معاملہ اب الیکشن نہیں، دلوں کو جیتنے کا ہے

عبد السلام عاصم
عبد السلام عاصم
عبدالسلام عاصم
اکثر جو باتیں بظاہر دل کو بہلانے کیلئے کی جاتی ہیں وہ ذہن کو بھی متاثر کرتی ہیں اوراس کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔پریشانیوں سے گزر نے والے معاشروں میں بڑے بزرگ اکثر کہتے ہیں کہ ”وہ دن نہیں رہے تو یہ دن بھی نہیں رہیں گے“۔ہمارا قومی معاشرہ ان دنوں اِسی مرحلے سے گزر رہا ہے۔انتہائی نفرت کے ماحول کی شدت کورونائی عہد سے بھی اس طرح چپکی ہوئی ہے جیسے دونوں میں دیرینہ شناسائی ہو۔بدقسمتی سے ورناکلر صحافت کے بعد اب انگریزی صحافت نے بھی فرقہ وارانہ افترا پردازیوں میں پناہ ڈھونڈ لی ہے۔اس طرح سماجی، سیاسی، تہذیبی اور اقتصادی زندگی بری طرح اتھل پتھل ہو کر رہ گئی ہے۔تعلیمی زندگی کا ذکر میں نے اس لئے نہیں کیا کہ اس کا بیڑہ غرق کرنے ہماری گنگا جمنی تہذیب کے نام نہاد پاسداروں کا بھی اتنا ہی عمل دخل ہے جتنا بین فرقہ نفرت نفرت کھیلنے والوں کا ہمیشہ رہتا آیا ہے۔
تو کیا ملک کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر اب دہائیوں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی! اور سب کچھ ویسا ہی چلے گا جیسا موجودہ حکمراں چاہیں گے!! نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر ثبات واقعی ایک تغیر کو ہے زمانے میں تواس جمود کا ٹوٹنا طے ہے۔ سابقہ صدی کی آٹھویں دہائی میں سیکولرزم کے ساتھ انتہائی نازیبا کھلواڑ کرنے والوں نے بھی یہی سمجھ رکھا تھا کہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا اورکہیں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ درون ِملک تعلیم پر عقائد کی حوصلہ افزائی ہمیں کتنا ہی ہمسائے کی شرارت سے بھر پور معاشرت سے مرحلہ وار قریب کیوں نہ کر دے اور درونِ ملک اُس کی شرارتوں کے کتنے ہی منفی اثرات کیوں نہ مرتب ہوتے رہیں،ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کی آبیاری پر اِس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا!خواہ ہماری عدم چوکسی سے گنگا کتنی ہی میلی کیوں نہ ہو جائے اور جمنا کواپنے ہی پانی کے لئے ترسناکیوں نہ پڑے!!
ٍ موجودہ حکومت سب کو ساتھ لے کر چلنے کی اپنی سوچ کوبظاہر جس طرح بلا شرکت غیرے آگے بڑھا رہی ہے، اس کی ماضی میں بہ انداز دیگر کانگریس بھی نظیر پیش کر چکی ہے۔اس کی اس سوچ کو 1970 کی دہائی میں پہلا جھٹکا لگاتھا۔ اس جھٹکے سے ماحول کو تو بدلا لیکن جو تبدیلی آئی وہ فکری نہیں تھی۔ وہ ایک ناپختہ تصادم تھا جو ایک موقع پرستانہ ٹکراو کی حد سے آگے نہ بڑھ سکا۔بہر حال اس تبدیلی سے کانگریس کوپہلی مرتبہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا تجربہ ہوا۔ چونکہ اس تبدیلی کی بنیاد ٹھوس نہیں تھی اس لئے مرار جی ڈیسائی کی قیادت میں کہیں کے اینٹ اور کہیں کے روڑے سے بھان متی کا جو حکومتی کنبہ جوڑا گیا تھا وہ ڈھائی سال میں ہی ٹوٹ گیااور 1980 کی دہائی میں کانگریس دوبارہ بر سر اقتدار آگئی۔ محترمہ اندرا گاندھی نے اپنی اس واپسی کو اپنی ناگزیریت پر محمول کیا جس کی وجہ سے وہ کوئی سبق نہیں لے پائیں اور اپنے فیصلوں کے کسی نفسیاتی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا۔اس کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر چکانا پڑی۔شخصی طور پر آزاد ہندستان کا یہ دوسرا اندوہناک واقعہ تھا۔
اس کے بعد 1984 میں کانگریس 49 فیصد ووٹوں کے ساتھ414 پارلیمانی سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ اقتدار کے نشے نے تو کانگریس کو جیسے پاگل کر دیا تھا۔پارٹی نے صحیح اور غلط کا اپنا پیمانہ بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ 1984 کے انتہائی ہلاکت خیز سکھ مخالف تشددکو بھی پارٹی قیادت باجواز ٹھہرانے سے باز نہیں آئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین سال گزرتے گزرتے اپوزیشن نے جس کے پاس صرف 116 سیٹیں تھیں، سرکاری زیادتیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف مزاحمت کا وہ طوفان اٹھا یا کہ 1989 کے انتخابات میں کانگریس کوایک بار پھر شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ اس کے بعد سے کمزور قیادتوں کے مسلسل آوا گون کا جیسے ایک سلسلہ چل پڑا۔2004 اور2009 میں کانگریس نے مخلوط حکومتوں کی قیادت ضرور کی لیکن کبھی سیاسی اور سماجی احتساب سے کام نہیں لیا۔ اس کے بعد2014 میں پہلی بار کوئی غیر کانگریسی ہی نہیں بلکہ غیر سیکولر کے طور پر بدنام بی جے پی عام اندازے کے برعکس کامیابی کے ساتھ بر سر اقتدار آئی۔
ٍ تنہا اکثریت کے باوجود بی جے پی نے ہم خیالوں کے محاذ یعنی این ڈی سوئم کی قیادت والی حکومت قائم کی جو اپنی پہلی دہائی کے وسط سے آگے نکل چکی ہے۔یہ سفر دہائیوں کے سفر میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔لیکن کیا ہندستان اس دوران اپنی اُس پہچان کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے جسے بالواسطہ مسخ کرنے کے بعد اب باقی ماندہ سیکولر طاقتیں بچانے کی بھی(کم از کم سر دست) متحمل نظر نہیں آ رہی ہیں۔ اس پس منظر میں ایک بات جو پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ اس ملک میں امن، فرقہ وارانہ ہم آہنگی،معاشی ترقی اور تعلیمی بہبود کو روایتی ہندوتو اور نام نہاد سیکولرزم کے ذریعہ یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔حالات موجودہ رخ پر ہی آگے بڑھے تو جاری نفع نقصان کے ساتھ 2024 کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد بھی اپوزیشن کے سیاسی بازیگران یہی کہتے پھریں گے کہ:
شکست و فتح مقدر سے ہے ولے ائے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
اور جواب میں یک رنگی سے بیزار نسل بھی یہ کہہ کر اپنا بھڑاس نکالے گی کہ:
دل جو تھا ناتواں تو کس بَل پر
اُترا تھا ذہن کے مقابلے میں
گویا معاملہ اب انتخابی شکست و فتح کا نہیں، دلوں کو جیتنے اور ہارنے کا ہے۔ اس ملک کی اکثریت اور اقلیت نے ایک دوسرے کا دل نہیں جیتا تو انتخابی نتائج میں معمولی اور غیر معمولی دونوں طرح کے فرق کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دونوں ایک دوسرے کے خوف کے ساتھ جینے پر مجبور ہوں گی۔ خوف کے ماحول میں ظالم اور مظلوم دونوں نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں۔جو بظاہر ظالم ہوتا ہے وہ نفسیاتی مظلوم کو خطرہ سمجھتا ہے اور تعداد میں کمزور نظر آنے والافرقہ یا طبقہ اپنے تحفظ کی ضمانت کیلئے کبھی انتظامیہ سے شکایت کرتا تو کبھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا پھرتاہے۔ اس بے ہنگم دوڑ میں معاملات اس قدر الجھ چکے ہوتے ہیں کہ انہیں سلجھانے کی ہر کوشش ایک دوسرے کے دل میں شک پیدا کرنے لگتی ہے۔
بہر حال مایوسی کفر ہے، بد دل ہونے کے بجائے امکانات کے رُخ پر سرگرم رہنے کی ضرورت ہے۔ملک میں حکومت قائم کرنے اور چلانے والے آسمان سے نہیں اترتے۔ اس لئے ہمیں اس یقین کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے کہ ہماری فکری کجی اگر مذہبی شدت پسندی سامنے لاسکتی ہے تو روشن خیالی سے رواداری کے وہ سوتے بھی پھوٹ سکتے ہیں جو پوری قوم کو سیراب کر دیں۔
ہندستان مسلسل ردعمل کی سیاست کی تاب نہیں لا سکتا۔ موجودہ مرحلہ وقتی ہے اور اس کی طوالت کسی بھی طرح دہائیوں پر محیط نہیں ہو سکتی۔ ملک کا ایک بڑالبرل حلقہ جو سیکولرزم کے دھندے بازوں سے اوب گیا تھا،ایک تجربے سے ضرور گزر رہا ہے لیکن وہ اس روادری کی جگہ جو ہماری صدیوں پرانی تہذیب کی آئینہ دار ہے، کسی ایسی یک رنگی کو ہرگز دوام بخشنے کی اجازت نہیں دے سکتا جوہندووں اور مسلمانوں کے کچھ مخصوص ذہنوں میں تو وجود رکھتا ہے لیکن ہمارے قومی مزاج سے میل نہیں کھاتا۔
اس ملک میں رہنے والے لوگ ایک سے زیادہ مذہبی عقائد ضرور رکھتے ہیں مگر ان کا کلچر ہندو یا اسلامی نہیں بلکہ ہندستانی ہے۔ مذہب اور کلچر کا جولوگ فرق نہیں سمجھتے انہیں یہ سمجھانا مشکل ہے کہ مشترکہ کلچر جہاں ہم وجودیت کا ضامن ہو تا ہے وہیں یک رنگی گھٹن پیدا کرتی ہے۔ یہ گھٹن کسی ایک فرقے یا طبقے کا حصہ نہیں ہوتی۔ البتہ ساجھیداری کی بنیاد پر قائم معاشرے میں خوشی اور غم دونوں مشترکہ ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کوویڈ 19 کی وباکا مردانہ وار سامنا کرنے کیلئے ہندو وں، مسلمانوں، سکھوں اور مسیحیوں کی مخصوص عبادت گاہوں کے دروازے سب کے لئے ہر گز نہیں کھولے جاتے۔ دیوالی اور عید میں فرق کرنے والوں کو آج ہم سب مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے دیکھ رہے ہیں۔ہم نے اپنے اعمال سے جہاں خوفناک ماضی کو تاریخ میں جگہ دی ہے وہیں انسانی رشتوں کی وہ مثالیں بھی قائم کی ہیں جنہیں وقت کا کوئی مورخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *