Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کرونا وائرس یا کووڈ-19کیا ہے؟

by | Jul 16, 2020

Corona
عمر فراہی
انسان کے جسم اور ہوا میں وائرس کب سے موجود ہے یہ کہنا بہت مشکل ہے مگر جب سے میڈیکل سائنس کو کمپیوٹر اور کیمرہ ٹکنالوجی کی مدد حاصل ہوتی ہے اور اسے دیکھا جاسکتا ہے وائریس کی شکل و صورت سے اس کے مختلف نام اور اسی لحاظ سے بیماریاں اور اس کی ویکسین وجود میں آنے لگیں ہیں ۔کرونا وائرس چونکہ دجال کے اپنے تاج یعنی Crown سے ملتا جلتا ہے اس لئے اس کا نام کرونا دے دیا گیا ۔اب 2019 کے کرونا میں اس وائیرس کو ناول کرونا کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے اسی لئے اسے Covid..19 کہتے ہیں ۔کیا سچ ہے کیا جھوٹ چونکہ میڈیکل سائنس کے معاملے میں ہمارا شمار بھی جاہلوں کی فہرست میں آتا ہے لیکن جب میں علامہ گوگل سے پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ 2000 عیسوی میں ایسا ہی خوفناک جھوٹا پروپگنڈہ ایچ آئی وی پازیٹیو یعنی ایڈز کے تعلق سے بھی کیا گیا تھا اور پھر بعد میں بہت سے میڈیکل سائنس کے ماہرین نے اس کے فراڈ ہونے کا انکشاف بھی کیا ہے ۔گوگل نے ایسے کئی یوروپی مصنفین کے مضامین ضبط کر رکھے ہیں ۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ دنیا کو کنٹرول کرنے والا ایک خفیہ انسانی اور شیطانی گٹھ جوڑ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے سو سال پہلے ہی منصوبہ بندی کر لیتا ہے ۔ان کی سازشوں کو سمجھنا بہت مشکل بھی نہیں ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ جس راستے سے حملہ آور ہیں علماء دین کا ایک بہت بڑا طبقہ اسے بھی صراط مستقیم سمجھتا ہے ۔مجھے بہت یاد نہیں ہے لیکن میرے بازوؤں کے نشان بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں مجھے ٹیکہ لگایا گیا تھا جو آپ میں سے بھی بہت سارے لوگوں کے بازوں پر دائرے کی شکل میں ہوگا ۔یہ ٹیکہ بچوں کو جبراً لگایا جاتا تھا جسے گاؤں کی زبان میں ہم لوگ “چھپہرہ” کہتے تھے ۔بظاہر اس کا مقصد خسرہ کی بیماری پر قابو پانا تھا لیکن اس کے پیچھے بھی ان کے ناپاک مقاصد سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جیسے ہی یہ اعلان کیا گیا کہ خسرہ کی بیماری پر قابو پا لیا گیا ہے ایک ایسی بیماری جو پانچ لاکھ میں شاید ایک بچوں میں پائی جاتی تھی باقاعدہ اشتہارات کے ذریعے اس کا خوف بٹھاکر پوری دنیا میں بچوں کو اس کے ڈراپ پلانے کی مہم شروع ہو گئی۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ چالیس سال پہلے میں اپنے گاؤں اور رشتہ داروں میں ایک بھی شوگر کا مریض نہیں پایا نہ ہی کسی کو شوگر کی دوا کھاتے ہوئے دیکھا مگر پچھلے بیس پچیس سالوں میں جس تیزی کے ساتھ یہ بیماری پھیلی ہے اب ہر چار میں سے ایک آدمی شوگر کا مریض ہے ۔سوال یہ ہے کہ خسرہ اور پولیوں کے نام پر جو ویکسین لوگوں کے جسموں میں داخل کی گئی کہیں شوگر بی پی اور تیزی کے ساتھ پھیلتی ہوئی کینسر اور لقوہ کی بیماری اس کے سائیڈ افیکٹ تو نہیں ؟
اب کرونا کو ہی لے لیجئے کہ اس بیماری سے اسی فیصد اموات انہیں عمر دراز لوگوں کی ہوئی ہے جو پہلے سے شوگر وغیرہ کے مریض تھے اور شوگر کی مسلسل دوا لیتے لیتے ان کے جسم کا مدافعتی نظام یعنی immune system تباہ ہو چکا ہے ۔ یعنی انسانی مٹی کو ایک زمانے سے کسی ایک بیماری کے علاج کے نام پر مختلف بیماریوں کے حملے کی راہ ہموار کی گئی۔مشکل یہ ہے کہ انسانیت کے ان قاتلوں نے خود کو مسیحا کے طور پر پیش کیا اور ہم نے بھی مہذب جانا ۔ یہ کون لوگ ہیں جو ایک طرف دنیا کی آبادی کو کم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں دوسری طرف ایک خوفناک بیماری کی دہشت قائم کرکے کئی منافع بخش تجارت کو فروغ بھی دینا چاہتے ہیں ۔انسانی دنیا کے سامنے یہ اتنا زبردست فتنہ جسے عام آدمی فہم و فراست سے باہر ہے ۔پہلے انہوں نے ایچ آئی وی پازیٹیو کےنام پر کنڈوم کی تجارت کو فروغ دیا اب کرونا کے نام سے ایک تیر سے کئی کامیاب نشانہ لگایا ہے ۔کرونا ٹیسٹ کٹ اور ویکسین تو ٹھیک ہے بہت سارے ہاسپٹل میں نہ صرف وینٹیلیٹر کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے آنے والے وقتوں میں کرونا پازیٹیو کے نام پر مریض کو جو آکسیجن اور وینٹیلیٹر پر رکھا جائے گا اس کے لاکھوں روپئے کے خوبصورت پیکج سے ہاسپٹل مالا مال ہوتے رہیں گے ۔اس کے علاوہ سینیٹائزر ماسک کا فروخت تو ہونا ہی ہے۔ جو خوف اور دہشت لوگوں کے ذہنوں میں بڑھایا گیا ہے انشورنس کمپنیوں کیلئے میڈی کلیم کرانے والوں کی تعداد میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ سرکاریں ہر ٹیکس ادا کرنے والوں کیلئے میڈی کلیم لازمی قرار دے دیں ۔حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ یہ سب کچھ WHO کی ہدایت پر ہو رہا ہے اور مختصراً کہنا پڑ رہا کہ آج کی دجالی دنیا میں کرکٹ کے کھلاڑی سے لیکر ڈاکٹر جیسے مہذب پیشہ افراد بھی جب فارما انڈسٹری کیلئے خوبصورت پیکج کے عوض دوائیں تجویز کر رہے ہیں تو پھر WHO میں بیٹھے ہوئے گوشت پوست کے انسان فرشتے تو ہیں نہیں انہیں برائے فروخت کیوں نہ سمجھا جانے۔جیسا کہ اس پورے معاملے میں بل گیٹس کا نام بہت بار سامنے آیا ہے ۔ممکن ہے کہ بل گیٹس کے ساتھ دنیا کے اور بھی کئی سرمایہ دار شریک ہوں ۔اب The economist کے تازہ شمارے کو غور سے دیکھیں اور اوپر اس کے تبصرے کو پڑھیں ۔Covid..19 The worst lies ahead کرونا کے نام پر ایک زبردست جھوٹ کا ہمیں سامنا درکار ہے !
2. زمین پر جاری “اچھائی” کی روشنی میں کووڈ-١٩ کی حقیقت کیا ہے؟
اس سوال کا جواب بھی پہلے والے سوال پر ہی منحصر ہے کہ کسی قوم کے علماء اور دانشور کہاں تک عصر حاضر کی عالمی سطح پر ہو رہی سیاسی مافیاؤں اور سرمایہ داروں کے گڑھ جوڑ اور ان کی سازشوں سے باخبر ہیں جو دنیا کو اپنے کنٹرول میں کر کے انسانوں کےگلے میں کتے اور بندر کا پٹا پہنا کر اپنی مرضی کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں ۔
نوٹ :- کئی کتابوں کے مصنف اسرار عالم صاحب کے صاحبزادے عدنان فہد نے کرونا وائرس کے تعلق سے کچھ سوالات کے جوابات مانگے تھے جو میں مصروفیت کی وجہ سے وقت پر نہیں بھیج سکا ۔ان میں سے دو سوالوں کا جواب آپ کے سامنے ہے ۔میری خواہش ہے کہ اس تعلق سے اسرار عالم صاحب کی کوئی تصنیف ضرور آئے گی ۔

Recent Posts

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...