Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اسلاموفوبیا سے متعلق اپنے بیان پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان قائم ، کہا جیل بھی نہیں بدل سکتا راستہ

by | May 3, 2020

Dr Zafarul Islam Khan

نئی دہلی: اسلاموفوبیا کو لے کر اپنے بیانات کی وجہ سے حکومت سے بغاوت کے الزامات اور مقدمے کا سامنا کر رہے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین مین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے ایک بار پھر بیان جاری کرتے ہوئے واضح طور پرکہا ہے کہ انہوں نے اپنے ٹوئٹ پر نہ تو معافی مانگی ہے اور نہ ہی ڈیلیٹ کیا ہے، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے جاری کئے گئے اپنےبیان میں کہا ہے کہ میڈیا کا ایک طبقہ اس طرح کی خبریں چلا رہا ہےکہ انہوں نے ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا ہے اور معافی مانگ لی ہے۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اپنے بیان میں کہا میں نے ٹویٹ کےلئے معافی نہیں مانگی ہے بلکہ میڈیکل ایمرجنسی کے دوران یعنی ٹویٹ کے وقت کو لےکر معذرت چاہی ہے، میں اپنے ٹویٹ کے ساتھ آج بھی کھڑا ہوں، ٹوئٹ کے وقت کےلئے اس لئے معافی مانگی کیونکہ وہ غیر حساس تھا۔ ایف آئی آر، گرفتاری اور جیل میرا راستہ نہیں بدل سکتے۔ میں نے اپنے ملک، اپنے ملک کےلوگوں، دستور اور سیکولرزم کو بچانےکا راستہ منتخب کیا ہے۔
غور طلب ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے خلاف 28 اپریل کو کئےگئے ٹویٹ کے معاملے کو لےکر دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے 124 اے یعنی حکومت سے بغاوت اور 153 اے یعنی لوگوں کے درمیان رنگ نسل بھید بھاؤ، مذہب یا پھرکسی اور بنیاد پرنفرت پھیلانا جیسے الزامات لگا کر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل کی ایماء کے بعد درج کیا گیا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے 28 اپریل کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور فیس بک اکاؤنٹ پر بیان جاری کیا تھا، جس میں کویت میں ہندوستان مسلمانوں کے خلاف ملک میں ہوئی زیادتی پرکویت کی طرف سے آئے ردعمل کا شکریہ ادا کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اگر ہندوستانی مسلمان ان گلف ممالک میں زیادتیوں کی شکایت کریں تو زلزلہ آجائےگا۔ تاہم انہوں نے 29 اپریل کو بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئےکہا تھا کہ ان کے بیان میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
ظفرالاسلام خان نے کہا ’28 اپریل 2020 کومیں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک ٹوئٹ جاری کیا، جس پر مجھے کوئی اضافہ نہیں کرنا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو اس ٹوئٹ میں کسی اضافےکا حق نہیں ہے۔ یہ ٹوئٹ اس تناظر میں تھا کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جارہا ہے، چاہے وہ لنچنگ ہو یا فسادات یا میڈیا کے حملے یا مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے بارے میں سیاسی اور ادارہ جاتی رویے۔ میں نےکبھی بھی اپنے ملک کےخلاف کسی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے شکایت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں ایک محب وطن ہوں اور میں نے ہمیشہ بیرون ملکوں میں اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ ملک کے اندر میں نے ہمیشہ مسائل کے بارے میں آواز اٹھائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کی طرح مسائل موجود ہیں لیکن ہم اور ہمارا سیاسی ، آئینی اور عدالتی نظام ان سے نمٹنے کے قابل ہے۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اس سےقبل اپنے ٹوئٹ پر معذرت کرتے ہوئےلکھا تھا، میں مزید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ٹویٹ کی محدودیت بھی، کیونکہ وہ بہت کم الفاظ میں لکھی جاتی ہے، اس بات کی ذمہ دارتھی کہ پوری داستان سادہ زبان میں نہیں لکھی جا سکی۔ اس ٹویٹ کا بتنگڑ بنادیا گیا اوراس میں ایسی خود ساختہ باتیں شامل کردی گئیں، جن کےکہنےکا نہ میرا ارادہ تھا اور نہ ہی کبھی مقصد تھا۔ میڈیا کے ایک حصے نے اس کو بدل دیا، اس کے مشمولات کو مسخ کیا اور اشتعال انگیز خیالات کے ساتھ اس کو نشرکیا جن کو نہ میں نےکہا اور نہ ہی جن کا میرا کبھی ارادہ تھا یا ہے۔ میں نے میڈیا کے ایک حصےکا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے، جس نے میرے ٹوئٹ کو مسخ کیا اور میری طرف ان چیزوں کو منسوب کیا، جو میں نےکبھی نہیں کہا تھا۔ میری باتوں کو مسخ کرنے والے چینل کےخلاف مناسب قانونی نوٹس بھیجی جا چکی ہے۔ اگر ضرورت ہو گی تو مزید قانونی اقدامات اٹھائےجائیں گے۔ وہیں دوسری طرف اس پورے معاملے میں میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے خلاف مقدمات درج کیا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق مقدمہ دہلی کےلیفٹیننٹ گورنر کی ایماء پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...