Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کورونا وائرس: مودی حکومت اب اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرا عام لوگوں کے سر پھوڑے گی!

by | May 8, 2020

Modi and Shah Cartoon

اوما کانت لکھیڑا
کورونا وائرس انفیکشن سے مقابلے کو لے کر مرکزی حکومت کی بڑبولی تیاریوں کی ایک ایک کر کے قلعی کھلی تو اب ساری خامیوں کے لیے عوام کو ہی قصوروار بنانے کی تیاریوں پر سارا فوکس ہے۔ کئی بڑے شہروں، ریاستوں میں مہاجر مزدوروں کو ان کے حال پر چھوڑنے کا معاملہ ہو یا زندہ رہنے کی ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی گارنٹی کا مسئلہ، حکومتی ناکامیاں ظاہر ہو گئی ہیں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے ایک بڑی اور بے سہارا آبادی کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچا گیا۔
کورونا سے اب تک حقیقی معنوں میں کتنے لوگ مارے گئے، ابھی اس کے دیے گئے اعداد و شمار پر ماہرین کو شبہ ہے۔ اس درمیان وزارت صحت کے ذریعہ جاری بیان میں انفیکشن والے مریضوں اور مہلوکین کی تعداد میں اچانک ہوئے کئی گنا اضافہ کے لیے عام لوگوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں شراب کے سرکاری ٹھیکوں کی دکانوں کو کھولنے سے جس طرح ایک ایک دکان پر سینکڑوں لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہونے کا راستہ کھل گیا اور بھگدڑ کو فروغ دیا گیا، اس سے سبھی دعووں کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔
پہلی بار مودی حکومت کو احساس ہوا ہے کہ لاک ڈاؤن کو کورونا کا علاج بتانے کی تکڑم محض 40 دن میں ہی ناکام ہو گئی۔ لاک ڈاؤن کے ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد اب حکومت خود ہی ایسے سوالوں سے گھری رہی ہے جن کا اطمینان بخش جواب اس کے پاس نہیں ہے۔ پی ایم مودی کے کئی حامی بھی اب کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اتنے بڑے مسئلہ اور خطرناک وبا کا علاج صرف لاک ڈاؤن کو ماننا ہی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔
جب وبا کا انفیکشن کچھ چنندہ جگہوں تک ہی تھا تب مرکزی حکومت کے وزراء، وزارت صحت کو یہی زہر اور غلط فہمی پھیلانے کا کام سونپا گیا تھا کہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے ملک کورونا کی زد میں آیا۔ یہ عمل دو ہفتہ سے زیادہ چلایا گیا۔ وزارت صحت کی جانب سے روزانہ پریس بریفنگ میں جو اعداد و شمار جاری کیے جاتے رہے کہ کس ریاست میں کہاں جماعتی گئے اور کورونا کا اثر بڑھا، اس پر عمل بی جے پی کی ریاستی حکومت نے بھی کیا۔
انفیکشن کے معاملوں اور صحت کے شعبہ میں دہائیوں سے کام کرنے والے ماہر چین سمیت دنیا کے باقی ممالک کے اس وبا سے لڑنے کے تجربات کی بنیاد پر عام لوگوں اور ممکنہ انفیکشن والے مریضوں کے ریپڈ ٹیسٹ نہ ہونے پر سوال کھڑے کر رہے تھے۔ یہ ایشو اپوزیشن پارٹیاں بھی اٹھا رہی ہیں، لیکن ایسے سخت سوالوں کے جواب حکومت کے پاس نہیں تھے کہ اس کی تیاریاں کمزور پچ پر تھیں۔
کئی ماہرین ہی نہیں بلکہ محکمہ صحت میں کئی لوگ ہیں جو اعتراف کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں بنیادی صحت کا کوئی ڈھانچہ نہیں ہونے کی وجہ سے شروعات میں ہی بڑی تعداد م یں مریضوں کو لوٹا دیا گیا کہ ان میں کورونا کی کوئی علامت نہیں ہے۔ ملک میں دوسری طرف سرکاری نظام کا سب سے کمزور حصہ ملک میں وینٹی لیٹرس کی زبردست کمی کی تھی۔ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ پی ایم مودی کی پہلی ویڈیو کانفرنسنگ میں جب سبھی ریاستوں سے وینٹی لیٹرس کی طلب زور و شور سے اٹھی تو پہلی بار ثابت ہوا کہ ہم اس طرح کی وبا سے نمٹنے میں کہیں بھی نہیں ٹک رہے۔
کورونا وبا کے بہانے ہندوستان کی معیشت کی انہی ناکامیوں کو لے کر کئی ماہرین نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ جو دو ماہ میں ہوا ہے وہ تو محض ایک تنبیہ کی آہٹ بھر ہے۔ آگے سنبھلے نہیں تو مزید خطرناک حالات ہوں گے۔ گجرات ودیاپیٹھ کی چانسلر ایلا آر بھٹ کہتی ہیں کہ “ایسے حالات سے نمٹنے میں ہماری خستہ حال معیشت اور صحت خدمات کے کھوکھلے پن کے ساتھ یہ کمزوری بھی ظاہر ہوئی ہے کہ اس آڑ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی گئی، جس کا خمیازہ سماج کے کمزور لوگوں کو بھگتنا پڑا۔”
کرناٹک، گجرات، مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں میں ڈیڑھ ماہ سے بغیر کام اور روزگار کے خالی بیٹھے مہاجر مزدوروں کا صبر ٹوٹ چکا ہے۔ ڈیڑھ ماہ تک زیادہ تر لوگوں کی خیریت ہی نہیں لی گئی۔ ہزاروں مزدور جب پیدل ہی سینکڑوں کلو میٹر کا سفر کر کے اپنے گھروں کو جانے کے لیے مجبور ہوئے تو بھی مرکز اور ریاستی حکومتوں کا من نہیں پسیجا۔ کرناٹک حکومت کو جب لگا کہ ان کے یہاں سے عمارتوں کی تعمیر میں لگے مزدوروں کی ہزاروں کی تعداد میں ہجرت سے بلڈر لابی کو دقت ہوگی، تو کرناٹک سے مغربی بنگال جانے والی خصوصی ٹرین گاڑیوں کو مرکزی حکومت پر دباؤ بنا کر آخری لمحات میں رد کروا دیا گیا۔
اتر پردیش کانگریس کے سینئر لیڈر اور کئی بار رکن اسمبلی رہ چکے انوگرہ نارائن سنگھ کہتے ہیں کہ “مرکز کی مودی حکومت کے دعووں کے باوجود یو پی کے کئی شہروں میں پہنچنے والے مہاجر مزدوروں سے ریلوے کرایہ وصول کیا گیا۔ جو حکومت بھوکے پیاسے مزدوروں کو اپنے گھر نہیں پہنچا سکتی، اس حکومت کو مزدور مفادات کی دُہائی دینے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ہے۔” (قومی آواز کے شکریہ کے ساتھ)

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...