Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کرناٹک: بلدیاتی انتخاب میں کمل کو پنجے نے اکھاڑ پھینکا

by | May 9, 2020

BJP Lose In Karnataka Local Body Election

ڈاکٹر سلیم خان
ذرائع ابلاغ میں فی الحال ہر طرف کمل کی باغبانی ہورہی ہے۔ حب علی میں کام کرنے والوں کا یہ حق ہے لیکن کچھ لوگ مایوسی کا شکار ہوکر یا ملت کی غفلت کو دور کرنے کے نیک جذبہ سے بھی ایک کمل کے پھول کو دس گننے میں جٹے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں جبکہ مختلف انداز میں حزب اختلاف کا تعزیت نامہ رقم کیا جارہا ہے کرناٹک سے آنے والے بلدیاتی انتخاب کے نتائج حیرت کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوئے ۔ انتخابی نتائج چونکہ عوام کی رائے کو متاثر کرتے ہیں اس لیے رائے دہندگی کے خاتمے تک اندازوں یعنی ایکزٹ پول تک پر پابندی ہوتی ہے لیکن یہ انتخاب تو قومی نتائج کا اعلان ہونے کے دو دن بعد یعنی ۲۹ مئی کو ہوئے اس کے باوجود تعجب ہے کہ رائے دہندگان پر ان کا اثر دکھائی نہیں دیا۔ مذکورہ الیکشن کانگریس اور جنتا دل (ایس) نے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بلکہ خلاف لڑا ۔ اس کے چلتے بی جے پی کی زبردست کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ سچ تو یہ ہے کہ سارے سیاسی پنڈت چونکہ اس کا جواز فراہم کرنے میں ناکام ہیں اس لیے انہیں نظر انداز کیا جارہاہے ۔
کرناٹک میں ایوان زیریں کی جملہ ۲۸ نشستیں ہیں ۔ ان میں سے ۲۵ پر بی جے پی نے کامیابی درج کرائی اور کانگریس، جے ڈی ایس و آزاد امیدوار کو ایک ایک نشست پر اکتفاء کرنا پڑا۔ ووٹ کی تقسیم دیکھیں تو بی جے پی کو ۵۱ فیصد سے زیادہ اور کانگریس کو ۳۲ فیصد نیز جے ڈی ایس کو ۱۰ فیصد ووٹ ملے ۔ اس طرح کانگریس و جے ڈی ایس سے ۹ فیصد زیادہ ووٹ پانے والی بی جے پی نے سب کا سپڑا صاف کردیا ۔ ان غیر معمولی نتائج کے بعد ۶۱ شہری بلدیاتی انتخابات ہوئے ۔ بی جے پی چونکہ شہروں کی جماعت سمجھی جاتی ہے اس لیے ان میں اس کی کارکردگی میں بہتر ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قومی سطح پر ساتھ میں لڑنے والی جے ڈی ایس کی مخالفت کا نقصان ہونا چاہیے تھا ۔ ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ جملہ ۱۳۰۰ نشستوں میں سے کانگریس کو ۵۰۹ مقامات پر کامیابی ملی اور بی جے پی کو ۳۶۶ پر سمٹ جانا پڑا ۔ جنتا دل ایس نے کانگریس کی مدد کے بغیر اپنے بل بوتے پر ۱۷۴ مقامات پر پرچم لہرا دیا۔ یہ پہلو بھی قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ سال جب ۱۰۵ شہروں میں بلدیاتی انتخاب ہوئے تھے تو اس وقت کانگریس کے حصے میں ۹۸۲ اور بی جے پی کو ۹۲۹ نشستوں پر کامیابی ملی تھی یعنی فرق بہت معمولی تھا جبکہ جنتا دل ایس نے ۳۷۵مقامات پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا تھا ۔
قومی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد پہلے تو یہ اٹکل لگائی گئی کہ اب جنتا دل ایس اپنی وفاداری بدل کر بی جے پی کے خیمہ میں چلی جائے گی۔اس میں کامیابی نہیں ملی تو کانگریس میں پھوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش ہوئی لیکن جب کانگریس لیجسلیچر پارٹی کے اجلاس میں دو کے علاوہ سارے ارکان اسمبلی حاضر ہوگئے تو یدورپاّ نے اعلان کیا کہ اب ہم تازہ انتخابات کروا کر حکومت بنائیں گے۔ بلدیاتی انتخاب کے نتائج دیکھنے کے بعد یدورپاّ کو پھر سے انتخاب کرانے کی اپنی تجویز پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ ایک بات یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اقتدار کی خاطر بی جے پی والے اس قدر اتاولے کیوں ہوجاتے ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ قومی سطح پر ان کی پارٹی جیت گئی ۔ حکومت بھی بناڈالی اور سارے اہم وزارتوں کو اپنے قبضے میں بھی لے لیا لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے دیگر جماعتوں کے ارکان کو خرید کر مخالفین کی ریاستی سرکاریں گرائی جائیں؟بنگال سے لے کر مدھیہ پردیش ، راجستھان اور کرناٹک تک یہی کھیل جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کے بغیر بی جے پی کی حالت ’جل بن مچھلی ‘ جیسی ہوجاتی ہے۔
ان انتخابی نتائج کا پارٹی سیاست سے اٹھ کر موجودہ سیاسی نظام کی سطح پر گہرائی سے جائزہ لیاجانا چاہیے۔ جمہوریت صرف عوام کی رائے سے حکومت سازی تک محدود نظام سیاست نہیں ہے۔ اس میں عوام کی حکومت ،عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے قائم کی جاتی ہے۔ یہ ایک نہایت دلفریب نعرہ ہے کہ لوگ اسے سنتے ہی اس پر لٹوّ ہوجاتے ہیں۔ملوکیت میں سارے اختیارات ایک فرد کے ہاتھوں میں ہوتے تھے اور وہ اپنی من مانی کرتا تھا ۔ بدقسمتی سے جمہوریت میں بھی یہ ہوتا ہے کہ کوئی مودی یا ٹرمپ سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے کر بلا شرکت غیرے اپنی مرضی چلانے لگتا ہے لیکن ملوکیت میں حکمراں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا اختیار عوام کو حاصل نہیں ہوتا ۔ جمہوریت میں عوام کو وقفہ وقفہ سے اس کا موقع ملتا ہے اور وہ حکمراں کو ہٹا کر اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں لیکن پھر نئے حکمراں کے مظالم سہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ایک خاص وقفہ تک ان کے پاس اپنے آپ کو کوسنے اور انتظار کرنے کے سوا چارۂ کار نہیں ہوتا ہے۔ افسوس کہ اس کھیل میں شاذو ناد ہی اچھے لوگ اقتدار میں آتےہیں اکثر بدمعاشوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ملوکیت میں بھی چند ایک اچھے بادشاہ گزرے ہیں ۔ یہ تحقیق کا موضوع ہے کہ کس نظام میں اچھے بروں کا تناسب کیا رہا ہے؟
جمہوریت میں عوام کو مقتدر اعلیٰ اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ایک فرد سے تو بھول چوک ہوسکتی ہے مگر جمہور غلطی نہیں کرسکتے ۔ یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ سارے لوگ ہر معاملے میں بلکہ حکمراں کو منتخب کرنے کی بابت بھی متفق نہیں ہوسکتے ۔ امیت شاہ نے ۲۰۲۴؁ میں بی جے پی کے لیے ۳۳۳ کا ہدف رکھا ہے یعنی ۲۲۰ ارکان غیر بی جے پی کے ہوں گے اور تقریباً ۲۰۰ یوپی اے کے مخالفین ہوں گے ۔ ایسے میں اکثریت پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اکثریت سے غلطی نہیں کرسکتی ۔ کرناٹک کے نتائج بتاتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں نے ایک ہی وقت میں دو متضاد فیصلے سنائے اس لیے دونوں تودرست نہیں ہوسکتے ۔ یہ دلیل بھی صحیح نہیں ہے کہ جس جماعت کےلوگ مقامی سطح پر نااہل ہیں وہ قومی مسائل کو ہر کرلیں گے یا چونکہ مرکزمیں نریندرمودی ہیں اس لیے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ایسے میں انتخاب کے بعد جمہوریت اور ملوکیت کی شخصیت پرستی میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ عوام کنفیوز ہیں۔ وہ کبھی کچھ تو کبھی کچھ فیصلے سناتے ہیں نیز میڈیا کی مدد سے انہیں بہ آسانی ورغلایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں الہامی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر حرام و حلال یا حق و باطل طے کرنے کی ذمہ داری عوام کو یا اس کے نمائندوں کو سونپ دیناغیر دانشمندی ہے؟ یہ سوال افراد کی نہیں بلکہ فکر کی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے اور اقتدار اعلیٰ کے مقام بلند سے جمہور کو ہٹا کر رب کائنات کو فائز کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...