
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سماجی تعلقات اور معاشرے پر اسکے اثرات

معیشت اکیڈمی کی جانب سے نوی ممبئی،تلوجہ،پنویل،کوسہ ممبرا کے مدارس اسلامیہ کے مابین منعقد ہونے والے تحریری مقابلہ میں انعام دوم حاصل کرنے والی مقالہ نگارخان نصرت شاہ محمد کی تحریر
اس دار فانی میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے گئے اور ہر پیغمبر کے ساتھ ایک آفاقی دین نازل کیا گیا لیکن ہر دین میں کچھ نہ کچھ کمی رہی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے یک بعد دیگرےپیغمبر مبعوث کیے گئے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ واحد پیغمبر جنہیں مکمل دین دیے کر اس دار فان میں مبعوث کیا گیا اور اس دین کے مکمل ہونے کی دلیل خود اللہ نے نازل فرمادی ۔ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا [المائدہ ۳]آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے
دین اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کی رہنمائی کرنا انسان کے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک تمام حاجات اور امور زندگی کے سارے مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ پیدائش ، رضاعت، شادی، تجارت، طلاق،صدقہ سماجی زندگی ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کا حل دین میں نہ ہو۔اور اس دین اسلام کی تکمیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کی گئی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر اسلام کا تصور ہی محال ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یعنی احادیث اور آفاقی کتاب قرآن مجید دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے زندگی کے ہر ایک موڑپر اسوہ و نمونہ ہے اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا:لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [الاحزاب ۲۱]در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا،تاریخ عالم میں اگر کوئی ایسی ہستی تلاش کی جائے جس کی پوری زندگی پورے اعتماد کے ساتھ محفوظ ہو، جس کی سیرت انسانی سماج کے ہر فرد کے لیے رہنمائی رکھتی ہو، جس کی حیات طیبہ کو ہر شعبہٴ زندگی کے لیے ایک بہترین آئیڈیل کے طور پر پیش کیاجاسکے یعنی ایسی ہستی جس میں جامعیت، کاملیت اور تاریخیت اپنے پورے جمال وجلال کے ساتھ جلوہ گر ہو، تو ہزارہا برس کی طویل انسانی تاریخ میں صرف ایک ہستی ایسی ملے گی اور وہ ہوگی فخر کائنات سید الانبیاء محمد عربی صلى الله عليه وسلم کی، جس کے مثل نہ تو اس سے پہلے کوئی ہستی عالم وجود میں آئی اور نہ آئندہ ایسی جامعیت، کاملیت اور تاریخیت کے اوصاف کسی انسانی وجود کو نصیب ہوسکیں گے۔رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جس دین کو لے کر آئے وہ جامع اور مکمل دین ہے،اس کی تعلیمات زندگی کے ہر ہرگوشہ اورہرہرشعبہ کے لیے بھرپور ہے،اس دین کی بنیادی کتاب قرآن مجید میں اس کی کاملیت کااعلان کیاگیا ہے: ”اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ“آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔اس کتاب مقدس کی شرح کا نام سنت نبوی ہے اور اسی کا دوسرا نام سرورعالم صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ ہے، سنت نبوی نے کتاب الٰہی کی ہر ہدایت کو عمل کے سانچے میں ڈھال کر انسانوں کے سامنے پیش کیا، اور راہ حیات کو ایسا روشن و منور کردیا کہ اس کی شب بھی ایک ضیاء بار دن کی مانند بن گئی، ارشاد ہوا:تَرَکْتُکُمْ عَلٰی مِلَّةٍ بَیْضَاءَ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا سَوَاءٌمیں نے تم کو ایسی روشن راہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح ہے۔(حدیث)حیات طیبہ کی یہ جمال وجلال آفریں روشنی اور ضیاء بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر یکساں پڑتی ہے۔ سیاسی زندگی ہو یا معاشی زندگی، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، سماجی زندگی ہو یا زندگی کا کوئی اورایسا پہلو، اور پھر زندگی کے کسی بھی شعبہ کا کوئی بھی مرحلہ درپیش ہو، سیرت طیبہ کے بحر بیکراں میں اس کی ہدایت و رہنمائی کی درنایاب موجود ملتے ہیں،اس لیے کہنے والے نے درست کہا ہے: انسانی زندگی اپنے حقیقی روپ میں سماج کے اندر ہی جلوہ فگن ہوتی ہے۔ رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی پاکیزہ زندگی انسانی سماج کے لیے بیش بہا متاع گراں مایہ ہے، بہتر انسانی سماج کی تشکیل اور ہر فرد سماج کی فلاح و بہبود حیات طیبہ کی وہ عطر بیزی ہے جس کی خوشگوار بھینی بھینی خوشبوؤں سے انسانی چمن بارہا معطر ہوتا رہتا ہے۔ سماج افراد سے وجود میں آتا ہے اور افراد کی جان عزت اور مال و آبرو کا تحفظ اس کے وجود و بقاء کے لیے لازم ہوتا ہے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ نے انسانی جان کو اتنا محترم اور قیمتی بنایا کہ ناحق کسی انسان کی جان لینے کو نہ صرف بہت بڑا گناہ بتایا، بلکہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا، اوراس دروازے کو سختی سے بند کرنے کا مضبوط نظام قائم فرمایا۔ عزت و آبرو اور دوسرے کے مال پر کسی قسم کی دست درازی کو سخت تعزیری جرم قرار دے کر ہر فرد کی عزت اور مال کے تحفظ کی ضمانت فرمائی۔
رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی سماجی زندگی ایک بہترین اور مکمل انسان کی زندگی ہے، جس کے اخلاق فاضلہ کی روشنی سے ہر دور کے انسانی سماج کو منور کیا جاسکتاہے، رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں کامل ایمان اس کاہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔“ آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ”انسان حسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے سے ملتا ہے“ اخلاق کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی کہ انسانی سماج کی بہتر تشکیل اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے، خود آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ اخلاق کے بلند مقام پر تھی، قرآن نے کہا:”اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“
بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں۔ مساوات و برابری اور عدل وانصاف بہتر انسانی سماج کی تشکیل کیلئے ضروری ہیں۔رسول صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں مساوات اور انصاف کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ قریش کی ایک خاتون چوری کے جرم میں پکڑی گئی، بعض عزیز ترین صحابہ نے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کی نہ سنی، اور فرمایا: ”تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ گناہ کرتے تھے تو ان کو سزا دی جاتی تھی اور جب بڑے لوگ کرتے تو ان کا جرم نظر انداز کردیاجاتا تھا۔ سماج کے کمزور افراد کی خبرگیری اور مدد آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ کی روشن مثالیں ہیں۔ایک صحابی حضرت خباب رضي الله تعالى عنه کسی لشکر میں گئے ہوئے تھے، ان کے گھر میں کوئی دوسرا مرد نہ تھا، اور عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا، آپ صلى الله عليه وسلم روزانہ ان کے گھر جاکر دودھ دوہ آتے تھے، دوسروں کے کام کردینا آپ صلى الله عليه وسلم کو اس قدر محبوب تھا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوچکی تھی، اسی دوران ایک بدو نے آپ صلى الله عليه وسلم کا دامن پکڑ کر کہا میرا تھوڑا ساکام رہ گیا ہے، آپ پہلے اسے کردیجئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم چپ چاپ اس کے ساتھ ہولیے، اوراس کا کام پورا کرنے کے بعد نماز کے لیے تشریف لائے۔ مکہ میں ایک بار قحط پڑگیا۔ اہل مکہ جو مسلمانان مدینہ کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ انسانی حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کی غربت وتنگدستی کے عالم میں بھی پانچ سو دینار جمع کرکے سرداران مکہ کو بھیجے کہ وہ قحط کے شکار لوگوں کی مدد کرسکیں۔رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذاتی اور گھریلو زندگی پرنظر ڈالی جائے تو وہ ایک عام انسان کی طرح روزمرہ کے کاموں اورہر دکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں، بکری کا دودھ دوہ دیتے، خادموں کو ان کے کاموں میں مدد دیتے، بازار ے سودا خریدلاتے اور کوئی دعوت دیتا تو فوراً قبول کرلیتے تھے۔ سماجی تعاون اور خوشی و غمی میں شرکت کے لیے کوئی مذہبی رکاوٹ آپ کی راہ میں حائل نہیں تھی۔ ایک یہودی خاتون کی دعوت آپ نے قبول فرمائی، اوراس کا کھانا کھایا، اسی طرح ایک یہودی لڑکا بیمارہواتو آپ صلى الله عليه وسلم اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے، ایک بار نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے خود مہمانداری کی، اور وفد کے اراکین کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ حق و انصاف کے معاملہ میں بلا تفریق مذہب ہر انسان آپ کی نظر میں برابر تھا۔ اگرکبھی اختلاف ہوتاتو ناحق کسی مسلمان کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔
حلف الفضول:
مظلوموں کو مدد اور محتاجوں کی اعانت آپ صلى الله عليه وسلم کا شیوہ رہا ہے، مکہ مکرمہ کی زندگی میں رسول اللہ ﷺ کو نبی بنائے جانے سے پہلے ایک واقعہ پیش آیا: قبیلۂ بنو زبید کے ایک صاحب مکہ آئے اور انہوں نے عاص بن وائل سہمی سے اپنا تجارتی مال فروخت کیا، عاص نے قیمت کی ادائیگی میں ٹال مٹول شروع کردیا اور ظلم و انکار پر اتر آیا؛ چنانچہ اس مسافر نے ٹھیک اس وقت جب قریش صحن کعبہ میں بیٹھا کرتے تھے، بوقیس کی پہاڑی پر چڑھ کر لوگوں کو آواز دی کہ ایک مظلوم شخص کی پونجی لے لی گئی ہے، ایک ایسے شخص کی جو اپنے وطن اور بال بچوں سے دور ہے اور حرم محترم کی وادی میں مقیم ہے، اس طرح کے ظلم و زیادتی کے واقعات مکہ میں پیش آتے رہتے تھے؛ لیکن اس اجنبئ شہر نے کچھ ایسے درد کے ساتھ اپنی فریاد پیش کی کہ قریش کے رحم دل لوگ اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہے اور قریشِ مکہ کے چند اہم خاندان — بنو ہاشم، بنو مطلب، اسد بن عبد العزیٰ، زہرہ بن کلاب اور تمیم ابن مرہ — کی اہم شخصیتیں عبد اللہ بن جدعان کے مکان میں جمع ہوئیں،اور” بقائے باہم ” کے اصول پر ” جیو اور جینے دو ” کے قسم کا ایک معاہدہ کیا اور حلف اٹھا کر عہد کیا کہ ہم لوگ:
مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
مظلوم کی حمایت کریں گے۔
ملک سے بے امنی دور کریں گے۔
غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
اس تاریخی معاہدہ کو “حلف الفضول” اس لئے کہتے ہیں کہ قریش کے اس معاہدہ سے بہت پہلے مکہ میں قبیلہ “جرہم” کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسا ہی ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اور چونکہ قبیلۂ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب لوگوں کا نام “فضل” تھا یعنی فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ اس لئے اس معاہدہ کا نام “حلف الفضول” رکھ دیا گیا، یعنی ان چند آدمیوں کا معاہدہ جن کے نام “فضل” تھے۔ اس معاہدہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور آپ کو یہ معاہدہ اس قدر عزیز تھا کہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس معاہدہ کے بدلے میں کوئی مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیتا تو مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی ۔اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم “یاآل حلف الفضول ” کہہ کر مجھے مدد کے لئے پکارے تو میں اس کی مدد کے لئے تیار ہوں۔
میثاق مدینہ:
ایک سماج کے لوگوں کے درمیان پُرامن بقائے باہم اور خوشگوار زندگی کا سب سے بہتر نمونہ اور اصول ”میثاق مدینہ“ کے نام سے ہمارے سامنے موجود ہے، رسول کریم صلى اللهعليه وسلم جب مدینہ آئے تو وہاں کے مختلف قبائل اور اہل مذاہب کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم نے معاہدہ فرمایا، یہی معاہدہ میثاق مدینہ ہے، اس کی دفعات کتنی مدبرانہ اور معقول ہیں، اس کا اندازہ ان کے الفاظ سے کیاجاسکتاہے۔
سب لوگ ایک ہی قوم کے فرد سمجھے جائیں گے، یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہے اور دونوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہوگی۔
اگرمعاہدہ کرنے والے کسی قبیلہ پر کوئی دشمن حملہ آوار ہوگا تو تمام قبیلے ملک کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
شریک معاہدہ قبیلوں کے تعلقات خیرخواہی، نفع رسانی اور نیک اطواری پر مبنی ہوں گے، تاکہ جبر پر، اور خلاف اخلاق امور میں کوئی اعانت نہیں کی جائے گی۔
یہودیوں اور مسلمانوں کو برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
مظلوم کی ہر حال میں مدد کی جائے گی۔ وغیرہ
میثاق مدینہ کی ان دفعات نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک مشترک سماج کی تشکیل کا اصول فراہم کیا ہے، اور ان خطوط پر آج کے کثیر مذہبی، کثیر تہذیبی اور کثیرلسانی سماج کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔
حضورﷺکے متعدد نکاح کی حکمتیں:
جس طرح حضورﷺ کے باقی ہر عمل کے پیچھےکوئی نا کوئی حکمت ہوتی تھی اسی طرح آپ ﷺکی ازدواجی زندگی بھی حکمتوں سے آزاد نہ تھی، حضور ﷺ کی ازواج کی کچھ اہم حکمتوں کا تذکرہ پیش خدمت ہے ۔
حضور نے بہت سی شادیا ں کیں ، یہ سب نکاح اسلامی انقلاب کی وسعت تک پہونچنے کیلئے تعلقات کی وسعت اور مختلف خاندانوں اور بااثر قبائل مختلف قبائل سے تھے ، جن میں سے اکثر کاسبب تالیف ِقلب یا سہارا دینا تھا، یا اس خاندان سے تعلق ورشتہ کی مزید گہرائی مقصود تھی ، یا ان رشتو ں سے اسلام کو تقویت اور اللہ کی خوشنودی مقصود تھی ۔حضرت عائشہ ایک ایسے محبوب ترین رفیق اور دوست سے رشتہ کی استواری تھی ، جس نے مکہ کے مشکل ترین دور میں آپ کاساتھ دیا ، معراج کی حیران کن خبر سب سے پہلے آپ نے کی ۔غار ثور کی ہولناک تاریکی میں آپ کا ساتھ دیا ، جس نے آپ پر اپنی ہر متاع عزیز لٹانے کی کوشش کی ۔ جوآپکے اولین جانشین ہوئے اور مزاج نبوت کی حامل صحابی اور رفیق رسول تھے ۔انکے ساتھ رشتہ کاتعلق قائم کرنا ان کے احسانات ومحبت کا قلبی وعملی اعتراف تھا ۔اس کے علاوہ حضرت عائشہ کے ساتھ شادی میں حکمت یہ تھی کہ آپ صلى الله علیه وسلم کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہو جس نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی کھولی ہو پھر نبی صلى الله علیه وسلم کے گھرانے میں آ کر پروان چڑھے ، تاکہ اس کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور صلى الله علیه وسلم کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔اسی طرح حضرت عمر فاروق (رض) کی صاحبزادی حضرت حفصہ(رض) سے شادی کی، جوبیوہ تھیں ،یہ رشتہ حضرت عمر (رض) سے تعلق کا مزیدگہرائی کا ذریعہ بن گیا ۔ اور ان کی دل جوئی اور معاونت کا سبب بھی بنا ، اس طرح اسلامی تحریک کے درجہ اول کے دو اہم ترین سے حضور اکرم کا رشتہ کا قریب ترین تعلق پیداہوگیا ۔
متعدد شادیوں کی ایک ظاہری حکمت یہ بھی تھی کہ حضور ﷺکو ایک سخت نا ترشیدہ قوم سے سابقہ تھا جو تہذیب وتمدن میں بہت پیچھے تھی اور جسکی معاشرتی زندگی بہت ہی غیر منظم بے ہنگم تھی ،حضور ﷺ کے پیش نظر اس قوم کی تربیت تھی اور انکے گھروں تک اسلامی قوانین و تعلیم پہنچانے کاذریعہ یہی امہات المؤمنین تھیں ، امہات المؤمنین ہی دوسری مسلمان خواتین کی تعلیم کا ذریعہ بنیں ۔حضور ﷺ کی ذاتی اور گھریلو زندگی کےمعمولات امہات المومنین کے ذریعے ہی امت کے سامنے آئے۔
پہلے جنگ بدر پھر جنگ اُحد میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیمو ں کا کوئی سہا را نہ رہا تھا ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکا ح کیے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شا دیا ں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرا نے آبا د ہوگئے ۔ حضرت ام سلمہ کے شو ہر بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے ، انھوں نے اور ان کے شوہر نے اللہ کے راستہ میں بہت زیادہ صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ، انکا یوں بے یار ومددگار رہ جانا بہت بڑا حادثہ تھا ۔ حضور اکرم نے بچوں سمیت ان کے سہارے کیلئے ان سے نکاح کر لیا ، اس طرح حضرت زینب بنت خزیمہ سے نکا ح کیا ، انکے شوہر بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے ، حضور ﷺ نے ان سے شادی کرلی ۔
اس قبائلی معاشرہ میں آپ ﷺ نے مختلف قبائل کی خواتین سے نکاح کے ذریعے ان قبائل سے اپنے معاشرتی تعلقات استوار کیے جس سے بہت قبائلی دشمنیاں آپ ﷺ کے خلاف سرد پڑگئیں ۔عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داما د بن جاتاا س کے خلا ف جنگ کر نا اپنی عزت کے خلا ف سمجھتے ۔ جنا ب ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکا ح ہو اتو یہ دشمنی کم ہوگئی۔ اس طرح حضرت جو یر یہ رضی اللہ عنہ کا وا لد قبیلہ معطلق کا سر دار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہا د کیا ، ان کا سر دار ما را گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر آئیں ، ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکاح فرمایا۔ان سے نکاح کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بنی المصطلق کے سب قیدی رہا کر دیئے ۔ اور وہ بعد میں سب مسلمان بھی ہو گئے ۔اسی طرح حضر ت صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی۔ خیبر کی لڑائی میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر آئیں ان کے ذریعہ یہود کے قبیلوں میں اسلام کے اچھے اثرات پھیلے ۔
ان شا دیو ں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اس کی ایک مثال میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکا ح ہے ، انکی وجہ سے نجد کے علا قہ میں اسلام پھیلا ۔
غرض حضور ﷺ کا کوئی رشتہ ازدواج بھی محض نکاح کی خاطر نہ تھا بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں ۔
انسانوں سے خیرخواہی کی تلقین
رسول اکرم ﷺ اپنے کردار و عمل سے خدمت خلق اور انسانی ہمدردی کے اعلیٰ نمونے پیش کرنے کے ساتھ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت بھی اس طریقےسےفرماتے تھے کہ وہ بھی معاشرہ کے لئے مجسمۂ رحمت و ایثار بن جائیں ۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نماز روزہ اور دیگر عبادات کے بارے میں تاکید کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کو دوسرے انسانوں سے بھلائی اور خیرخواہی کی بھی بھرپور تلقین فرماتے تھے ۔
حضرت جریر ابن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز قائم کرنے ، زکواة
ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیرخواہی پر بیعت کی ۔
سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے پیارے ساتھیوں کو یہ درس دیا تھا کہ ” جو شخص کسی بیوہ یا مسکین کی خبر گیری کرتا ہے اس کی حیثیت اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے یا اس شخص کی ہے جو دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کے لئے کھڑا رہتا ہے ۔
ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا سامان تیار کیا وہ گویا جہاد میں شریک ہوا جس نے مجاہد کے جانے کے بعد اس کے گھر والوں کی خبر گیری کی وہ جہاد میں شامل ہوا ۔ اسی طرح پڑوسیوں کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دیتے ہوئے پڑوسی کی عزت کرے اور اس کو ایذا نہ دے ۔
حضرت عبداللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ پہلا ارشاد جو رسول اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے میں نے سنا وہ یہ تھا ۔
لوگو!سلام کا رواج ڈالو ، کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو ،
آج جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے اوراس گاؤں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پڑوسی کی طرح رہنے لگے ہیں، سماجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ زندگی گذارنے کے آداب انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی پاکیزہ سیرت میں ہمیں ایسے نمایاں نقوش ملتے ہیں جو اس پہلو سے بہترین رہنمائیاں فراہم کرتے ہیں، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زندگی سبق دیتی ہے کہ پڑوسی کا حق بہت بڑا ہے، اور مذہب کے فرق سے قطع نظر وہ شخص سب سے بُرا ہے جس کی دل آزاریوں اور تکلیفوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جبریل امین نے مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی اتنی تلقین کی کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ پڑوسی کو بھی میراث میں حصہ دار بنادیا جائیگا۔
سماج میں صفائی کی تلقین
صفائی ستھرائی کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے آدھا ایمان قرار دیا، روزانہ پانچ وقتوں کی نمازوں کے لیے وضو کرنے کی صورت میں جسم کے ان اعضاء کو دھونے کی ہدایت جو عموما کھلی رہ کر مختلف جراثیم اورماحولیاتی عوامل کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، صفائی اور حفاظت کا بہترین نظام فراہم کرتی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں یہ مثال ملتی ہے کہ مسجد نبوی میں ایک جانب ایک بدوی نے آکر پیشاب کردیا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک بالٹی پانی منگواکراس کو صاف کردیا، دیوار پرکسی نے تھوک دیا تو اسے کھرچ کر اس کی جگہ خوشبولگادی، غذائی سامانوں میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیاگیا اس کی بنیاد اسی بات پر تو رکھی گئی ہے کہ وہ خبیث و گندگی ہیں، اور انسانی جسم و صحت کے لیے مضر ہیں۔ قرآن میں ہے: ”ویحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث“ یعنی لوگوں کے لیے اچھی وطیب چیزوں کو حلال اور گندی اور خراب چیزوں کو حرام قرار دیا۔ شہری زندگی کے نوع بہ نوع سماجی مسائل اور ماحولیات سے متعلق سوالات کا بہترین حل اورجواب ہمیں کہیں مثالوں کی صورت میں اور کبھی اصولوں کی شکل میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں جگہ جگہ نظر آتاہے۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: ”تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے“ نفع رسانی، خیر خواہی اور انسانی فلاح وبہبود کا جذبہ اصل مطلوب ہے، سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے کہ خیرخواہی کرو، اور دین خیرخواہی کا نام ہے، انسانوں کو نفع پہنچانے کے لئے طریقے ہوسکتے ہیں، نفع اور خیروبھلائی کے ہر طریقے کو سراہا گیا ہے، کسی سے دو میٹھے بول کہہ دینا بھی صدقہ ہے، جس انسان کی زندگی ہمدردی سے محروم ہوچکی ہو اس کے لیے ہمدردی کے چند جملے کتنی قیمت رکھتے ہیں، کسی سے خوشدلی اور بشاشت کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے، راستہ میں کسی تکلیف دہ چیز کو دیکھ کر اسے راستہ سے ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا بندوں پر رحم کرو،جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحمت عالم کی یہ شان رحمت صرف انسان تک محدود نہیں تھی، بلکہ انسانی سماج میں انسانوں کے ساتھ رہنے والے ہر جاندار کے لیے عام تھی۔ چنانچہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی۔ جانوروں پر ظلم ہوتے دیکھ کر آپ صلى الله عليه وسلم نے سختی سے ممانعت فرمائی، بلاوجہ جانوروں کو پیٹنے، ستانے اور ٹھیک سے کھانا پانی نہ دینے پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے سخت تنبیہ فرمائی۔ ایک بار آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک اونٹ کو دیکھا تو اس کے مالک کو بلاکر فرمایا کہ اس جانور کے بارے میں خدا سے ڈرو، جس کا خدا نے تم کو مالک بنایا ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابی نے چڑیا کے دو بچوں کو پکڑلیا، چڑیا اوپر منڈلانے لگی، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس کے بچوں کو پکڑ کر کس نے اس کو بیقرار کیا، اس کے بچوں کو چھوڑ دو۔ ایک عورت کے بارے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس کو صرف اس لیے عذاب ہوا کہ اس نے بلی کو باندھ کر بھوکا رکھا تھا، رحمت عالم صلى الله عليه وسلم نے اس سلسلہ میں واضح کیا کہ جس طرح انسانوں کی ایذارسانی ایک شرعی جرم ہے اسی طرح جانوروں کی ایذا رسانی بھی گناہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ نکاح کا رشتہ پائداری چاہتا ہے۔ بلاوجہ طلاق دینا اللہ کو سخت ترین ناپسند ہے، اور اسی طرح بلاوجہ طلاق کامطالبہ کرنا لعنت کا سبب ہے، خانگی زندگی کو خوشگوار اور پائدار بنانے کے لیے سیرت طیبہ نے قدم قدم پر بہترین ہدایت دی ہیں۔
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی کمزوریوں سے چشم پوشی، ان کے حقوق کی ادائیگی ، ان کے ساتھ حسن معاشرت کی تفصیلی ہدایات رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سیرت و حیات میں موجود ہیں، جہیز کا مطالبہ اور جہیز کے لالچ میں عورت پر ظلم یادباؤ کسی قیمت پر گوارہ نہیں ہے، سیرت طیبہ کی تعلیم کا تقاضہ ہے کہ اس سماجی لعنت کو بالکل ختم کیا جائے اور خانگی زندگی کو سنت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سانچہ میں ڈھالا جائے۔
سماج میں باہمی اعتماد، تعاون اور باہمی محبت کا فروغ سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتاہے۔ ایسی مضبوطی کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے خاصا اہتمام فرمایا ہے، بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایت دی گئی ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کی جائے، کسی کی ٹوہ اور تجسس میں نہ پڑا جائے، کسی کو مدد کے موقع پر بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے، کسی کو برے نام اور برے لقب سے نہ پکارا جائے، کسی کے بارے میں بدگمانی نہ رکھی جائے، ہر انسان سے محبت کی جائے، اس کے تئیں حسن ظن رکھاجائے، باہمی محبت کو بڑھاوا دینے کا بہترین نسخہ ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بتایا کہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دئیے جائیں، سلام کو رواج دیا جائے، اس سے محبت بڑھتی ہے۔ باہمی مدد اور تعاون کا درجہ اتنا اونچا کیاگیا کہ فرمایاگیا جب تک انسان اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس انسان کی مدد کرتا رہتا ہے۔ قرآن میں کہا گیا کہ ہرنیکی اور تقویٰ شعاری کے نام میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور ظلم و زیادتی میں تعاون مت کرو۔
سماجی زندگی میں ایک اہم مسئلہ مختلف مذاہب کے احترام اور ان کے درمیان بقائے باہم کا ہے۔ سیرت طیبہ میں اس بارے میں بہت واضح ہدایات موجود ہیں، میثاق مدینہ میں تمام مذاہب والوں کے لیے اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی کی ضمانت تاریخ میں محفوظ ہے، مذہبی اصولوں میں اپنی شناخت کے ساتھ باقی رہتے ہوئے دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والوں کا احترام اور اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی سیرت طیبہ نے دی ہے، اس نے بتایا کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہے، اور مذہب کا فرق باہمی راواداری، باہمی تعاون، باہمی اشتراک، عمل اور سماجی ہم آہنگی میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنتا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اپنے اپنے مذہب پر عمل کی ضمانت کے ساتھ زیادہ مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سیرت و کردار سے اس معاملہ میں کافی روشنی ملتی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سماجی زندگی بڑی ہمہ گیر، وسیع اورہر زمانہ کی سماجی ضروریات میں رہنمائی رکھنے والی ہے، سیرت طیبہ کا موضوع ایسے نقوش روشن سے مالامال ہے جس کی روشنی سے ہم اپنے اپنے سماج کی کسی بھی نوع کی تاریکی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ سیرت طیبہ کا سماجی پہلو آج بھی ایک روشن قندیل ہے، ایک منبع فیض اور بہترین اسوٴ حسنہ ہے۔