ایودھیا جسے میں نے دیکھا

۶دسمبر ۱۹۹۲کو ہندو انتہا پسند قدیم بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے (فائل فوٹو)
۶دسمبر ۱۹۹۲کو ہندو انتہا پسند قدیم بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے (فائل فوٹو)

قضیہ بابری مسجد کے تناظر میں لکھی گئی دانش ریاض کی تاثراتی تحریر

یہ تقریباً بیس بائیس برس قبل کی بات ہے جب جامعۃ الرشاد اعظم گڈھ کے ناظم اعلیٰ مولانا مجیب اللہ ندی (مرحوم)کےصاحبزادے راشٹریہ علماء کونسل کے صدرمولاناعامر رشادی کے بڑے بھائی عبد اللہ عمارصاحب نےمدرسہ تعلیم و تربیت کی بنیاد رکھی تھی اور اس کی ایک شاخ ایودھیا میں بھی قائم کی تھی۔عامر بھائی مختلف تعلیمی وثقافتی پروگرام کا انعقاد کرتے اور ملک بھر سے لوگوں کو ایودھیا آنے کی دعوت دیتےتھے۔ان دنوں چونکہ میں نے بھی بابری مسجد پر کئی مضامین تحریر کئے تھے جومقامی طور پر ہی شائع ہوئے تھے لہذا ایک ملاقات میں انہوں نے مجھ سے بھی کہا کہ پہلے تم اس جگہ کا جائزہ لے لو اس کے بعد اگر کچھ تحریر کرو تو شایدکچھ بہتر لکھنے میں کامیاب ہو سکواور آخر ایک تعلیمی و ثقافتی پروگرام میں انہوں نے مجھے بھی ایودھیا بلا لیا اور کئی روز تک قیام کا موقع فراہم کیا۔
چونکہ دار المصنفین سے شائع کتاب ’’بابری مسجد ‘‘ کا میں مطالعہ کر چکا تھا جس میں یہ بات درج تھی کہ یہ مسجد و مزارات کا شہر بھی ہے لہذاپہلادن ہی مساجد کو شمار کرنے میں گذاردیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چھ کلو میٹر کے اندر ہی غالباً ایک سو تین یا ایک سو چار مسجدیں ہیں جن میں سے بیشتر یا تو بند پڑی ہیں یا انتہائی خستہ حالت میں موجودہیں۔بابری مسجد کے پیچھے ہی عادل شاہی مسجد بھی ہے جس کے پاس بھی تقریباً ایک ڈیڑھ ایکڑ زمین ہےلیکن اس علاقے پر بھی ان لوگوں کا قبضہ تھا جن کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ لوگ ملک کی مختلف ریاستوں میں جرائم کرکے یہاں آتے ہیں اور سادھو بن کر اپنی شناخت چھپا لیتے ہیں اور اس طرح قانون سے بھی محفوظ ہو جاتے ہیں۔ مسجدوں کو شمار کرنے کے بعد میں نے مزارات کو شمار کرنا اور ان کی زیارت کرنا چاہا تو سب سے پہلے حضرت شیث علیہ السلام کی قبر پر لے جایا گیا۔اسی احاطے میں اور بھی کئی قبریں موجود ہیں۔حضرت نو ح علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کی قبروں کے تعلق سے بھی کچھ باتیں سنائیں گئیں۔جبکہ لعل شاہ باز قلندر رحمہ اللہ حضرت سالار مسعود غازی شہید رحمہ اللہ وغیرہ کی قبروں پر بھی لے جایا گیا اور اس طرح لوگوں نے اولیاء کرام،صوفیاء کرام کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتایا کہ یہاں تقریباً چار ہزار مزارات ہیں جو بزرگان دین سے منسوب ہیں۔حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ مسجد و مزارات کے ساتھ چھ ہزار مندر کا تذکرہ بھی کیا گیا ۔ایودھیا میں مقیم کسی بھی پنڈت سے آپ دریافت کریں کہ رام جی کہاں پیدا ہوئے تھے تو وہ اپنی اس کٹیا کی طرف ضرور اشارہ کرے گا جہاں وہ پوجا پاٹھ کیا کرتا ہے۔ایودھیا کے ہر ہندو کے گھرکی اپنی ایک داستان ہے جسے وہ ہر اس شخص کو سنانا چاہتا ہے جو باہر سے وہاں معلومات کے لئے گیا ہو۔
ایک شام میں نے مرحوم ہاشم انصاری کے گھر پر بھی حاضری دی جو اپنے پرانے گھر کے باہر ہی چارپائی بچھائے بیٹھے تھے۔چونکہ جن لوگوں کے ساتھ میں گیا تھا وہ ہاشم صاحب کے لئے بھی خاص تھے لہذا ان کی تکریم میں ہاشم صاحب (مرحوم) نے چائے سے ضیافت کی لیکن دوران گفتگو وہ درد بھی بیان کیا جو وہ برسوں سے جھیلتے آرہے تھے۔ آج کے فیصلہ کے بعد ہاشم انصاری (مرحوم)کے صاحبزادے اقبال انصاری کے بیان میں بھی اس درد کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہاشم صاحب کہنے لگے ’’ہم لوگ انتہائی غریب ہیں ،روزگار کا بہتر انتظام نہیں ہے اور اس پر سے یہ مقدمہ بازی ۔میں کورٹ جانے کے لئے بھی پائی پائی کو ترس جاتا ہوں ۔دہلی اور لکھنئو میں تو اس مسئلے پر بڑے بڑے جلسے ہوجاتے ہیں جہاں لاکھوں خرچ ہوجاتا ہے لیکن کوئی ہمارے اخراجات کا انتظام تک نہیں کرپاتا۔چونکہ عبد اللہ عماربھائی ہاشم صاحب کے مسائل حل کرنے میں معین و مددگار تھے لہذا انہوں نے عبد اللہ بھائی کے لئے ممنونیت کا اظہار بھی کیا۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ پورا ایودھیا ڈی ڈی سے نشر ہونے والےسیرئل رامائن کے ایودھیا کی عملی تصویر پیش کررہا تھا۔ پنڈت اور پجاری حضرات اپنا روایتی لباس دھوتی کے ساتھ کھڑائوں پہنے ہوئے تھے۔جبکہ بیشتر گھروں میں مندر چبوترے کے باہر یا پھر دالان میں ہی بنایا گیا تھا۔دوپہر کے وقت پورا علاقہ بلکہ پوری فضا ایسی معلوم ہوتی گوکہ ہم کسی کھنڈر کے اندر موجود ہوں۔عجیب ہو کا عالم ہوتا ۔ایسی آوازیں سنائی دیتیں کہ اگر آدمی تنہا ہو تو خوف میں مبتلا ہوجائے۔
دراصل ایودھیا شروع سے ہی خیر و شر کی آماجگاہ رہا ہے۔کہتے ہیں کہ جب ہندوستان پر بودھ مت کا بول بالا تھا تو ایودھیا میں بودھ مت کے بیس ہزار مندر ہوا کرتے تھے جبکہ مہاتما بودھ کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ انہوں نے ۹برس یا ۱۹ برس اس علاقے میں گذارے ہیں جبکہ تین ہزار سے زائد بھکشو ہمیشہ یہاں مقیم رہا کرتے تھے لیکن المیہ یہ ہے کہ اب ایودھیا بودھوں کی کسی بھی نشانی سے بالکل آزاد ہے۔اسی طرح جین مذہب والوں کا بھی کہنا ہے کہ ان کے پانچ پیشوا یہیں پیدا ہوئے ہیں لیکن جین مذہب والوں کی بھی کوئی نشانی یہاں موجود نہیں ہے۔
مدرسہ تعلیم و تربیت کے ذریعہ عبد اللہ عمار بھائی نے جس جذبے کو پروان چڑھایا تھا اس کا ایک مظاہرہ دس محرم کو دیکھنے کو ملا جب نوجوان مختلف گروہ میں اپنا کرتب دکھانے لگے اور بابری مسجد سے متصل والی سڑک پر جہاں پی اے سی تعیینات تھی اپنا احتجاجی پروگرام منعقد کیا جس میں یہ باور کرایا گیا تھا کہ ہم آگ میں کود کربھی بابری مسجد میں سجدہ ادا کریں گے۔محرم کا یہ جلوس اپنے آپ میں یقیناً منفرد تھا جس میں نوجوانوں نے شہیدبابری مسجد کی جھانکیاں نکالی تھیں۔تلوار اور لاٹھی کے کرتب کے بعد نوجوانوں کا گروہ رکتا ،مسجد کےماڈیول کے آس پاس الائو جلایاجاتا اور پھر کچھ نوجوان الائو میں کود کر سجدہ ادا کرتے ،دعا کرتے اور پھر الائو سے باہر آجاتے۔ جن لوگوں نے بھی اس جلوس کو دیکھا ہوگا انہیں محسوس ہوگا کہ خود ایودھیا کے نوجوانوں نے کس طرح شہیدبابری مسجد کو اپنے دلوں میں بسائے رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے آج جو فیصلہ سنایا ہے اس کی روشنی میں یہ بات کہی جانی چاہئے کہ ہمیں تو وہ پانچ ایکڑ زمین کی بھی ضرورت نہیں ہے جو بطور عطیہ ہمیں دی جارہی ہے۔یہ لڑائی تو حق و انصاف کے قیام کی لڑائی تھی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نمائندوں نے یہ بات بیان کردی ہے کہ اس ضمن میں انہیںمایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *