واشنگٹن : امریکہ میں کورونا سے مرنے کی والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ گذشتہ ۲۴ گھنٹوں میں امریکہ شہر نیو یارک میں ۲۳۷ افراد کورونا کے سبب لقمہ اجل بن گئے ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے امریکہ بھر میں مختلف اقدامات جیسے سماجی دوری وغیرہ کا اطلاق اب 30 اپریل تک بڑھا دیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اتوار کو کہا کہ انھیں ماہرین نے بتایا ہے کہ اگلے دو ہفتوں میں امریکہ میں کووڈ 19 کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگا مگر اس کے بعد توقع ہے کہ اموات اور متاثرین کی تعداد میں کمی آئے۔
دنیا میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے مریض امریکہ میں ہیں اور اب تک ان کی تعداد ایک لاکھ 39 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے 2400 سے زائد افراد کی موت ہو گئی ہے۔
آج دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات 33 ہزار سے زیادہ ہیں۔
دنیا بھر میں اکثر ممالک جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن میں رہے۔
دریں اثنا امریکا کے ایک سینیر سائنس دان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے امورِ صحت ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس سے ایک سے دو لاکھ تک ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔
ڈاکٹر فاؤچی امریکا کے قومی ادارہ صحت میں شعبہ متعدی امراض کی تحقیق کے سربراہ ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کی کرونا وائرس کے بارے میں ٹاسک فورس کے اہم بھی رکن ہیں۔ انھوں نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس مہلک وائرس سے دس لاکھ تک اموات کا تو امکان نہیں ہے اور یہ بالکل انہونی اور ناممکن سی بات ہے۔ ‘‘
البتہ انھوں نے یہ پیشین گوئی کی ہے اس وَبا سے ایک لاکھ سے دو لاکھ تک اموات ہوسکتی ہیں اور مزید لاکھوں افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر فاؤچی نے سی این این سے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:’’ میں یہ نہیں چاہتا کہ اس تعداد کو حتمی سمجھ لیا جائے۔یہ ایک طرح کا متحرک ہدف ہے ،آپ غلط بھی ہوسکتے ہیں اور لوگوں کو گم راہ کرسکتے ہیں۔‘‘
ان سے جب کووِڈ-19 کے مرض کے ٹیسٹوں کی عدم دستیابی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:’’اگر آپ موجودہ صورت حال کا چند ہفتے پہلے کی صورت حال سے موازنہ کریں تو اس وقت ہم کہیں زیادہ تعداد میں ٹیسٹ کررہے ہیں۔‘‘
ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کب تک ٹیسٹ عام دستیاب ہوں گے اور اس کے بعد سفری اور کام کی پابندیاں کب ختم کردی جائیں گی؟ انھوں نے اس کے جواب میں یہ کہا :’’ یہ معاملہ اب ہفتوں تک محیط ہوگیا ہے۔یہ کل ہی پابندیاں ختم ہونے والی ہیں اور نہ یہ آیندہ ہفتے ختم ہو جائیں گی۔اس کام میں اس سے کچھ زیادہ وقت ہی لگے گا۔‘‘