سرفراز عالم ،پٹنہ
ان دنوں بلا وسطہ مسجدوں پر غیراللہ کا کنٹرول یہ ضرور بتا رہا ہے کہ اب ہماری مسجدوں میں فتنہ داخل ہو گیا ہے جس کا اشارہ حدیث میں بھی ملتا ہے ۔مسجدیں اسلام کا قلعہ ہیں، ہماری پارلیمنٹ رہی ہیں جہاں سے امت مسلمہ کی ہمیشہ رہنمائی کی گئی، ہم نے انہیں من پسند محل بنا دیا ہے۔ہمارے کم عقل مالدار لوگوں کی طرف سے اب آفر آتے ہیں کہ اگر مسجد کی کمیٹی اجازت دے تو ہم اسے تاج محل بنادیں۔ مسجدوں میں پنکھوں کی جگہ ایئر کنڈیشن، ممبر و محراب کی خوبصورتی، صفوں میں بانس کی سینک سے بنی چٹائی کی جگہ مہنگے قالین، سنگ مر مر کی فرش، وضو کے لئے ٹھنڈا گرم پانی کی تو بھرمار ہوگئی لیکن امام و مؤذن کی جائز تنخواہ ابھی بھی نہیں دی جارہی ہے ۔یہ ساری سہولیات اس بات کی گواہ ہیں کہ امت اللہ کے گھر میں اللہ کے سامنے کچھ منٹوں کی آزمائش و پریشانیاں نہیں برداشت کر سکتی ہے تو اندازہ کیجئے میدان حشرکی سختیوں کو یہ امت کیسے برداشت کر پائے گی۔ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر مساجد میں بڑھتی آسانیوں نے جیسے مسجدوں کی روح ہی نکال دی ہیں ۔ رنگ و روغن اور سجاوٹ قطعی مسجدوں کا مقصود نہیں ہوسکتا ہے ۔مسجدوں کی تعمیر میں اب غیر شعوری طور پر مقابلہ آرائی شروع ہو چکی ہے ۔اب لوگ اپنی مسجدوں پر فخر کرتے ہیں یعنی قیامت سے ہم بہت قریب ہو چکے ہیں ۔
ذرا سوچیں جس قوم میں غریبی، جہالت اور دیگر پریشانیوں کی بھرمار ہو ان کی مسجدیں کیا سنگ مر مر سے مزین کی جانی چاہئے؟ غور کرنے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ نئی تعمیر شدہ مسجدوں کی در و دیوار کے اندر اب پہلے جیسا سکون نہیں ملتا ہے۔اس بحران میں لگتا ہے کہ ایک اچھی چیز بھی ہوئی ۔حکومت کے خوف سے مسجدوں میں قالین اٹھا کر اصلی اور فطری حالت ضرور پیدا ہوگئی ۔اس سے پہلے اللہ کی محبت میں مہنگے اور خوبصورت قالین نما جائے نماز بچھا دیئے گئے تھے ۔کیایہ مساجد کے فتنے نہیں ہیں؟ پانچ وقتوں میں ہر بار پندرہ سے بیس منٹ اللہ کے ذکر کے لئے کھڑے ہونا اور اس قدر آرام طلبی اور نفس پرستی! اللہ کی پناہ۔ بہت کم مساجد میں ذمہ دار اور حساس کمیٹی کی محنت سے مسجدیں ابھی تک سادہ بچ رہی ہیں ۔مبارک باد کے مستحق ہیں ایسی کمیٹی کے لوگ جنہوں نے مسجدوں کو اللہ کی عبادت کی جگہ بنائی نہ کہ جھوٹی شان و شوکت کا مرکز ۔اب تو بریلوی مسجد، اہل حدیث مسجد، دیوبندی مسجد تو نقشبندی مسجد، سنی اور شیعہ مسجد، ہماری مسجدوں کی پہچان بن گئ ہے ۔کیا یہ مساجد میں فتنے نہیں ہیں؟ کیا اسلام میں ایسی ہی مساجد بنانے کی تعلیم دی گئی ہے؟ شاید انہیں غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری مسجدوں میں غیروں کا فتنہ داخل ہو گیا ہے ۔
اب تو بیشک یہ خبر بھی آسمان تک پہنچ چکی ہے ۔دشمن مساجد کا تو اب جو ہونا ہے، وہ ہوگا ہی، ہمارے ایمان کا بھی آپریشن شروع ہو چکا ہے ۔غور کریں ہم خوفزدہ مسلمانوں کو اللہ کے علاوہ اور کہاں پناہ مل سکتی ہے ۔ ہمارے اکابر، رہبر ملت اور رہنما، ہمارے زندہ بزرگ اور شیخین، سجادگان اور پیرو مرشد، مفکر ودانشور، اسلامی ادیب و فنکار اس شیطانی احکام کی پیروی کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔کسی کی پیشانی پر شکن تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔حد تو یہ کہ سب مل کر حکومت کے ذمہ داروں سے بات کرنے کی حجت بھی تمام نہیں کر پائے۔ کیا یہ لوگ مسجدوں کی عظمت کو نہیں جانتے ہیں؟ ان کی کوتاہیوں اورفکری اختلافات نے ان کا رعب اب حکمرانوں کے دلوں سے نکال دیا ہے ۔ہماری صفوں میں دراڑ ڈال کر شیطان ہماری مسجدوں تک پہنچ گیا ہے ۔ہمیں سیسہ پلائی دیوار کی طرح صفیں بنانے کی تعلیم دی گئی تھی تاکہ شیطان کا داخلہ نہ ہوسکے ۔صفوں میں دراڑ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے دلوں میں اختلاف پڑگیا۔ صفیں ہماری ہوں اور حکم غیروں کا چلے! اللہ بہتر جانتا ہے کہ اب کیا ہو گا آگے! ابھی تو فتنوں کی ابتدا ہوئی ہے ۔فتنوں کی بارش ہونی ہے، فتنوں کا باڑھ ابھی باقی ہے ۔اللہ ہماری حفاظت فرمائے آمین! کہیں ہم لوگ جانے انجانے میں دشمن اسلام کے آل کار تو نہیں بن رہے ہیں ۔غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کووڈ ہو یا کورونا اسے جو کرنا تھا کر گیا.!کوئی پریشان ہوا تو کوئی مر گیا۔ہمارے ایمان کا بھی بیڑا غرق کر گیا۔ہم تو پہلے سے ہی بٹے ہوئے تھے یہ اختلاف کو مزید مکمل کرگیا۔غیر کا چھوڑیئے امت مسلمہ پر بھی ایسا خوف طاری کر گیا کہ ہم موت سے پہلے ہی مردے کی طرح جی رہے تھے ۔لگتا ہے یہ فتنہ ہمارے ایمان کا بھی سودا کر گیا ۔بیشتر مسلمانوں کا حال ایسا کر گیا جیسے کہ ان کے دونوں کندھوں پر اب کراما کاتبین کی جگہ ملک الموت کی پوسٹنگ ہو گئی تھی ۔پڑھے لکھے اور مالدار لوگوں کی تو جیسے اب روح پرواز ہونے والی تھی۔خوفزدہ لوگ سور نما ماسک لگا کر زندہ لاش کی طرح اپنی ضروریات کے لئے گھر سے باہر نکل رہے تھے ۔
دنیا بند، بازار بند، اسکول بند یہاں تک کہ ہمارا دماغ بھی بند کر گیا تھا۔یہ بند کا سلسلہ گھر سے لے کر باہر تک قائم کرکے لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ تم ابھی بھی کہیں آزاد نہیں ہو۔ہماری مسجدیں بھی اس خوف کی گواہ بن گئیں کہ اس کو آباد کرنے والے مسلمان کس قدر مئومنانہ صفات سے خالی ہیں ۔ہم بھول گئے کہ ہمارے اصلی اور ابدی گھر کا راستہ انہیں مسجدوں سے ہوکر گزرتا ہے ۔ایسا لگا کہ اب تک ہم اپنی مسجدوں میں رجوع الی اللہ نہیں بلکہ صرف ظاہری عبادات میں مشغول تھے ورنہ اللہ ہمارا مددگار ضرور ہوتا۔ مسجدوں میں حکومت کے شیطانی پنجوں کا ضرب ایسا لگا کہ سارے مسلمان اسی کے مطیع وفرمابردار ہو گئے۔ جہاں ایک طرف اسی زمین پر مسجد کی حفاظت اور آبادکاری کے لئے ایمان والے ہر دن شہادت دے رہے ہیں وہی ہم لوگ اپنی مسجدوں میں غیراسلامی احکام کے نفاذ پر غیرت سے بھی خالی ہو چکے ہیں ۔ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے ۔ ترجمہ: اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نا م کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انھیں ویران کرنے کی کوشش کرے! انھیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں(بھی) ذلت ہے اور ان کے لئے آخرت میں( بھی) بڑا درد ناک عذاب ہے (القرآن:سورہ بقرہ، آیت :114) بے شک یہ آیت حکمرانوں کے لئے ہیں لیکن علمائے کرام اور عوام کی ذمہ داری کا بھی احساس دلاتی ہے ۔حالت جنگ میں بھی اللہ نے مسجدوں میں نماز و جماعت کی اہمیت بتادی ہے۔ قرآن مجید میں اعلان خدا وندی ہے۔ تر جمہ: اور اے حبیب! جب تم ان میں تشریف فر ماہو پھر نماز میں ان کی امامت کرو تو چاہئے کہ ان میں ایک جماعت تمھارے ساتھ ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر تم سے پیچھے ہو جائیں اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت نماز میں شریک نہ تھی اب وہ تمھارے ساتھ نماز پڑھیں اور( انھیں بھی) چاہیے کہ اپنی حفاظت کا سامان اور اپنے ہتھیار لیے رہیں۔ کافر چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے ہتھیا روں اور اپنے سامان سے غافل ہو جائو تو ایک ہی دفعہ تم پر حملہ کردیں اور اگر تمھیں بارش کے سبب تکلیف ہو یا بیمار ہو تو تم پر مضائقہ نہیں کہ اپنے ہتھیا ر کھول کر رکھو اور اپنی حفاظت کا سا مان لئے رہو۔ بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (القر آن،سورہ نساء،آیت102 ) آخری اور سب سے ضروری قابل غور بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے اعمال پر جلد از جلد نظر کرنا چاہیے ۔اس لئے کہ کائنات کے خالق و مالک کا اعلان ہے کہ لوگوں دنیا میں جو بھی مصیبت آتی ہے اس کی وجہ تم ہی ہو ۔اکثر ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں تو اللہ کا فضل ہے ٹھیک لگتا ہوں ۔اسلام کی بنیادی چیزوں پر حتی المقدور عمل کرتا ہوں، پھر بھی اکثر پریشان رہتا ہوں، کیوں؟ میں سمجھتا ہوں انفرادی طور پر یہ آزمائش کا ذریعہ ہو سکتا ہے لیکن عمومی طور پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امت سے کیا غلطیاں ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے ان دنوں پریشانی کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ؛ ترجمہ: اور تم کو (اے گناہگاروں) جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کیے ہوئے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سی تو درگزر ہی کردیتا ہے۔ (سورہ الشوریٰ، 30) اس آیت کی روشنی میں امت کو مجموعی طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔حدیث کے مطابق امر بالمعروف اور نہی ان المنکر کا کام نہایت ضروری ہے جس سے امت اب لاپرواہ ہوتی جارہی ہے ۔ سورہ توبہ کی آیت 18 میں تو مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی پہچان بتا دی گئی ہے۔ ترجمہ : “اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جن کا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ہے اور جنہوں نے نماز قائم کی ہے زکات ادا کی ہے اور سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرے یہی وہ لوگ ہیں جو عنقریب ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں گے”۔ لگ بھگ 11 جمعہ کے نقصان اور لاک ڈاؤن کے بعد سرکاری حکم کے مطابق 12 جون 2020 کو جمعہ کی نماز ہوئی۔چونکہ کسی ملی رہنما کا کوئی مضبوط بیان نہیں آیا اس لئے مسجدوں میں الگ الگ فیصلے کے تحت نماز جمعہ ادا کی گئی ۔دیہاتی علاقوں میں شرعی ضابطے کے مطابق اکثر جگہوں پر نماز ہوئی لیکن شہروں میں سرکاری گائیڈ لائنز کے مطابق نماز ادا کی گئی ۔کچھ مسجدوں میں شریعت کے مطابق نماز نہیں پڑھنے دینے کے احتجاج میں تالا بندی بھی رہی ۔شاید یہی فیصلہ بہتر تھا جس میں غیر اسلامی اصول و ضابطے کے خلاف خاموش احتجاج نظر آیا ۔میری سمجھ کے مطابق بقیہ جگہوں میں خلاف شرعی صف بندی کی وجہ سے نماز جمعہ ادا ہی نہیں ہوئی ۔کئی مقرر و خطیب نے اپنے اپنے ڈھنگ سے الگ الگ کھڑے ہو کر صف بندی کو صحیح بتانے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی مدلل بات نہیں کر سکے۔کچھ لوگوں نے صفوں کے بیچ ایک بیمار آدمی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا جواز نکالا جو قطعی ڈسٹینسنگ کے مترادف نہیں ہے ۔بارش ہونے کی وجہ سے گھر پر نماز پڑھنے کے جواز کو کورونا کے خوف میں حکومتی آرڈر کو مان کر مسجدیں بند کر دی گئی تھی جبکہ قرآن واحادیث سے پتہ چلتا ہے جنگ کے خوف کے بیچ میدان جنگ میں بھی باری باری سے نماز ادا کی گئی ۔لگ بھگ تمام ملی رہنماؤں کی طرف سے زبردستی سرکاری گائیڈ لائنز کی تائید اور اسکو حق بجانب ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ۔افسوس یہ ہے کہ ہمارے اکابر نے مل کر اجتہاد کرنے کے بجائے غیر اسلامی حکومت کی گائیڈ لائنز پر آمنا صدقنا کہا ۔جمعہ کے دن کئی لوگوں نے گھر لوٹ کر نماز ظہر ادا کی۔ہمارے ملی اداروں اور رہنماؤں میں اب خاموش احتجاج کی بھی جراءت باقی نہ رہی۔اللہ سے التجا ہے کہ ہمیں اپنی مساجد کو سادہ اور اسلامی مزاج کا بنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اللہ سے دعا ہے کہ امت کو پھر پہلے جیسا حوصلہ مند ملی رہنما میسر کردے جو مل کرحکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے، آمین!

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...