Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

چندرشیکھر کی وراثت

by | Jul 8, 2020

معصوم مرادآبادی

معصوم مرادآبادی

تحریر:معصوم مرادآبادی
آج سابق وزیراعظم چندرشیکھر(یکم جولائی1927 تا 8 جولائی 2007 ) کا یوم وفات ہے۔ چندرشیکھر قومی سیاست کا ایک ناگزیر حصہ تھے۔ ہندوستانی سیاست میں ایک دور اندیش اور بااصول سوشلسٹ لیڈر کے طور پر ان کی شناخت بہت مستحکم ہے۔
انھوں نے10نومبر1990سے 21جون1991کے درمیان ملک کے آٹھویں وزیر اعظم کے طور پرخدمات انجام دیں۔وہ ایک اقلیتی حکومت کے سربراہ تھے، جو جنتادل کے ناراض گروپ نے کانگریس کی مدد سے تشکیل دی تھی۔
انھوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں بابری مسجد تنازعہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی جوسنجیدہ کوشش کی تھی، ایک رپورٹر کے طور پر میں اس کا عینی گواہ رہا ہوں۔ان کی سب سے بڑی خوبی فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف ان کا مضبوط موقف تھا۔وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے زبردست علمبردار تھے اور انھوں نے پوری زندگی اس کے لئے عملی جدوجہد کی۔مجھے یاد ہے کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں دہلی کے عید گاہ علاقہ میں فساد ہوا تو وہ وزیراعظم کا سارا پروٹوکول ایک طرف رکھ کر متاثرین سے ملنے وہاں پہنچ گئے اور ان کی داد رسی کی۔ آج کے سیاست دانوں میں اس اخلاقی جرات کا زبردست فقدان ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ فروری میں جب شمال مشرقی دہلی میں فساد پھوٹ پڑا تو دہلی کے وزیر اعلیٰ نے وہاں جانے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
میں نے پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں بیٹھ کرچندرشیکھر کی درجنوں تقریریں سنیں۔وہ بہترین مقرر تھے اور جب بولتے تھے تو ایوان پر سکتہ طاری ہوجاتا تھا۔ 2002 کی گجرات نسل کشی کے بعد انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے اندر جو معرکتہ الآراء تقریر کی تھی، وہ اپنی مثال آپ تھی۔میں نے اس تقریر کو اپنے اخبار”خبردارجدید“ میں شائع کرکے اس کی ایک کاپی ان کی خدمت میں روانہ کی تو انھوں نے اس سلسلے میں مجھے شکریہ کا ایک خط لکھنا ضروری سمجھا۔ اس خط کو یہاں شیئر کرنے کا مقصد دراصل یہ یاددہانی کرانا ہے کہ ہماری قومی سیاست میں کیسے کیسے عظیم کردار کے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ آج کے حالات میں آپ ان جیسے سیاست دانوں کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...