
ممبرا میں تجارت کے مواقع اور موجودہ صورتحال
دانش ریاض
ممبئی کے مضافات میں تھانے سے متصل سہیادری پہاڑی اور الہاس ندی ڈیلٹاکے بیچ بسا مسلم اکثریتی شہر کوسہ و ممبرا کی بڑی تعداد تو ملازمت پیشہ ہےجو صبح ہوتے ہی ممبئی کے مختلف اطراف میں روزی روزگار کے لئے پھیل جاتی ہےلیکن ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہےجس نے صنعت و تجارت کو اپنا پیشہ بنائے رکھا ہے۔ ۱۹۸۴ اور پھر ۱۹۹۲ کے فسادات کےبعد بسا شہر جس پر کبھی کوکنی برادری اور آگری سماج کا غلبہ ہوا کرتاتھا اب مشرقی ہند کے لوگوں سےبھراپڑانظر آتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ آج بھی اہمتجارتوں پر بنیا برادری یا پھر مارواڑی برادری ہی قابض ہے۔خواص کے بیچ یہ مثل مشہور ہے کہ اگر بنیا حضرات ایک ہفتے تک دکانوں پر تالا لگا دیں تو نوے فیصد آبادی دانے دانے کو ترس جائے ۔جبکہ دوسری طرف مارواڑی سونے چاندی کے بیوپاری،الیکٹرک ،ہارڈویئراور میڈیکل اسٹورس کے مالک بڑی تعداد میں یہاں تجارت تو کرتے ہیں لیکن اس شہر میں رہنا پسند نہیں کرتے۔
تاریخی شہادتوں کا جائزہ لیں تو کھاڑی سے متصل ہونے کی وجہ سے ۱۹ویں صدی تک یہاں پانی کےجہازوں کی مرمت ہوا کرتی تھی یا پھر پانی کے جہاز سے سفر کرنے والے تجار یہاں پڑائو کیا کرتے تھےجو یہیں سے مصالحہ جات لے کر آگے کا سفر شروع کرتے تھے۔ ممبرا میں ریتی بندر کا علاقہ اس حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔
چونکہ ۱۹۹۲ کے بعد لٹی پٹی مسلم آبادی جوق در جوق علاقے کا رخ کرنے لگی لہذا بازآباد کاری کے نام پر ان بلڈروں کی حوصلہ افزائی ہوئی جنہوں نے ’’باندھ کام ‘‘کا کام نیا نیا سیکھا تھا۔چار منزلہ غیر منظور شدہ ’’باندھ کام‘‘نے ایسا زور پکڑا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ممبرا میں بلڈروں کی بڑی تعداد نظر آنے لگی۔ممبرا والوں کے لئے شہ زوری کے بعد ’’بلڈری‘‘ایک ایسی نعمت غیرمترقبہ تھی جس سے ہر شاہ زور مستفید ہونا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا ۔۲۰۰۵ آتے آتے ان تمام زمینوں پر ناجائزقبضہ ہوگیا جو کسی شہر کوخوبصورت بنانےکےلئے حکومت کی طرف سے مختص کئے جاتے ہیں۔ بچوں کے لئے کھیل کا میدان ہویا اسکول کی زمین،سرکاری اسپتال کے لئے مختص پلاٹ ہو یا گھریلو نالیوں کو بڑے نالوں سے جوڑنے والے نالے۔مختلف پلاٹ کے بعد کشادہ راہ داریاں ہوں یا پھر آب و ہوا کو بہتر بنانے والے گارڈن ہر ہر زمین پر ’’باندھ کام مافیائوں‘‘نے ایسا قبضہ جمایا کہ ۱۵سے ۱۸لاکھ کی آبادی بے ہنگم شہر میں تبدیل ہوگئی اورممبرا نئی تجارت کو روشناس کراکر ریاستی سطح پر بدنام ہوگیا۔
کہتے ہیں ہر شر میں خیر کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔شاید ’’باندھ کام مافیائوں‘‘کی آمدنی کا شہرہ ہی تھا کہ ممبئی و مضافات کے کچھ اچھے بلڈروں نے علاقے کا رخ کیا اور تھانے کارپوریشن سے منظور شدہ ایسی عمارتیں بنانی شروع کیں جس نے خلیجی ممالک میں مقیم لوگوں کو بھی ممبرا میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرلیا۔یہ بلڈر نہ صرف تعمیراتی کام کے لئے کوسہ ممبرا آنے لگے بلکہ دھیرے دھیرے انہوں نے یہاں رہائش بھی اختیار کر لی۔جب صاحب حیثیت لوگوں نے بھی علاقے کا رخ کرنا شروع کیا تو ایسی ہوٹلیں بھی کھلنے لگیںجس نے یہاں کی معیشت کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار اداکیاہے۔ممبرا کا ڈھابہ کلچر گوکہ دیرپا ثابت نہیں ہوا لیکن گلی محلوں میں کھلنے والے ہوٹلس ان چھوٹے کاروباریوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے جو کم سرمایہ لگا کر اپنی تجارت کو فروغ دینا چاہتے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کوسہ وممبرا کی معیشت پریہاں کی تعمیراتی کمپنیوں کے بے پناہ اثرات ہیں۔جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد اسٹیڈیم ،کالسیکر کالج اور کالسیکر اسپتال نےباہر سے آنے والے لوگوں کی فکر تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کارپوریٹ کمپنیوں کے حوالے سے بھی ممبرا کا نام غیر معروف نہیں ہے۔۱۹۷۲ میںبھارت گیئرس لمیٹڈکی بنیاد ڈاکٹر رونق سنگھ نے کوسہ ممبرامیں رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کی بڑی گیئر کمپنیوں میں شمار ہونے لگی اور علاقے کی پہلی کارپوریٹ کمپنی بھی قرار پائی اور کھرڈی گائوں کا علاقہ بھارت گیئر سے مشہور ہوگیا ۔ پانی کے جہازمیںاستعمال ہونے والے مختلف آلات ،سائٹ گلاسیز ،پیٹروکیمیکل کمپنیز،سیمنٹ انڈسٹری وغیرہ کو مختلف آلات فراہم کرنے والی دوسری کمپنی سائنٹفک ڈیوائسیزتھی جس نے کوسہ ممبرا سے اپنا آغاز کیا اور اپنی شناخت قائم کی لیکن ممبرا کو زیادہ شہرت ’’کُرمُرے‘‘صنعت سے ملی جس کی چھوٹی چھوٹی بھٹیاں مختلف گلی محلوںمیں موجود تھیں۔
میک کمپنی کا قیام بھی ممبرا کی صنعتی شناخت کے لئے اہم تصور کیا جاتا ہے۔فائر بریگیڈ کے بالمقابل ممبرا پولس اسٹیشن کے قریب اگر کسی علاقے کو انڈسٹریل علاقہ کے بطور متعارف کرایا گیا ہے تووہ میک کمپنی انڈسٹریل ایریا ہی ہے جہاں مختلف چھوٹے چھوٹے کارخانے آباد ہیں۔کہتے ہیں جب میک کمپنی نے اپنی خدمات معطل کیں تو چھوٹے چھوٹے گالے مختلف انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو دینا شروع کیاگیا اور پھر پورا علاقہ انڈسٹریل ژون میں تبدیل ہوگیا۔عوام میں یہ بات مشہور ہےکہ ممبرا کے تمام علاقوں میں اگر بجلی چلی جائے تو بھی میک کمپنی کی بجلیمنقطع نہیں ہوتی۔
ممبرا کے تجارتی تذکرے میں اگر گلاب پارک مارکیٹ کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بڑی نا انصافی ہوگی۔گوکہ سیاسی چپقلش اور کمزور طبقات کی معیشت کو تباہ کرنے کی مذموم کوشش کے نتیجہ میں آج گلاب پارک مارکیٹ اپنی معنویت کھو چکا ہے لیکن چند ماہ قبل تک ڈومبیولی اور کلیان کے خریدار بھی مذکورہ مارکیٹ سے مستفید ہوا کرتے تھے جس کا راست فائدہ مقامی معیشت کو پہنچتا تھا۔مقامی طور پر ٹیکسٹائل سے وابستہ کپڑے کے تاجر گلاب پارک مارکیٹ کو اپنی تجارت کے لئے ریڑھ کی ہڈی سمجھا کرتے تھے لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ ایک مخصوص برادری جس کاکہ ممبرا کی مارکیٹ پر خاص اثر و رسوخ ہے ،مذکورہ مارکیٹ کو اپنی تجارت کے لئے روڑا سمجھتا تھا اور پھر ٹریفک جام کے بے بنیاد الزامات کے تحت اس پوری معیشت کو تباہ کردیا گیا جو غٖریبوں کا سہارا ہوا کرتا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کوسہ و ممبرا مستقبل قریب میں تجارت کی بڑی منڈی بن کر ابھرے گا۔محض چھ کلومیٹر کی دوری میں ۱۸لاکھ کنزیومرس ہر اس کمپنی کو اپنی طرف راغب کریں گے جوڈورہائوس مارکیٹنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ممبرا میں ادارہ معیشت نےکنزیومرس کو آپریٹیو سوسائٹی کی داغ بیل ڈالنے کا فارمولہ پیش کیا تھا جو ہنوز زیر التواء ہے ۔اگر ممبرا وکوسہ کے صاحب حیثیت مذکورہ آئیڈیا پر سر جوڑ کر بیٹھیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم نہ صرف یہاں کی معیشت پر راست اثر ڈال سکیں گے بلکہاپنے نوجوانوں کو تجارت کی ان بلندیوں پر بھی پہنچا سکیں گے جس کا خواب عموماً کارپوریٹ گھرانے کے لوگ دیکھا کرتے ہیں۔
دانش ریاض معیشت اکیڈمی کے ڈائرکٹراور روزنامہ معیشت کے مدیر ہیں۔