
ترکی کا قدیم شہر سلطان احمد

عمر ابراہیم
ضلع سلطان احمد کی مرکزی شاہراہ سے گزریں… گلخانہ پارک کے رُخ پر دائیں جانب تین تہذیبوں کے آثار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ذرا آگے چل کر پھر دائیں رستہ لیں، سلطان احمد مسجد المعروف نیلی مسجد کے سامنے لکڑی اورگارے سے بنی بینچیں صف بہ صف نظر آتی ہیں۔ بائیں جانب آیا صوفیہ کی پُرشکوہ عمارت نظر آتی ہے۔ آیا صوفیہ یونانی آرتھوڈکس گرجا گھر، پھر شاندار عثمانی مسجد، اور آج کا عجائب گھر ہے۔ یہاں تہذیبوں کا تصادم سانس لیتا ہے، محسوس کیا جاسکتا ہے۔
دائیں جانب مسجد سلطان احمد اور بائیں جانب آیا صوفیہ ایک ایسا مشاہدہ ہے، مصطفی کمال کا جبر جسے زائل نہ کرسکا۔ احساسات کب تک بے خبر رہ سکتے تھے! دیگر تہذیبیں قصۂ پارینہ ہوئیں، مگر اسلامی تہذیب یہاں کی زندگی میں لوٹ رہی ہے۔ سلطانوں کے مزار ماضی سے حال میں آرہے ہیں۔ یہاں عقب میں عثمانوں کا محل توپ قاپی دور تک پھیلا ہے۔ یہاں مہرِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور موئے مبارک سمیت صحابہ کرامؓ سے وابستہ کئی اشیاء محفوظ ہیں۔ یہ سب عہدِ نبوت، خلافتِ راشدہ اور خلافتِ عثمانیہ کے مقدس اوراق ہیں۔ یہاں خلیفۂ سوم حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے سرخ نسخہ قرآن محفوظ ہے۔ یہ سادہ سفید کپڑے میں لپٹا ہے۔ یہ نسخہ عروج وزوال ہے۔
ضلع سلطان احمد کا سفر صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اسے سمیٹنا ضخامت طلب ہے۔ یہ مضمون محض شہر استنبول کا سرسری سا مشاہدہ ہے۔ ہرلمحہ ایک مضمون ہے۔ یہاں اسلامی احیاء سفر میں ہے۔ ہم نے یہ سفر، یہ مسافر دیکھے۔ دل شاد ہوا کہ ہم مسافرنہ ہوئے نہ سہی، موت سے پہلے مستقبل کے مسلمان دیکھ لیے۔
استنبول قسطنطین عرف بازنطین شمال مشرق اورجنوب سے پانیوں میں گھرا جزیرہ نما شہر ہے۔ ضلع سلطان احمد اس کا ’قدیم شہر‘ ہے۔ شمال میں آبنائے باسفورس سے سینگ نما نہر شہر میں جانکلتی ہے، اسے گولڈن ہارن کہتے ہیں۔ یہ معروف سیاحتی مقام ہے۔ مشرق میں آبنائے باسفورس ایشیا اور یورپ کی سیر پر لے جاتی ہے۔ جنوب میں مرمرہ کا سمندر جنت نظیر جزیرے بیت قضاء تک لے جاتا ہے، عہدِ عثمانیہ کا ایک اور ورق سیاحوں پرکُھلتا ہے۔ مغرب سے اس شہرکا براہِ راست رشتہ نہیں، یہاں عیسائی رومن بادشاہ قسطنطین نے فصیلیں چن دی تھیں۔ یہ دیواریں ترکی اور مغرب کے درمیان حائل ہیں۔
ہمارے ہوٹل سلطان احمد کے بالکل سامنے سے جدید ٹرام کی دو پٹریاں گزرتی ہیں۔ یہ پرانے شہرکے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ شمال میں پُل غلطاں کی طرف نکل جاتی ہیں۔ مغرب میں شہرکے نواح کا رخ کرتی ہیں۔ میٹرو اسٹیشن سے فی ٹکٹ تین لیرا میں سفر خوشگوار اور سستا ہے۔ ٹرام کا سب سے بڑا فائدہ ٹریفک جام سے آزاد ہونا ہے۔ وقت ضائع نہیں جاتا۔ یہاں کوئی شام دھواں دھواں نہیں ہوتی۔
ضلع سلطان احمد تاریخ کا پاپیادہ سفرہے۔ سب کچھ اردگرد آس پاس مل جاتا ہے۔ مگر سب کچھ بلکہ بہت کچھ جان لینے کا دعویٰ ناممکن ہے۔ ہم جب ہوٹل سلطان احمد کے ساتھ بائیں فٹ پاتھ پرچلتے ہیں، کچھ فاصلے پر سلطان احمد اسکوائر ملتا ہے۔ اس سے منسلک بہت بڑا زیرزمین بیسیلیکا حوض ہے۔ اسے رومن بادشاہ جسٹینین نے 532 عیسوی میں تعمیرکروایا تھا۔ شہرکے محاصرے کی صورت میں پانی کا یہ ذخیرہ استعمال کیا جاتا تھا۔ نیم اندھیرے میں ایستادہ ستونوں کے درمیان پانی ذخیرہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں حوض میں سکہ اچھال کر خواہش کرنا روایت ہے۔ آج بھی مغربی سیاح یہاں خواہشات لے کرآتے ہیں۔ خواہشات کے لیے یہ خوابیدہ ماحول بہت مناسب ہے۔ یہاں سے نکل کرآگے بڑھ جائیں، گلخانہ پارک آجاتا ہے، یہاں ہمیں خزاں کا موسم ملا۔ زرد پتوں کی برسات میں سکون کے لمحات میسرآئے۔ یہاں The History of Science & Technology in Islamہے، مسلمان سائنس دانوں کے کارنامے، اور ایجادات کے نمونے نفاست سے رکھے گئے ہیں۔
بلاشبہ، یہ تاریخ کے عجائبات کا شہر ہے۔ سلطان احمد میں جس رخ پر نکل جائیں، عجائب گھر ملتے ہیں۔ قدیم گرینڈ بازارکی جانب جائیں، راستے میں عثمانیوں کے ایک مدرسے کا دروازہ ملتا ہے، جالیوں سے اُس طرف اساتذہ اور طلبہ کے مزار نظر آتے ہیں، ان کے کتبے آج تک دستار بند ہیں۔فٹ پاتھ پرکچھ آگے جاکر دائیں جانب راستہ جاتا ہے، وہ قدیم گرینڈ بازار تک پہنچاتا ہے۔ 61 گلیوں کا یہ بازار پانچوں اطراف سے بند ہے۔ چار ہزار دکانوں میں انواع و اقسام کا سامانِ زندگی ملتا ہے۔ دو سے تین لاکھ لوگ یہاں یومیہ آتے ہیں۔ 2014ء میں سیاحوں کے لیے پُرکشش مقامات کی فہرست میں یہ بازار نمبر ون قرار پایا تھا۔ سلطان محمد دوئم نے سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ عثمانی طرزِ تعمیر کا شاہکارہے۔
بازارکے ساتھ ہی مسجدِ سلیمانیہ ہے۔ یہ شہرکی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے۔ سلطان سلیمان کے حکم پر یہ شاہکار تیار کیا گیا۔ شاید یہ وہ واحد شہرہے، جہاں دنیا بھرکے سیاح سب سے زیادہ مساجد دیکھتے ہیں، اذانوں کی صدائے نو سنتے ہیں۔ہم نے بار بار یہ مساجد دیکھیں، ایک ساتھ گونجتی اُن اذانوں کو سنا، جو مغرب کی وادیوں میں پھرشدت سے محسوس کی جارہی ہیں۔ جسے تہذیبوں کی تاریخ اور عروج و زوال سمجھنا ہو، وہ استنبول ضرور جائے، اور قدیم شہر سلطان احمد ضرور دیکھے۔