عفان احمد کامل ،ارریہ
رمضان اور قرآن کے رشتے کو سمجھنا عام فہم انداز میں بہت ضروری ہے ۔
آج ہم رمضان اور قرآن کے رشتے کو آسان ا نداز میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر 185 میں الّلہ فرماتا ہے۔۔”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔۔۔”
قرآن کی اس آیت سے ہمیں یہ پتہ چل رہا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔اس بات میں کوئ بھی تردّد یا شبہ کی کوئ گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس کے بعد دوسری دو آیتیں ہیں: سورۃ القدر کی پہلی آیت اور سورۃ الدخان کی تیسری آیت۔ سورۃ القدر کی میں الّلہ فرماتا ہے۔۔”
سورۃالدخان میں فرماتا ہے:
یعنی: قدر والی رات اور خیر وبرکت والی رات میں اس قرآن کو الّلہ ربّ العزّت نے نازل کیا، اتارا ۔کس پر اتارا ۔ کس پر نازل کیا ؟ تو سورۃ الدھر آیت نمبر 23 میں الّلہ فرماتا ہے۔۔
سورۃ الشوریٰ میں الّلہ فرماتا ہے “اے نبی ﷺ یہ قرآنِ عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے۔۔”
کئ باتیں واضح ہو گئیں۔ پہلی بات کہ قرآن رمضان مہینے کی کسی رات میں نازل ہوا۔ وہ رات قدر والی تھی۔،لیلہ القدر تھی، شبِ قدر تھی اور خیرو برکت والی رات بھی تھی۔ کس پر نازل ہوا یہ بات بھی پتی چل گئ کہ الّلہ کے نبی و رسول حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا۔ کس طرح سے نازل ہوا یہ بھی پتہ چل گیا کہ “تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوا” اور “وحی” کے ذریعہ نازل ہوا۔
اب اس میں مفسّرینِ قرآن سے دو رائیں پتہ چلتی ہیں: 1۔ رمضان کی ہی کسی ایک رات میں قرآن کا نزول شروع ہوا۔ یعنی سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں۔ 2 ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ پورا قرآن فرشتوں کے حوالے کردیا گیا ، پھر موقع کے اعتبار سے قریب 23 سال کی رسولِ اکرم کی زندگی میں، تھوڑا تھوڑا کر کے، بقدر ضرورت ، اللہ کے حکم سے ، حضرت جبرئیل علیہ السلام ، رسولِ اکرم ﷺپر قرآن اتارتے رہے۔
الّلہ تعالیٰ سورۃ القدر میں فرما تا ہے کہ جس رات قرآن نازل ہوا وہ رات القدر تھی: یعنی تقدیر کے فیصلے کی رات، الّلہ ا س رات تقدیروں کے فیصلے کرتا ہے۔ اور دوسری آیت میں یہ فرمایا کہ یہ رات”ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔
آگے اسی سورۃ میں فرماتا ہے فرشتے، روح الامین حضرت جبرئیل اسی رات الّلہ کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ دنیا اور اس میں بسنے والے انسانوں کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں، یہ سب کے سب کام اسی ایک رات میں ہوتے ہیں، جسے ہم سب شبِ قدر کی رات کہتے ہیں۔
اسی کے تعلّق سے سورۃ الدخان میں بھی الّلہ فرماتا ہے
یعنی اسی شبِ قدر کی رات میں الّلہ سارے بڑے فیصلے لیتا ہے۔ ان ہی سب وجوہات سے اس رات کی اہمیت عام ہزاروں راتوں سے بھی زیادہ ہے، اس لئے اس رات کی عبادت بہت ضروری ہے۔ خود رسولِ اکرمﷺ اس رات کی تلاش و جستجو میں رہا کرتے تھے، اس رات کی تلاش میں آپﷺ کئ دفعہ پورے رمضان ہی معتکف ہو گئے یعنی اعتکاف میں بیٹھ گئے، کہ یہ با برکت رات چھوٹنے نہ پائے جس میں اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کا وعدہ ہے۔ اسی رات کی تلاش میں ہم سب اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔
اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ ہوتے ہیں “ٹھہرجانے اور خود کو روک لینے کے” ۔ شریعت کی زبان میں اعتکاف : رمضان کے آخری عشرے(دس دنوں) مسجد میں عبادت کے لئے خود کو روکے رکھنااور صرف شرعی عذر (بہت ہی ضروری کاموں) میں ہی مسجد سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ اعتکاف کا مقصد ہی شبِ قدر کو پانا ہوتا ہے۔اعتکاف بھی کو ئ نئ عبادت نہیں تھی، پہلے بھی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کے وقتوں میں بھی اعتکاف ہوا کرتا تھا جس کا تذکرہ الّلہ نے قرآن میں سورۃ البقرۃ کی 125 نمبر آیت میں کیا ہے۔گویا کہ عبادت کا یہ طریقہ پہلے کے بنیوں کی امٗتوں میں بھی رہا ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ کی حدیثوں سے پتہ چلتا ہے شبِ قدر رمضان کے آخری دس راتوں میں سے کوئ طاق(اوڈ) رات ہے۔ یعنی 21 کی، 23 کی، 25 کی، 27 کی یا 29 کی رات۔ لیکن قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کون سی رات ہے، اس لئے ان تمام راتوں میں جاگ کر عبادت کیا جا تا ہے، دعائیں مانگی جاتی ہیں، مغفرت کے لئے الّلہ کے دربار میں گرگرایا جاتاہے، لوگ جب اعتکاف میں بیٹھ جاتے ہیں تو وہ پوری طرح دنیا سے کٹ کر صرف الّلہ کی طرف یکسو ہو جاتے ہیں، معتکف ہوتا ہے اور اس کا الّلہ۔ الّلہ کے رسول کے علاوہ صحابہ و صحابیات بھی اعتکاف میں بیٹھا کرتی تھیں۔ خود امّہات المومنین بیٹھا کرتی تھیں۔ مرد حضرات مساجد میں بیٹھا کرتے ہیں اور عورتیں اپنے گھروں میں ہی گھر کے کسی حصّے کو خاص کر لیتی ہیں۔
اس رمضان مہینے کی اہمیت صرف دو وجہوں سے ہے۔ 1۔ روزے 2 ۔ قران۔
روزے کو اسی مہینے میں رکھنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ اسی ماہ میں قرآن کا نزول ہوا۔ اور روزے کا مقصد ہی وہ صفت (خوبی) پیدا کرنا ہے جس کی وجہ سے انسان قرآن سے ہدایت پا سکے، سیکھ سکے۔
چنانچہ ہم سب کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس رمضان میں خود کو الّلہ کے حکم پر چلنے والا بنائیں،ہر اس بات سے رکنے والا بنائیں جس سے رکنے کو الّلہ نے کہاہے، لیکن یہ معلوم ضرور کرلیں کہ وہ حکم الّلہ ہی کا ہو، یا اس کے رسول اکرمﷺ نے کہا ہو۔اس کے لئے ہمیں اپنا رشتہ الّلہ کی کتاب قرآن سے مضبوط کرنا ہوگا اور جس پر قرآن نازل ہوا یعنی رسول اکرم کی۔۔ سیرتِ پاک کو بھی پڑھنا اورسمجھنا ہوگا۔ جو پڑھا لکھا ہے اس پر تو یہ ذمیداری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سے عربی سیکھے اور قرآن پڑھے ، اگر ابھی ممکن نہیں ہے تو کسی بھی ترجمے اور تفسیر کا سہارا لے کر جس زبان کو بھی وہ سمجھتا ہے اس زبان میں پڑھے۔دنیا کی تقریباََ تمام زبانوں میں قرآن اور سیرتِ رسول موجود ہے۔ الّلہ کے یہا ں کوئ بھی عذر(بہانا، اکسکیوز) نہیں چلے گا اور پکڑ ہو جائیگی۔
الّلہ ہم سب کو اس مبارک مہینے میں قرآن اور روزے سے پورے طور پر مستفید ہونے کی توفیق عطا کرے۔آمین۔ثمّ آمین۔