سنت یوسفی کی ادائیگی کے بعد مولانا طاہر مدنی کی جیل سے رہائی،عقیدت مندوں میں جوش و خروش

اعظم گڑھ :(معیشت نیوز)ہندوستان کامشہور تعلیمی ادارہ جامعۃ الفلاح کے سابق ناظم ،راشٹریہ علماء کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا محمدطاہر مدنی دوشنبہ کی شام سنت یوسفی کی ادائیگی کے بعد اعظم گڑھ جیل سے رہا ہوگئے ۔ قائد انقلاب کا استقبال کرنےاور انہیں گھر تک بعافیت پہنچانے کے لئے جہاں مولانا کے صاحبزادے عبید اللہ طاہراور شکیل احمد پہنچے وہیں ایڈوکیٹ طلحہ رشادی سمیت درجنوںعقیدت مندوں نے مولانا کا استقبال کیااور ان کے حق میں کلمات خیر ادا کئے۔مذکورہ خبر سوشل میڈیا پر جیسے ہی وائرل ہوئی سیکڑوں چاہنے والے خیر سگالی پیغامات ارسال کرنے لگے۔
واضح رہے کہ مولانا محمدطاہر مدنی کو ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز سماعت کے دوران ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مولانا کے ساتھ گرفتار دیگر 18 لوگوں کی ضمانت کی عرضی پرشنوائی جاری ہے۔ چونکہ 5 فروری کو 4 بجے صبح بلریا گنج(اعظم گڈھ) کے مولانا محمد علی جوہر پارک پر سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہورہے احتجاجی مظاہرے پر پولس نے تشدد کیا تھا جس میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے تھے، جس کی مخالفت میں مولانا نے اپنی عوام کے حق میں آواز بلند کیا تھااور اسی مظاہرے کے سلسلے میں قائد انقلاب طاہر مدنی حفظہ اللہ سمیت 18 لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھےبھیج دیا گیا تھا۔

اتر پردیش کی حکومت کا تعصب ہی ہے کہ 5 فروری کی گرفتاری کے بعد سے کئی دفعہ ضمانت کی شنوائی کی تاریخ پڑی لیکن مختلف بہانوں کی وجہ سے تاریخ موخر ہوتی رہی بعد میں ضلع جج نے تمام لوگوں کی ضمانت عرضی خارج کردیا جس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی۔جس کاابتدائی فیصلہ آج آیا ہے ۔
آل انڈیا حلال بورڈ کے جنرل سکریٹری دانش ریاض نے مولانا کی رہائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مولانا کو ایسے وقت میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا جب اتر پردیش میں کفر و اسلام کی کشمکش اپنے عروج پر ہے۔نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ عام انسانوں پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔مولانا محترم نے ہمیشہ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘دانش ریاض نے کہا کہ ’’ایک ایسے وقت میں جبکہ لوگ خوف و دہشت میں ظلم کے آگے سربسجود ہیں مولانا نے سنت یوسفی ادا کرکے ثابت کردیا ہے کہ ظالم کے آگے آج بھی کچھ لوگ ہیں جو سینہ سپر ہوسکتے ہیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’مولانا نے خندہ پیشانی کے ساتھ قید کی مشقتوں کو برداشت کیا اور جب رہا ہوئے اس وقت بھی ان کے چہرے پر بشاشت تھی ۔یہ خوشی ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی تمام جد و جہد کو جاری رکھتے ہیں۔‘‘