سی اے اے‘ دستور ہند‘ اقوام متحدہ اور منو اسمرتی

CAA NRP

ڈاکٹر سید ظفر محمود

دسمبر 2016 میں شہریت ترمیمی قانون بنایا گیا جس کے ذریعہ 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے قبل ہندوستان کی حدود میں داخل ہونے والے ایسے غیر قانونی مہاجرین کو ہندوستان کی شہریت دئے جانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے جو ہندو‘ سکھ‘ بدھ‘ جین‘ پارسی یا عیسائی مذہب کو مانتے ہوں اور پاکستان‘ بنگلہ دیش یا افغانستان سے نقل وطن کر کے اس لئے ہندوستان آئے ہوں‘کیونکہ ان کے ملک میں ان کے خلاف مذہب کی بنیاد پر ایذا رسائی ہو رہی تھی‘ وہ گذشتہ 12 ماہ سے ہندوستان میں پناہ گزیں ہوں اور گذشتہ 14 میں سے 5 برسوں میں بھی ہندوستان میں رہے ہوں۔اس ترمیمی قانون سے قبل والے ہندوستانی شہریت قانون میں یہ 5 برس والا عرصہ 11 برس تھا یعنی کہ مسلم مہاجرین کے لئے اب بھی وہی 11 برس والی ہی شرط رہی۔ ٹی وی چینل ٹائم نائو پر مرکزی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وہ مع خواتین شاہین باغ کے کسی سے بھی شہریت ترمیمی قانون پر گفت و شنید کرنے کے لئے راضی ہیں جس کے لئے ان کے دفتر سے رابطہ کرنے پر تین روز میں وقت مقرر کر دیا جائے گا۔ بین المذاہب تنظیم برائے امن نے وزیر داخلہ کو لکھا ہے کہ وہ اس موضوع پر ان سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے وقت مختص کر دیا جائے ۔ ساتھ ہی تنظیم نے وزیر کو یہ بھی لکھاہے کہ سی اے اے دستور ہند کے آرٹکل 27, 26, 25, 14 اور 51 کی خلاف ورزی کرتا ہے جن کے مطابق ملک میں ہر فرد کو اپنے ضمیر کے مطابق کسی بھی مذہب کو اختیار کر کے اس میں یقین کرنے‘ اس پر عمل کرنے اور اس کی مشتہری کرنے کی مکمل آزادی ہے ۔ ملک کو کوئی ایسا قانون بنانے کا حق نہیں ہے جو مختلف افراد کے مابین ملک کے اندر عدم مساوی برتائو کرنے کی اجازت دیتا ہو‘سب کو اپنے مذہبی معاملات مرتب کرنے اوردین و فلاح عامہ سے متعلق ادارے قائم کرنے اور انھیں چلانے کا اختیار ہے ۔
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی سے متعلق عالمی اعلامیہ کے آرٹکل 22,15,14,7,6,2,1اور28 کی بھی سی اے اے خلاف ورزی کرتا ہے۔ اعلامیہ کی رو سے سبھی انسان آزاد اور عزت نفس و حقوق میں برابر پیدا ہوتے ہیں ‘ ہر شخص عقل اور ضمیر سے آراستہ ہوتا ہے ‘ لہٰذا سبھی کو ایک دوسرے سے باہمی اخوت سے پیش آنا چاہئے۔ آرٹکل 2 پابندی لگاتا ہے کہ کسی شخص کے ساتھ اس بنیاد پر تعصب نہیں کیا جائے گا کہ وہ فلاں ملک کا باشندہ ہے جس کا محل وقوع فلاں علا قہ میں ہے۔ ہر شخص کے ساتھ ہر ملک میں ایک جیسا برتائو کیا جائے گا۔ قانون کی نظر میں سب کو برابر کا درجہ دیا جائے گا‘ بغیر تعصب کے ہر شخص ایک جیسے تحفظ کا حقدار ہو گا۔ آرٹکل 14 تو صاف طور پر تاکید کرتا ہے کہ تمام ممالک کے تمام باشندوں کو برابر کا حق حاصل ہے کہ وہ ایذا رسائی سے بچنے کے لئے کسی بھی ملک میں پناہ گزینی کے لئے درخواست دے سکتے ہیں۔کسی بھی شخص کو شہریت کے حق سے دستبردار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی عزت نفس سے متعلق بنیادی ضرورت والے اقتصادی‘ سماجی و ثقافتی وجود کی پاسداری کا استحقاق حاصل ہے ۔ آرٹکل 28 کے تحت ہر شخص کو حق حاصل ہے ایسے سماجی و بین الاقوامی بندوبست کا جس میں وہ تمام حقوق و ٖآزادیاں حاصل ہوں جن کا اقوام متحدہ کے اس اعلامیہ میں اندراج کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مہاجروں و پناہ گزینوںسے متعلق نیو یورک اعلامیہ 2016 کے آرٹکل 13کی بھی سی اے اے خلاف ورزی کرتا ہے جس میں پابندی لگائی گئی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر افراد کے درمیان تعصب نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کس ستم زدہ شخص کے ساتھ کوئی ملک کیا برتائو کرے گا۔ یاد رہے کہ2016 میں اس عالمی اعلامیہ کے وقت نیو یارک کے اس اجلاس میں حکومت ہند کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ جنرل وی کے سنگھ موجود تھے اور انھوں نے حکومت ہند کی طرف سے اس اعلامیہ کی توثیق کی تھی۔
اس طرح ثابت ہو گیا کہ سی اے اے دستور ہند ‘عالمی اعلامیہ برائے حقوق انسانی اور مہاجروں و پناہ گزینوں سے متعلق نیو یارک اعلامیہ کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوے صرف تین ممالک کے ان باشندوں کو جو مخصوص مذاہب کو مانتے ہوں ان کی بیجا جانب داری کرتا ہے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں و دیگر ممالک کے باشندوں کے خلاف بلا جواز تعصب کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں سیکڑوں مقامات پر اس قانون کی مخالفت میں احتجاجات ہو رہے ہیں‘ جگہ جگہ پر اس کے خلاف میلوں لمبی انسانی زنجیریں بنائی جا رہی ہیں جس میں لاکھوں لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ ملک کے ایک چوتھائی سے زائد صوبائی اسمبلیوں نے اس کے خلاف قراردادیں پاس کی ہیں‘ پوری دنیا میں اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں ‘ اقوام متحدہ و متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے اس کی سخت تنقید کی ہے۔لہٰذا وزیر داخلہ و حکومت ہند کو چاہئے کہ وہ یا تو شہریت ترمیمی قانون کو مسترد کر دیں یا اس میں ترمیم کر کے اس کے سکشن 2 اور 6 کے نیچے دئے گئے مشروط فقرہ (Proviso)کو رد کر دیں جس کے ذریعہ ہندو‘ سکھ‘ بدھ‘ جین‘ پارسی یا عیسائی مذاہب کو اسلام پر ترجیح دی گئی ہے کیونکہ ایسا کرنا دستور ہند ‘ اقوام متحدہ کے اعلامیہ برائے حقوق انسانی اور نیو یورک اعلامیہ برائے مہاجرین و پناہ گزیں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ ہمارے ملک میں ہی عورتوں اور دلتوں کے انسانی حقوق کی جو پامالی اور ان پر جو ایذا رسائی ہو رہی ہے اسے ختم کرنے کے لئے ایسا یکساں سول کوڈ لائیں جس کے ذریعہ منو اسمرتی میں لکھی ہوی اس شریعت کو رد کیا جائے جس کے ذریعہ دلتوں اور عورتوں کے خلاف بد سلوکی کرنے کا اختیار نام نہاد اونچی ذات کے ہندومردوں کو دیا گیا ہے۔ منو اسمرتی کے مطابق عورت کو بنا تے وقت ہی خدا نے اس کی فطرت میں ناجائز تمنا ‘غصہ‘ کینہ اور بدسلوکی ضم کر دی تھی (IX-17)۔ ویدوں کے پڑھنے سے گناہ دھل جاتے ہیں اورعورت کو حق نہیں ہے کہ وہ ویدوں کو پڑھے لہٰذا وہ ہمیشہ نجس ہی رہتی ہیں(IX-18) ۔عورت کو اجازت نہیں ہے کہ وہ ویدوں کے نسخہ میں لکھی ہوی روزانہ کی قربانی کر سکے ‘ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو وہ دوزخ میں جائے گی(XI-36,37)۔اگر شوہر نیک نہاد نہ بھی ہو اور دیگر مقامات پر شہوت کرتا ہو پھر بھی بیوی کا فرض ہے کہ اس کی پوجا کرے(V-154)۔ شوہرکو اپنی بیوی کو ڈنڈے اور رسی کے ذریعہ جسمانی اذیت پہنچا نے کا حق ہے (VIII-299)۔اگر دوبارہ پیدا ہونے والوں یعنی برہمن‘ کشتری یا ویش کی مزمت کے لئے شودر یا دلت سخت الفاظ کا استعمال کرے تو اسے سخت جسمانی سزائیں دی جائیں (VIII-270-271)۔اگر شودر کسی اونچی ذات والے پر حملہ کرے تو حکومت شودر کے ہاتھ کٹوا دے(VIII-280)۔اگر وہ اونچی ذات کی لڑکی کے ساتھ ہمبستری کرے تو شودر کو قتل کر دیا جائے لیکن اگر کوئی اونچی ذات والا شودر لڑکی کے ساتھ ایسا کرے تو اسے معمولی سزا دے کر چھوڑ دیا جائے(VIII-366)۔لہٰذا یہ ماننا ہو گا کہ ذات پات کا سسٹم سماجی مساوات ‘ انفرادی آزادی اور آپسی بھائی چارے کے خلاف اور راشٹر ورودھی ہے۔ اس لئے شہریت ترمیمی بل میں یہ بھی لکھا جائے کہ اگر کوئی شخص عورت یا شودر کے ساتھ ظلم وبربریت کرتا ہے تو اس کی شہریت رد کر دی جائے گی اور اسے مرکز حراست (Detention Centre)میں ڈال دیا جائے گا۔ ِ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *