ہندوستانی مسلمانو!آئو میڈیا میڈیا کھیلیں

(دائیں سے بائیں) محترمہ زینت شوکت علی،سرفراز آرزو،سجاتا آنندن،جیوتی اور ولاس اٹھائولے ’’میڈیا کے اخلاقیات‘‘پروگرام میں شریک (تصویر:معیشت)
(دائیں سے بائیں) محترمہ زینت شوکت علی،سرفراز آرزو،سجاتا آنندن،جیوتی پنوانی اور ولاس اٹھائولے ’’میڈیا کے اخلاقیات‘‘پروگرام میں شریک (تصویر:معیشت) فائل فوٹو

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

یہ لاک ڈائون سےغالباً دو چار روز قبل کی بات ہے کہ دہلی میں مقیم ایک صحافی دوست نے فون پر کہا کہ سابق رکن پارلیمان محمد ادیب صاحب تم سے بات کریں گے لہذا میں فون انہیں دے رہا ہوں بات کرلو۔سلام و دعا کے بعد موصوف کچھ بات کرتے رہے لیکن اس وقت جس ادھیڑ بن میں میں مبتلاء تھا مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ کیا کیا باتیں ہوئیںاور پھر بات آئی گئی ہوگئی۔لیکن جب انہوں نے میڈیا ہائوس قائم کرنے کا شوشہ چھوڑا تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید اسی سلسلے کی کوئی بات انہوں نے اس وقت بھی کی ہوگی۔چونکہ سال چھ ماہ گذرتے ہی مجھے ایسے لوگ اکثر ٹکراجاتے ہیں جو میڈیا ہائوس قائم کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ یہ گذشتہ کئی برسوں سے ہوتا چلا آرہا ہے لہذا اب کوئی اگر اس سلسلے میں گفتگو کرتا ہے تو میں عموماًکان نہیں دھرتا اور سمجھتا ہوں کہ یہ وقتی جوش ہے جوسر چڑھ کر بول رہا ہے اور شاید کچھ وقت گذرتے ہی ٹھنڈا پڑجائے۔لیکن ادیب صاحب کے ویڈیو کے ساتھ میڈیا ہائوس کے تعلق سے کسی کا آڈیواس قدر وائرل ہوا کہ نوی ممبئی میں مقیم میرے بزرگ کرم فرما نے مسلسل فون کرکے باقاعدہ ایک پرپوژل تیار کرنے کی گذارش کی اور بالآخر میں نے ایک ڈاکومنٹ ان کی خدمت میں پیش بھی کردیا لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ میں انہیں فون کرتا ہوں ،ان سے ملنے آفس جاتا ہوں لیکن وہ اس پرپوژل کے علاوہ تمام جہان کی گفتگو تو کرتے ہیں لیکن اب اس پر کان نہیں دھرتے۔
بالعموم مسلمانوں اور خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کے بیچ میڈیا کی اہمیت نہ ماضی قریب میں رہی ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں جو طاقتیں ملی وسائل پر قابض ہیں ان کے ذہن و فکر میں میڈیا کی وہ اہمیت نہیں جیسی اہمیت دوسری چیزوں کو حاصل ہے۔جن سرپھروںنےاس ضمن میں کچھ کام کیا ہے انہیں ملی وسائل پر قابض طبقہ لائق خاطر ہی نہیں سمجھتا لہذا یا تو وہ اپنی موت آپ مررہے ہیں یا پھر کسی اور کے سایہ رحمت میں عافیت تلاش کررہے ہیں۔
یہ بیس پچیس برس قبل کی بات ہے جب کرناٹک کے موجودہ ممبراسمبلی سی ایم ابراہیم صاحب نے الفلک اور الہند کے نام سے ٹیلی ویژن چینل رجسٹریشن کی کوششوں کا آغاز کیا تھااور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے سربراہ جناب ڈاکٹر مظور عالم صاحب کو بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بنایا تھا،ان دنوں جب میں دہلی میں مقیم تھا توروزانہ اس سلسلے کی نئی نئی خبریں موصول ہواکرتی تھیں، آخر ایک دن یہ خبر موصول ہوئی کہ دونوں میں شدید اختلاف ہوگیا ہے اور ٹیلی ویژن چینل کا پورا پروجیکٹ کلعدم قرار پایا ہے۔
دراصل مسلمانوں کے اندر اجتماعی پروجیکٹ پر کام کرنے کا حوصلہ تقسیم ہند کے بعد سے ہی ایسے تقسیم ہوا ہے کہ شاذ و نادر ہی اس کی مثالیں کہیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔بلکہ اس کے بالمقابل جو لوگ تن تنہا کوئی پروجیکٹ لے کر چل رہے ہوں اور اپنے اصولوں پر کام کررہے ہوں ان کی کامیابی کی سیکڑوں مثالیں ہمیں دیکھنے کو بھی ملتی ہیں اور اس کے فیوض و برکات سے ملت بھی مستفید ہوتی ہے۔اس وقت بھی درجنوں ویب سائٹس،نیوز پورٹلس، یو ٹیوب چینلس،اخبار و جرائد ایسے ہیں جو اپنی انفرادی کوششوں کے نتیجہ میں ملت کی نمائندگی کررہے ہیں۔لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان کی پشت پناہی کے لئے ہمہ وقت تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔ہمارے یہاں تو Independent and Public-Spirited Media Foundation جیسا ادارہ بھی نہیں ہے جو آج درجنوں میڈیا ہائوس کو تعاون کررہا ہے۔آخر کتنے لوگوں کے علم میں یہ بات ہے کہ آلٹ نیوز،دی وائر،ای پی ڈبلیو،دی پرنٹ، کاروان میگزین،ایسٹ موجو،خبر لہریا جیسے اداروں کی سرپرستی ایک ایسا فائونڈیشن کررہا ہے جس نے اپنا رجسٹریشن Independent and Public-Spirited Media Foundation کے نام پر کروا رکھا ہے۔
چونکہ بچپن سے ہی میڈیا میری دلچسپی کا موضوع رہا ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے BUMSکی تعلیم بھی فرسٹ ایئر مکمل کرنے کے بعد ترک کردی کہ یکسوئی کے ساتھ اس ضمن میں کچھ کرسکوں لیکن فیلڈ میں آنے کے بعد محسوس ہوا کہ جس سنگلاخ زمین پر قدم رکھا ہے وہاں زندگی کے آثارتقریباً مفقود ہوچکے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب 2012؁ میں ممبئی کے آزاد میدان میںمسلمانوں کے ایک گروپ کی طرف سے مظاہرہ کے دوران کچھ شر پسندوں نےمیڈیا کے OB Vanکے ساتھ امر جوان کو بھی نقصان پہنچایا تھا تو اتفاقاً میں بھی وہاں موجود تھا ۔میں نے فوری طور پر اپنی رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے شرارت کی اور پھر سارا الزام مسلم نوجوانوں کے سر منڈھ دیا گیا۔ انہیں دنوں میں نے ’’ڈائیلاگ بٹوین میڈیا اینڈ مسلمس‘‘کا بھی انعقاد کیا تھا جس میں کمیونیٹی کے ساتھ مین اسٹریم میڈیا کی بڑی تعداد شریک ہوئی تھی لیکن المیہ یہ رہا تھا کہ اس پروگرام میں آنے والے اخراجات کی فراہمی بڑی مشکل سے کرپایا تھا ۔اسی طرح جب 2014؁ میںدہلی میں ’’مائناریٹی میڈیا کانکلیو‘‘کا انعقاد کیا تو سوائے جناب سید ظفر محمود صاحب (زکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا) کسی اور نے حوصلہ افزائی کی کوشش نہیں کی۔منتظمین میں شامل برادرم عفان احمد کامل نے یہ کہتے ہوئے مذکورہ پروگرام کو تکمیل تک پہنچایا کہ ’’جب ہم نے طے کرلیا ہے کہ اسے منعقد کرنا ہے تو ’’جیب خاص ‘‘کا استعمال کرتے ہوئے ہی اسے بحسن و خوبی اختتام تک پہنچائیں گے‘‘۔دلچسپ بات یہ رہی کہ دہلی جرنلسٹ ایسو سی ایشن کے سکریٹری انل پانڈے ،جن کے ساتھ لمبے عرصہ تک کام کرنے کا تجربہ رہا ہے ،پروگرام کے دوران کہنے لگے کہ اگر آپ مجھے بتا دیتے کہ آپ کو اسپانسرس نہیں مل رہے ہیں تو شاید میں کچھ ہندو تنظیموں سے بات کرکے اس مسئلے کو حل کردیتا۔
2011؁ میں جب میں نے میڈیا ڈائریکٹری اردو زبان میں تیار کی تو سوائے گلزار احمد اعظمی (جمعیۃ علماء مہاراشٹر) کے کسی اور نے اسے خریدنے کی زحمت نہیں کی ۔دراصل اردو زبان میں شائع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر کہیں ناگہانی حالات پیدا ہوگئے ہوں اور ملی ذمہ داران کو وہاں کے حالات راست طور پر جاننا ہوں تو وہ مقامی کمیونیٹی رپورٹر سے رابطہ کر لیں تاکہ صحیح صورتحال کا فوری علم ہوسکے ۔اس آئیڈیا کو لوگوں نے پسند تو کیا لیکن کسی ادارے نے عملی طور پر اس کی پذیرائی نہیں کی وہ تو بھلا ہو جناب شاہد ندیم صاحب کا جنہوں نے مہاراشٹر راجیہ اردو ساہتیہ اکیڈمی کے مالی تعاون کے ذریعہ خسارے کو سنبھالا دیا ورنہ میں بیشتر پروجیکٹ ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘کے اصول پر پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہوں۔
بیس بائیس سالہ صحافتی دور میں یہ بات تو بخوبی سمجھ میں آگئی ہے کہ اگر کوئی کمیونیٹی میڈیا کے فیلڈمیں کام کرنا چاہتا ہو تو اپنے حوصلے کے ساتھ آئے ۔ ملت نہ ہی ملی ادارے اور نہ ہی حکومت انہیں سر آنکھوں پر بٹھانےوالی ہے بلکہ ممکن ہے کہ جب مسائل میں گرفتار ہوں تو آس پاس پڑوس کے لوگ ایسے آنکھیں پھیر لیں کہ آپ کو افسوس کرتے ہوئے بھی شرم آئے کہ آخر کیوں بیٹھے بٹھائے حماقت کر بیٹھے۔لہذا اس وقت جو لوگ میڈیا میڈیا کھیل رہے ہیں وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس کا حاصل کیا ہے لیکن وہ لوگ جو حقیقی معنوں میں کمیونیٹی میڈیا میں کام کررہے ہیں انہیں ان شرارتوں سے تکلیف ضرور پہنچتی ہے۔
دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے ڈائریکٹر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *