Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سُکَر

by | May 30, 2020

Bed For Corona Patient in Private Hospital

اکرم شروانی

تسنیم اُن سینکڑوںعورتوں میں سے ایک تھی جو اپنے نکھٹّو شوہروں اور بال بچوں سمیت روٹی روزی کی تلاش میں صوبہ بہار کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرکے اتر پردیش کے خوش حال شہروں میں آبستی ہیں۔ یہاں آکر یہ زیادہ تر خانگی کام تلاش کرتی ہیں جن میں ’’جھاڑو پونچھا‘‘ سرِ فہرست ہے۔ شہری آبادی میں کھاتے پیتے لوگوں کے مکانات کو ان کی زبان میں ’’کوٹھیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ چونکہ ایک کوٹھی کی آمدنی سے ان کی گذر اوقات نہیں ہوتی لہٰذا یہ بیک وقت کئی کئی کوٹھیوں میں اپنی نوکری پکّی کرلیتی ہیں اور صبح سے شام تک لَتَڑ پَتَڑ ان کوٹھیوں میں بھاگی پھرتی ہیں۔ ان کے نکمّے شوہر اپنی بیویوں کی آمدنی میں حصہ بٹانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر یہ اپنے مردوں کے آگے اپنی بند مٹھی نہ کھولیں تو پھر ان کے ہاتھوں بہت پِٹتی ہیں۔ پِٹ پِٹا کر اگلے دن پھر یہ روتی دھوتی کام پر جاتی ہیں اور شام کو ا پنی جھُگّی پر آکر پھر پِٹتی ہیں تا وقتیکہ کھل جا سم سم کی طرح ان کی بندمٹھی شوہر کے آگے کھل نہ جائے۔ یہ ان کا تقریباً روز مرّہ کا معمول ہے۔ایک اور قدرِ مشترک جو ان کے بیشتر خاندانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، وہ ان کا کثیر ا لعیال ہونا ہے۔ ایک طرف مابین زن و شوہر گالی گلوج ا ور مار پیٹ کا دور چلتا رہتا ہے اور دوسری طرف باقاعدگی کے ساتھ ہر سال ان کی ’’شوخیِ تحریر‘‘ کے نوزائیدہ ’’نقشِ فریادی‘‘ جھگیوں کے اندر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھائے رہتے ہیں۔
تودیگربہاری خاندانوں کی طرح تسنیم کے خاندان کی جیسی گذری تھی ویسی گذر رہی تھی اور ٹھیک ہی گذر رہی تھی کہ اچانک ہندی چینی بھائی بھائی کے بیچ پڑی ہوئی درار سے ایک مہلک وبائی مرض ’’کرونا‘‘ بھارت میں داخل ہوگیا۔ اپنی جائے پیدائش سے توکرونا’’سب کا ساتھ، سب کا وِناش‘‘ عہد کرکے نکلا تھا لیکن بھارت میں داخل ہوتے ہی اسے گودی میڈیا کی ہوا لگ گئی اور اس کا کردار منافقانہ Selectiveہوگیا۔ Selectiveاس لیے کہ پھیپھڑوں کے ساتھ بدسلوکی کے لحاظ سے اس کا طرزِ عمل یکساں نہ تھا۔غریب جنتا کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہو کر یہ ان کو ستاتا بھی تھا، قیدِ تنہائی تک پہنچا کر ان کو رُلاتا بھی تھا اور اکثر حکم حاکم کے تحت ان کو مرگ مفاجات تک بھی پہنچا دیتا تھا لیکن یہ ان جابر حکمرانوں کے ساتھ قطعی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا تھا جن کی سرپرستی میں ایسے منصوبہ بندفسادات کرائے جاتے ہیں جن میں سرکار کی نظر میں کھٹکنے والے فرقہ ہی کا زیادہ سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہو۔ ان فسادات میں بے قصور لوگوں کی دوکانوں اور مکانوں کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے، گھروں کو لوٹ کر تہس نہس کردیا جاتا ہے، عبادت گاہوں اور مذہبی صحیفوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور پھر فسادی غنڈوں کو Police escortکے ساتھ باعزت ان کے گھروں تک پہنچادیا جاتا ہے۔ Selectiveاس لیے بھی کہ یہ گودی میڈیا کے ان صحافیوں کوبھی بخش دیتا ہے جن کے Vulture Journalismنے ملک کو خانہ جنگی کے دہانہ پر پہنچا دیا ہے، جو ہندو مسلمانوں کے درمیان نفرت کا زہر گھول کر انہیں آپس میں لڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اب جو یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں کہ یہ خطرناک مرض کہیں چین وین سے نہیں آیا بلکہ بھارت ہی کے ایک ’’آتنکی مرکز‘‘ سے نمودار ہوا ہے اور اسی وجہ سے یہ دیس بدیس میں آتنک پھیلا رہا ہے۔
جب کرونا نے بھارت کے دروازے پر دستک دی تو آدرینہ چوکیدار نے تالی بجا کر اور تھالی بجا کر اسے ہُشت ہُشت کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کرونا ہی کیا جو ’’نا‘‘، ’’نا‘‘ کرنے سے مان جائے۔ اس نے یہاں اپنے پیر پسار ہی لیے۔ پھر چند اچھے قدم بری طرح اٹھانے کی وجہ سے ایسی افرا تفری مچی کہ الحفیظ اور الامان۔ بغیر کسی منصوبہ بندی کے راتوں رات Lock downنافذ کرکے ایک سو تیس کروڑ ہندوستانیوں کو Statueبنادیا گیا اور رواں دواں زندگی جیسے تھم کر رہ گئی۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے۔ جو جہاں ہے وہیں رہے اور جس حالت میں ہے اسی حالت میں رہے۔ ساتھ ہی سماجی فاصلہ Social Distancingقائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ ماں اپنے لخت جگر کو ایک میٹر کے فاصلہ سے بذریعہ ٹیوب دودھ پلائے۔ عاشق ہوائی بوسوں پر اکتفا کرتے ہوئے ایک میٹر کے فاصلہ سے محبوبہ کو پروپوز کرے۔ بازار بند، کاروبار بند، بسیں بند، ریلیں بند، مزدور کی مزدوری بند، چار پیسہ کی کمائی نہ ہونے کی وجہ سے گھر کا چولھا بند۔ ’’ارے اَنّ داتا! بغیر اَنّ کے تو نہ داتا گیری ہوسکتی ہے اور نہ دادا گیری۔ ہم کمائیںگے نہیں تو کھائیںگے کہاں سے؟‘‘
’’تسلّی رکھو۔ ہم اپنے جُملوں سے تمہارا پیٹ بھر دیںگے۔‘‘’’ارے مائی باپ! اس طرح سے تو ہمارے بال بچے فاقہ سے مر جائیںگے‘‘۔ ’’نہیں، ان کے جینے کی آس رکھو۔ ہم کبھی نہ کبھی اچھے دن واپس لوٹادیںگے‘‘۔ ’’ارے سرکار! کم از کم ہمیں اپنے گھروں تک جانے کے لیے کسی سواری ہی کا بندوبست کردیجیے‘‘۔ ’’سواری میں بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے اور بھیڑ بھاڑ کروناجی کو بہت پسند ہے۔ ایسا کرو سر پر گٹھری اور بغل میں بچے دبا کر پیدل ہی نکل پڑو۔ اگر زندہ بچ گئے تو اگلے الیکشن پر پھر تم سے ملاقات ہوگی‘‘۔
پولیس کو سخت احکامات تھے کہ کسی کو گھر سے باہر مت نکلنے دو۔ اگر گالی گلوچ سے کام نہ چلے تو وہ ڈنڈا استعمال کرو جس کی ریہرسل تم جامعہ اور علی گڑھ کے طلبہ پر کرچکے ہو۔ ضرورت پڑنے پر تم دو روٹی کی تلاش میں Lock Downتوڑنے والے کسی ’پرائے‘ کی جان بھی لے سکتے ہو۔ اس کا الزام تمہارے سر پر نہیں آنے دیا جائے گا۔ چونکہ سرکار بھی ہماری ہے، قانون بھی ہمارا اور منصف و گواہ بھی ہمارے۔
یہی وہ قیامت کی گھڑی تھی جب لاک ڈائون کی سختی کی بدولت تسنیم کی کوٹھیاں چھوٹیں اور جب یہ سختی دیمک بن کر گھر کی جمع پونجی کو چاٹ گئی تو مسلسل فاقوں سے جسم و جان کا رابطہ ٹوٹنے کا اندیشہ پیدا ہونے لگا۔ تسنیم کا لاغر شوہر، جواُن دنوں بخار میں مبتلا تھا، نکٹھّو ضرور تھا لیکن اپنی اولاد کے تئیں سینہ میں ایک ہمدرد دل رکھتا تھا۔ جب گھرمیں تیسرا فاقہ گذرا تو اس سے بھوکے بچوں کارونا بلکنا نہیں دیکھا گیا ا ور وہ یہ سوچ کر جھگی سے باہر نکلا کہ اگر کوئی چھوٹا موٹا کام نہ ملا تو وہ بھیک مانگ کر ہی بچوں کے لیے کچھ کھانے کو لے آئے گا۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلا ہوگا کہ پیچھے سے مغلظات میں ڈوبی ہوئی ایک کرخت آواز سنائی دی، ’’او مادر…… او ہرام (حرام) کی اولاد ،لاک ڈائون توڑ کر کہاں جاتا ہے؟ اور ساتھ ہی شائیں سے ایک زوردار ڈنڈا اس کی کمر پر پڑا جس کی ضرب سے وہ تلملا کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ پولیس والے کے نظروں سے ا وجھل ہوجانے کے بعد تسنیم اس کو جیسے تیسے گھسیٹ کر جھگی تک لے آئی اور کونے میں پڑے ہوئے ایک بوسیدہ تخت پر لٹا دیا۔ ایک تو تیسرا فاقہ،جلتا ہوا جسم اور اوپر سے ریڑھ کی ہڈّی پر جان لیوا ضرب۔ رات کے پچھلے پہر اس نے دم توڑ دیا۔اگلی صبح تسنیم جھگی کے دروازے پر بیٹھی دہاڑیں مار مار کر رورہی تھی ا ور اِکّا دُکّا راہگیروں کے آگے شوہر کے کفن دفن کے لیے ہاتھ پھیلا رہی تھی کہ گلی کے نکّڑ پر پھر چند پولیس والے نمودار ہوئے جنہیں دیکھ کر راہگیر اِدھر اُدھر ہوگئے۔ پولیس کے دریافت کرنے پر تسنیم نے ڈر کے مارے پولیس کی مار کی وجہ چھپالی ا ور کہا کہ فاقہ کشی کی وجہ سے رات اس کے شوہر کی موت ہوگئی ہے۔ یہ سن کر اور پولیس والے تو اسے اندر جانے کی تاکید کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے لیکن پولیس کا ایک گبرو جوان یہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھا کہ ’’سالی -مالک کا ’سُکَر‘تو ادا کرتی نہیں کہ اس کا گھر والا کرونا سے نہیں مرا بلکہ پھاکہ( فاقہ) سے مرا ہے اور بے بات چچیائے جارہی ہے۔
* مکان نمبر۶۷۔ ’’الھِلال‘‘۔ اسٹریٹ نمبر۳،بالمقابل بلیسنگ( BLESSING )شادی ہائوس ، دھورّا، علی گڑھ، یو پی 202002، موبائل : 9456404981

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...