
نوی ممبئی میں ملی وفکری بیداری پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے

رہنما فائونڈیشن ،نوی ممبئی کلچرل ویلفیئر فائونڈیشن اورمالدار فائونڈیشن کے سربراہ مشہور بلڈر سلطان مالدار کا کہنا ہے کہ ممبئی و تھانے کے بجائے نوی ممبئی کے اندر ملی قیادت کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں وہ ان گوشوں پر روشنی ڈال رہے ہیں جنہیں تاریک سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔
نیرول کے سائی سنستھان میں ان لوگوںنے اپنا آشیانہ بنایا ہے جو دنیاوی ہنگامے اور شور شرابے سے دور پرسکون زندگی گذارنا چاہتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پرسکون رہ کر معاشرے میں ارتعاش پیدا کرنے کا ہنر سلطان مالدار کے پاس ہی ہے جس کا وہ بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نوی ممبئی کے ان تمام لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا ہے جو کبھی تنہا تنہا اپنی زندگی گذارنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔جنوبی ممبئی کے بائیکلہ میں ۱۹۵۹ کواکبر مالدار اور مہر النساءمالدارکے گھر پیدا ہوئے سلطان کےپاس ’’آسمانی سلطانی‘‘بھی ہے جو انہیں ہر مقام پر ممتاز رکھتی ہے۔معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’چونکہ والدہ انجمن خیر الاسلام کے بانیوں میں شامل تھیں اور میٹھا صاحب کے ساتھ کام کر چکی تھیں جبکہ والد صاحب ۱۹۶۷ میںملٹری سے پرموشن ہوکر میونسپل اسکول جوائن کرچکے تھےاور اپنا پہلا ادارہ قائم کیا تھا لہذا تعلیم ہمارے گھر کی زینت تھی یہی وجہ ہے کہ میری ابتدائی تعلیم جہاں پاک سائٹ وکرولی کے میونسپل اسکول میں ہوئی وہیں میں نے انجمن اسلام کرلا سے دسویں کا امتحان پاس کیا اور پھر جھن جھن والا کالج گھاٹ کوپر سے بارہویں کی تعلیم مکمل کی۔۱۹۸۰ میں جب میں نے مہاراشٹر کالج سے گریجویشن کی تکمیل کی تو کسب معاش نے کوکن بینک کی ملازمت کے لئے آمادہ کیا اور ۱۹۸۰ میں میں نے کوکن بینک میں ملازمت اختیار کر لی۔۱۹۹۱ میں جب میں تعمیراتی کمپنی شروع کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا تو بینک کی ملازمت راس نہیں آرہی تھی لہذا ملازمت سے مستعفی ہوکر میں نے ۱۹۹۱ میں اپنی کمپنی امیج ڈیولپرس بنائی اور ممبرا میں تعمیراتی کام کا آغاز کردیا۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر انسان کچھ بہتر کرنا چاہتاہو اور اس کےجذبے میں صداقت ہوتو غیبی مدد بھی آتی ہے۔سلطان مالدار نے جب تعمیراتی کمپنی شروع کی اور مختلف پروجیکٹ کرنے لگے تو انہیں پرائم گروپ آف کمپنیز میں پارٹنرشپ کی دعوت ملی اورکوسہ تلائوپالی کا ’’وفا کامپلیکس ‘‘اور پھرالماس کالونی کا ’’وفا پارک‘‘ کی تعمیر کا کام مل گیا۔سلطان کہتے ہیں ’’ہم لوگ ممبئی سے ممبرا ایک گھر کی تلاش میں ۱۹۹۰ میں آئے تھے۔چونکہ وکرولی کا گھر چھوٹا تھااور کشادہ گھر ممبرا میں ہی مل سکتا تھا لہذا ایکارڈ کامپلیکس کے پاس رہائش اختیار کر لی گئی۔لیکن جب میں نے تعمیراتی بزنس میں قدم رکھا تو پھر دوسروں کو آباد کرنے میںخوشی محسوس ہونے لگی اور ہم خودبھی ایکارڈسے وفاپارک منتقل ہوگئے۔چونکہ وفا پارک پروجیکٹ بہت ہی بڑا پروجیکٹ تھا اور کوکن مرکنٹائل بینک میں ملازمت کی وجہ سے میرے پاس کوکنی کمیونیٹی کے کافی لوگ رابطے میں تھے لہذا پروجیکٹ کے ابتداء میں ہی ہاتھوں ہاتھ مال بکنے لگا اور ہم اس پریشانی میں مبتلاء رہنے لگے کہ آخر پیسہ کہاں رکھیں۔چونکہ ہم لوگوں نے قطر ،کویت،دبئی کے ساتھ دیگر خلیجی ممالک میں بھی مارکیٹنگ کی تھی لہذا خریدار زیادہ تھے اور مال کم ۔لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ پروجیکٹ ناکام ثابت ہوا اور پھر میں نوی ممبئی منتقل ہوگیا‘‘۔
وفا پارک پروجیکٹ سے دلبرداشتہ سلطان مالدار کوکن کے بزرگ رہنما علی ایم شمسی کے تعاون کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’چونکہ وفا پارک پروجیکٹ میں علی ایم شمسی صاحب کا تعاون حاصل تھا اور اس کی ناکامی کے بعد میں دلبرداشتہ تھا تو جب نوی ممبئی آیا تو دوبارہ علی ایم شمسی صاحب نے دست تعاون دراز کیا اور ہم پھر بے آب و گیاہ نیرول ،کھارگھر،کامٹےشہر کو بسانے میں لگ گئے۔نوی ممبئی ایسی راس آئی کہ کئی پروجیکٹ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے اور خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی‘‘۔
چونکہ والدین سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے لہذا سلطان مالدار نے بھی گھریلو روایات کو زندہ رکھتے ہوئے جہاں تعلیمی وسماجی پروگراموں میں پیش پیش رہنا شروع کیا وہیں سیاسی طور پر بھی اپنے آپ کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔وہ معیشت سے کہتے ہیں ’’میں جہاں رہنما فائونڈیشن کا صدر ہوں وہیں نوی ممبئی کلچرل ویلفیئر فائونڈیشن اور مالدار فائونڈیشن میں جنرل سکریٹری کے عہدے پرفائز ہوں۔میری خوش نصیبی ہے کہ جب اورنگ آباد میں سرسید کالج کی بنیاد رکھی گئی تو مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی،پونہ کیمپس کے پروگراموں میںہمیشہ شرکت رہتی ہے جبکہ کالسیکر کالج کے اسپورٹس ڈے کا افتتاح میرے ہاتھوں ہی ہوا تھا۔جمعیۃ علماء ہند نوی ممبئی کے کاموں میں جہاں پیش پیش رہتا ہوں وہیں ممبئی کا مشہور بچوں کا رسالہ گُل بوٹے کی ۲۴برسوں سے سرپرستی کررہا ہوں‘‘۔
مہاراشٹر کے تعلقہ مان گائوں کے موربا میں ’’لٹل چیمپس ‘‘کے نام سے بچوں کا اسکول چلا رہے سلطان کہتے ہیں ’’دراصل میری فطرت رہی ہے کہ جہاں کہیں بھی بھلائی کا کام ہو رہا ہو وہاں ’’تعاونوا علی البرو التقویٰ‘‘کی بنیاد پر جڑا رہا ہوں یہی وجہ ہے کہ لٹل چیمپس میں جہاں میری اہلیہ صدر ہیں وہیں میری بیٹی انم ثاقب مالدار سید ذمہ داریاں سنبھال رہی ہیں جبکہ میں سرپرستی کے فرائض انجام دے رہا ہوں‘‘۔اپنے مخلص دوستوں کو یاد کرتے ہوئے سلطان مالدار کہتے ہیں ’’انسان زندگی میں بہت کچھ کماتا ہے اور بہت کچھ گنواتا بھی ہے لیکن بہترین کمائی اچھے دوستوں کا ساتھ ہے مجھے جن مخلص دوستوں کی صحبت حاصل رہی ہے ان میں اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین جناب نسیم صدیقی،گُل بوٹے کے ایڈیٹر جناب فاروق سید اور بُرہانی کالج کے سابق پروفیسر ڈاکٹر قاسم امام،ہدایت الاسلام ٹرسٹ کے صدرقریش احمدصدیقی ،راشد خان،بلال سرگروہ،مرزا بیگ کا نام نامی سرفہرست ہے‘‘ ب۔
نوی ممبئی کی ضرورتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے معیشت سے کہتے ہیں’’نوی ممبئی میں ملی وفکری بیداری پیدا کرنا انتہائی ضروری ہےجبکہ دینی تعلیم اور اردو تعلیم کے فروغ کے لئے بھی اگر کام کیا جائے تو لوگ ہاتھوں ہاتھ قبول کریں گے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر تربتی کیمپ کے ساتھ اصلاح معاشرہ کی مجلسیں یہاں برپا کی جائیں تو نہ صرف لوگوں کا جوش و خروش دکھائی دے گا بلکہ لوگ خود ہی آگے بڑھ کر ہاتھ بٹانے آئیں گے۔ملی طور پر جہاں اپنے ہیروز کو یاد کیا جانا چاہئے وہیں فزیکل فٹنس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔میں یہ محسوس کررہا ہوںکہ ہمارے معاشرے میں اسپورٹس کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے نوی ممبئی میں اسپورٹس اکیڈمی موجود ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچے بہت کم اس میں شامل ہوتے ہیں۔اسی طرح کمیونیٹی سینٹر قائم کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر کام کے لئے یا تو حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں یا حکومت کے سامنے کاسہ گدائی پھیلا دیتے ہیں حالانکہ ہماری اتنی صلاحیت آج بھی موجود ہے کہ ہم ملی طور پر اپنے ادارے قائم کریں اور اسے چلانے کی کوشش کریں‘‘۔