Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

جسٹس ہاسبٹ سریش کے انتقال سے ملک نے ایک عظیم انسان دوست اور مجاہد عدل و انصاف کو کھودیا: یوسف حاتم مچھالہ

by | Jun 13, 2020

Justice Hosbet Suresh

ممبئی: بمبئی ہائی کورٹ کے سابق جج ہسبٹ سریش کا گزشتہ شب انتقال ہوگیا۔ وہ ۹۱سال کے تھے۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں ہونے والے دونوں دورکے فرقہ وارانہ فسادات کی ایک آزاد پینل نے بھی تحقیقات کی جس کے سربراہ تھے جبکہ سر ی کرشنا کمیشن کی کارروائی میں بھی پیش پیش رہے،ہمیشہ مظلوموں کے لیے آواز اٹھانے میں پیچھے نہیں رہے۔
جسٹس ہسبٹ سریش کرناٹک میں پیدا ہوئے ، اعلیٰ تعلیم اور وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ابتدا میں بمبئی سٹی سول کورٹ میں پریکٹس کی یہاں تک کہ وہ گورنمنٹ لاء کالج میں پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے بالآخرانہوں نے سول عدالت سے بحیثیت جج استعفیٰ دے دیا اور بمبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنا شروع کردی۔ وہ ۱۹۹۱میں ریٹائر ہوئے تھے۔لیکن انسانی حقوق کے لیے کمربستہ رہے۔جسٹس سریش کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہا جاتا تھا۔
ممبئی کے خونریز فسادات کے انکوئری کمیشن کی سست رفتاری کے مدنظر ایک آزاد پینل کے تحت تحقیقات کا حصہ رہے ،جس نے حکومت،انتظامیہ،پولیس اور دائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں اور تنظمیوں کوفسادات کے لیے موردالزام ٹھرایا تھا،بعد میں جسٹس سری کرشنا نے بھی آزادنہ تحقیقات کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیااور اسے شامل کیاگیا۔
جسٹس سریش نے ۲۰۰۲میں گجرات فسادات ، خوراک کا حق ، اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق مسائل جج کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد اٹھائے اور ان مقدمات کی پیروی کی تھی۔ سریش گجرات فسادات کے حقائق تلاش کرنے والی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پنڈیا نے ٹیم کو ریکارڈ پر آگاہ کیا تھا کہ پولیس سے کہا گیا تھا کہ وہ فسادیوں کونہ روکیں۔ پنڈیا۲۰۰۳ میں قتل کر دیئے گئے۔ جسٹس سریش ہندوستان میں عدالتی نظام کے ایک بیباک نقاد بھی تھے۔ انہوں نے ۲۰۱۵میں ایک پروگرام میں کہا تھا کہ ’۲۰۰۲ کی نسل کشی کے معاملے میں کوئی انصاف نہیں ملا ہے‘۔ انہوں نے سکھ برادری کے خلاف’۱۹۸۴ کی نسل کشی‘کے بارے میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ اس ملک میں انصاف عام طور پر فرقہ وارانہ فسادات کے معاملات میں تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے۔
جسٹس سریش نے یہ بھی کہا تھا کہ تامل ناڈو کی سابق وزیر اعلی جے جے للیتا کو غیر متناسب اثاثوں کے معاملے میں غلط طور پر بری کردیا گیا تھا۔ وکلاء کلیکٹو نے ان کی موت پر سوگ کا اظہار کیا اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے،تعزیتی پیغام میں گروپ نے کہا ، “وہ ایک عزیز دوست ، کامریڈ اور رہنما تھے۔ انہوں نے کہا کہ انھیں ہمیشہ ایک مضبوط وکیل اور انسانی حقوق کے محافظ اور ہم سب کے لئے رہنما کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ہم انہیں بہت یاد کریں گے۔
یوسف حاتم مچھالہ آل انڈیا صدر اے پی سی آر نے کہا ،ان کی انصاف پسندی اور انسانیت دوستی قابل مثال تھی۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بے مثال کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ ملک میں کہیں بھی انسانی حقوق کا اتلاف ہو وہ فوراً ان کے تحفظ کے لیے کمر بستہ ہو جاتے تھے۔ انہوں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی اور مظالم کی براہ راست تحقیق کے لیے وفود کے ساتھ کشمیر ، گجرات ، اڑیسہ (کالا ہانڈی) وغیرہ کے دورے بھی کیے۔ممبئی فسادات ۱۹۹۲/۹۳ی نجی جانچ انہوں نے جسٹس داؤد کے ساتھ مل کر کی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا تھا۔
صدر اے پی سی آر نے مزید کہا انہوں نے بے شمار مواقع پر مظلوم اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں، دلتوں، آدی باسیوں اور کمزور طبقات کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ حکومتوں کی طرف سے بنائے گئے کالے قوانین مثلاًٹاڈا م پوٹا اور یو اے پی اے کے خلاف وہ ہمیشہ کمر بستہ رہے اور ان قوانین کو خلاف دستور ثابت کرنے اور واپس لینے کی تحریکات میں پیش پیش رہے۔جسٹس سریش کا اے پی سی آرکے ساتھ بہت ربط تھا۔ وہ اے پی سی آرکے پروگراموں میں شرکت اور رہنمائی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔تیس سال تک آنجہانی اور میں ایک ہی دفتر میں بیٹھے۔ صرف کیبن الگ الگ تھے۔جسٹس ہاسبٹ سریش کے انتقال سے ملک نے ایک عظیم انسان دوست اور مجاہد عدل و انصاف کو، اے پی سی آرنے ایک عطیم ہمنوا اور ہم خیال کو اور میں نے ایک مخلص دوست کو کھو دیا۔
خاتون صحافی اور ممبئی فسادات اور برسوں سری کرشناکمیشن کور کرنے والی ریحانہ بستی والا نے ان کی موت پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جسٹس سریش انسانی حقوق کے لیے ایک جذبہ رکھتے تھے ، اپنے اصول وزبان قائم رہنے والے ایک بے خوف اور سیکولر انسان تھے ،جو حق بات کہنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور ارباب اقتدار کے سامنے سینہ سپررہے۔معاشرے میں ان کی کمی محسوس کی جائے گی۔
صحافی اور ممبئی کانگریس کے ترجمان نظام الدین راعین نے کہاکہ جسٹس سریش کا یوں چلے جانے سےبہت دکھ ہوا ہے ،ممبئی میں فرقہ پرستی کے خلاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پیش پیش رہے،ہمیشہ مظلوموں کی آواز بن کر ابھرے اور بلاخوف خطر سرگرم رہے۔
اس موقع پر سماجی کارکن اور ماہر تعلیم محمد عبدالقادر نے کہاکہ انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے ساتھ ہی وہ اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں میں کافی مقبول تھے۔حق کے لیے اور ظالم کے خلاف آواز بلند کی ۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...