
چینی چندے پر بی جے پی کوکانگریس کا کرارا جواب
حسام صد یقی
نئی دہلی: گلوان وادی میںفنگر دو تک چین اپنی فوجوں کے جماوڑے میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔ خبر لکھے جانے تک فنگر دو اور چار کے درمیان چین نے اپنےنئے ٹینٹ لگا کر فوجیوں اور فوجی ساز و سامان میں اضافہ کرلیا تھا۔ سیٹلائٹ تصاویر میں صاف نظر آرہا ہے کہ گلوان وادی میں جس جگہ پر چین نے پندرہ جون کو بھارت کے بیس بہادر فوجیوں کو شہید کیا تھا اس جگہ پر چین نے ٹینٹ کے بجائے کنکریٹ کے اسٹرکچر کھڑے کرنے کا کام شروع کردیا تھا۔ نو کیلومیٹر میں چین نے سولہہ کیمپ لگا لئے۔ پینگانگ جھیل کے بیشتر حصہ پر چینی فوجی نظر آنے لگے تھے۔
سرحدی علاقہ میں بسے بھارتی گاؤں کے لوگ لدّاخ آکر مسلسل شکائتیں کررہے تھے کہ چینی فوجی اب انہیں مویشی چرانے بھی نہیں جانے دے رہے ہیں۔ مودی سرکار چین کے ساتھ توبڑے فوجی افسران کے درمیان روزانہ آٹھ آٹھ، دس دس گھنٹوں کی بات چیت جاری کئے ہوئے تھی۔ جس کا کوئی اثر بھی زمین پر نہیں نظر آرہا تھا کیونکہ ہماری جانب سے صرف بات چیت جاری تھی لیکن دوسری طرف سے بات چیت کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر ہر قسم کی شرارتیں کی جارہی تھیں۔ چین نئی نئی پوسٹوں پر اپنے فوجی بٹھاتا جارہا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اٹھائیس جون کو آل انڈیا ریڈیو پر ’من کی باتیں‘ کیں پھر تیس جون کو ملک کو خطاب کیا، ایک بار بھی انہوں نے دشمنی پر تلے چین کا نام نہیں لیا۔
یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ انہوں نے چین کا نام شاید اسلئے نہیں لیا کہ وہ اب بھی اپنے جگری دوست چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنے ذاتی مراسم کو خراب نہیں کرنا چاہتے دوسرے انہیں معلوم ہے کہ ملک کے لوگوں پر پاکستان کا نام لینے سے جو اثر پڑتا ہے وہ اثر چین کا نام لینے سے نہیں پڑتا۔ انتیس جون کو مودی سرکار نے ائیر اسٹرائیک کے نام پر چین کے اٹھاون ایپ پر پابندی لگانے کا اعلان کرکے، بیس جوانوں کی شہادت کا انتقام لینے کی فرض ادائیگی کرلی۔ دنیا کے ممالک کی تاریخ میں شاید مودی سرکار پہلی ایسی سرکار ہے جس نے سرحد پر پڑوسی چین کے ساتھ جنگ کے ماحول کے دوران دشمن ملک کے بجائے اپنے ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ایسے حالات میں پورے ملک کو متحد نظر آنا چاہئے۔پروپگینڈے، جھوٹ اور ملک کے غلام میڈیا کی مدد سے کسی پر خصوصاً کانگریس پر الزام لگا کر بدنام کرنےمیں ماہر بھارتیہ جنتا پارٹی نے کانگریس پرکئی الزام لگائے ایک یہ کہ کانگریس پارٹی نے یو پی اے سرکار کے دوران چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔ دوسرا یہ کہ راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کے لئے 06-2005میں کانگریس نے چین سے کروڑو ں روپیوں کا چندہ لیا۔ تیسرا الزام وزیر داخلہ امت شاہ نے لگایا کہ راہل گاندھی کے بیانات سے چین اور پاکستان کو فائدہ ملتا ہے۔ پاکستان کا نام انہوں نے جان بوجھ کر لیا تاکہ راشٹر بھکتی کے سمندر میں غوطے لگاتے ہندو طبقے کے لوگوں میں راہل گاندھی کے لئے نفرت کا ماحول پیدا کیا جاسکے ورنہ اس وقت پاکستان کا نام لینے کی نہ تو کوئی ضرورت تھی نہ کوئی موقع ہی تھا۔ بی جے پی لیڈران کو اندازہ نہیں تھا کہ کانگریس اتنا سخت جواب دے گی۔بی جے پی صدر جے پی نڈا، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور انتہائی غرورکے لہجے میں بولنے والے مرکزی وزیر روی شنکرپرسادنےکانگریس پر الزام تو لگادیئے لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ جس حمام میں وہ کانگریس کو بغیر کپڑوں کے دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں اسی حمام میں وہ خودبھی پوری طرح سے برہنہ کھڑے ہیں۔
کانگریس نے ایسا جواب دیاکہ بی جے پی اور آر ایس ایس دونوںمکمل طور پر ننگے نظر آنے لگے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ نریندر مودی جس طرح سرحد پر گھس پیٹھ کے معاملے میں چین کا نام لینے سے بچ رہے ہیں اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ اب ’سرینڈر مودی‘ ہو گئے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر اور سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ابھیشیک منوسنگھوی نے ٹوئٹ کرکے ان کو بتا دیا کہ مودی نے اٹھائیس مارچ 2020کو پی ایم کیئر فنڈ قائم کیا اس وقت چین سرحد پر شرارتیں شروع کرچکا تھا۔ جیسے جیسے چین کی گھس پیٹھ میں اضافہ ہوتا گیا چینی کمپنیوں سے پی ایم کیئر فنڈ میں کروڑوں کی رقم چندے کی شکل میں آتی گئی اور ا پنی سرحدوں اور ملک کے ’سوابھیمان اور سلامتی ‘ کی فکر کئے بغیر مودی چینی چندہ قبول کرتے رہے۔ پی ایم کیئر فنڈ کو آرٹی آئی سے اسی لئے الگ رکھا گیا ہے چندہ کہاں سے آیا اور کہاں گیا ملک کو اس کی معلومات نہ ہوسکے۔چدمبرم اور ابھیشیک منوسنگھوی کے الزام کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کے ٹرسٹ پی ایم کئیر فنڈ میں چینی کمپنی علی بابا کے کنٹرول والی کمپنی پے ٹی ایم نے سو کروڑ کا چندہ دیا۔ اس کے علاوہ ابھی تک جو اطلاع ملی ہے اس کے مطابق ٹک ٹاک ایپ سے تیس کروڑ، شاؤمی سے پندرہ کروڑ، ہووئی سے سات کروڑ اور اوپو سے ایک کروڑ کا چندہ پی ایم کیئر فنڈ میں لیا گیا ہے۔ کانگریس لیڈران نے کہا کہ آل پارٹی میٹنگ میں مودی نے بیان دیا کہ ’نہ کوئی ہماری سرحد میں گھسا تھا، نہ گھسا ہوا ہے اور نہ ہماری کسی چوکی پر کسی کا قبضہ ہے‘۔ ان کے اس بیان کو چینی اور انگریزی زبان میں ڈب کرکے سوشل میڈیا کے ذریعہ چین نے پوری دنیا میںو ائرل کرکے سیاسی اور ڈپلومیٹک فائدہ اٹھا لیا۔ چین نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم نے کوئی گھس پیٹھ کی ہوتی تو مودی ہمارا نام لیتے، انہوں نے ہمارا نام نہیں لیا۔ دنیا بھر میں چین کو فائدہ پہونچانے والے مودی کےوزیر داخلہ امت شاہ یہ الزام کیسے لگا سکتے ہیں کہ راہل گاندھی کے بیانات سے چین اور پاکستان کو فائدہ ملتا ہے۔ صرف کانگریس نے ہی بی جے پی کو اتنا سخت جواب نہیں دیا ہے کولکاتاسے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ دا ٹیلی گراف نے انتیس جون کو ایک خبر شائع کرکے آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں کو پوری طرح سیاسی اعتبار سے ننگا ہی کردیا۔ خبر کے مطابق آر ایس ایس کی ایک تنظیم ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ میں مودی کے وزیر خارجہ جئے شنکر کا بیٹا دھرو جئے شنکر ڈائریکٹر ہیں۔ خود جئے شنکر اکثر اس فاؤنڈیشن میں تقریر کرنے جاتے رہے ہیں۔ وہ چین میں بھارت کے سفیر بھی رہے ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر اسے ملنے والے چندے کی جو تفصیل موجود ہے اس کے مطابق کولکاتا میں چین کے کونسلیٹ جنرل سے اس فاؤنڈیشن میں یکم دسمبر2017کو پچاس لاکھ کی گرانٹ چندے کی شکل میں ملی۔ اس سے پہلے چین سے اس فاؤنڈیشن کو اکتیس دسمبر 2016کو ایک کروڑ ارسٹھ ہزار کا چندہ ملا۔ انتیس اپریل 2016 کو سات لاکھ ستر ہزا ر پھر اسی سال چار نومبر کو فاؤنڈیشن کو چین سے گیارہ لاکھ پچپن ہزار کا چندہ ملا یعنی صرف دو سالوں میں 17-2016 میں ہی چین نے کولکاتا میں تعینات ا پنے کونسلر جنرل کے ذریعہ کل ملا کر تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ روپئے کا چندہ اس فاؤنڈیشن کو دیا۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ فاؤنڈیشن بھلے ہی بھارت میں ہے اس کا پورا خرچ پیپلز ری پبلک آف چائنا ہی دیتا رہا ہے۔ اس آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کو آر ایس ایس کا خارجہ پالیسی تھنک ٹینک بتایا گیا ہے۔ اس سے امبانی کی ریلائنس انڈسٹریز سے بھی بھرپور مدد ملتی ہے۔ خبر میں لکھا ہے کہ مودی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال کے ذریعہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لئے دہلی میں قائم کئے گئے تھنک ٹینک ’وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘ نے بھی دنیا بھر کے ممالک سے چندہ لیا ہے۔
اگر کانگریس نے یو پی اے سرکار کے دوران چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ سمجھوتہ کیا تو وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن بھی چین کی کئی سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کرحکمت عملی بنانے کا کام کرتا رہا ہے۔ایسی چینی تنظیموں میں’چائنا انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز(بیجنگ)، چائنا انسٹیٹیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز، سینٹر فار ساؤتھ ایشیا اسٹڈیز پیکنگ یونیورسٹی(بیجنگ)، ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار انڈین اکنامیز، یونان یونیورسٹی آف فارن اینڈ اکنامکس کوننگ، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز آف چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز بیجنگ، سینٹر فار ساؤتھ ایشیا اینڈ ویسٹ چائنا کو آپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ یونیورسٹی، چیگند ، انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا اسٹڈیز سچوآن یونیورسٹی چیگد، سلک روڈ تھنک ٹیک نیٹ ورک ڈیولپمنٹ ریسرچ کونسل بیجنگ اور سینٹر فار انڈین اسٹڈیز شینجون شامل ہیں۔وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن اور آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن دونوں میں کام کرنے والے لوگوں کی بھارت سرکار چلانے والے ساؤتھ اورنارتھ بلاک میں بے روک ٹوک پہونچ ہے۔ ان حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد اب بھارتیہ جنتا پارٹی کس منھ سے کانگریس پر حملہ کرے گی اور پریشانی کے اس دور میں چین کے بجائے کانگریس سے لڑ سکے گی۔