اِس بل کی شدید مخالفت ہونی چاہئے۔ شروعات سب سے پہلے مسجدوں کے ممبروں و محراب سے ہو۔ جہاں امت مسلمہ کو یہ پیغام دیا جائے کہ مسلمان تین طلاق ایک مجلس میں نہ دیں۔ حالانکہ اگر یہی کام بہت پہلے ہو جاتا تو آج یہ نوبت ہی نہیں آتی۔ آج جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے کیا اُس میں خود مسلمان قصوروار نہیں ہے؟ دوسروں کو شریعت سے کھیلنے کا موقع ہم نے خود دیا ہے۔
اِس خطرناک بل کے مطابق تین طلاق دینے والے مرد کو مجرمانہ سزا دی جائے گی جس کی مدت کار تین سال کی جیل ہوگی۔ اتنا ہی نہیں یہ جرم ناقابلِ سماعت اور غیر ضمانتی بھی ہے۔ ضمانت کیلئے شرائط میں جو تبدیلی کی گئی ہے وہ عام آدمی کی وسعت سے باہر ہے۔ سوچنے والی بات ہے اگر کوئی ہندو اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور مقدمہ چلے تو اُس کو ایک سال کی جیل اور مسلمان کو تین سال کی جیل؟ حکومت کسی بھی صورت میں مسلم خواتین کی ہمدرد نہیں ہے۔
جب شوہر جیل چلا جا ئے گاتو اُس کا نان نفقہ کون برداشت کرے گا؟ کتنی عجیب بات ہے کہ شوہر کے جیل کاٹنے کے بعد کیا وہ اُس عورت کے ساتھ رہنا پسند کرے گا جس کی وجہ سے وہ تین سال جیل میں رہ کر آیا ہے؟ کیا وہ تین سال بعد جیل سے باہر آنے پر اپنی اہلیہ سے محبت کا اظہار کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ کیا ایسے میں یہ بل مسلم خاندانوں کے بکھراؤ کا سبب نہیں بنے گا؟ اِن ساری باتوں کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ طلاق ثلاثہ بل، اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا بہانہ ہے۔

حکومت کو مسلم عورتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، سیاسی فائدہ کیلئے اِس بل کو منظور کیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی طلاق ثلاثہ بل کا سیاسی فائدہ اُٹھا چکی ہے۔ اب ایک بار پھر اِس کا سیاسی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اِسی لئے کئی ریاستوں میں عنقریب ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مدِ نظر اِس بل کو جلدبازی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بل مسلم خواتین کے مفادات کو فروغ دینے کیلئے کچھ نہیں کرے گا بلکہ مسلم مردوں کو سزا دینے کیلئے ہی بنایا گیا ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...