
رام مندر کا دوسرا شلانیاس
معصوم مرادآبادی
بابری مسجد کی زمین پر رام مندر بنانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔سپریم کورٹ کے حکم پرتشکیل دئیے گئے مندر ٹرسٹ نے کمان سنبھال لی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی آئندہ پانچ اگست کو مندر کا سنگ بنیاد رکھنے اجودھیا پہنچ رہے ہیں۔اسی کے ساتھ بابری مسجد کے دستوری، قانونی اور اخلاقی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ایک طرف جہاں سی بی آئی عدالت نے بابری مسجد انہدام سازش کیس کے ملزمان کے بیانات مکمل کئے ہیں تو وہیں دوسری طرف شیوسینا نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ”مندر کے سنگ بنیاد سے قبل بابری مسجد انہدام کیس کو خارج کرنا ان کارسیوکوں کو سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا، جنھوں نے مندر آندولن میں اپنی جانیں دی ہیں۔“اسی کے ساتھ ہی مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھوٹھاکرے نے سنگ بنیا د کی تقریب میں شرکت کی منظوری دے دی ہے۔
آئندہ پانچ اگست کو اجودھیا میں ہونے والے ’بھومی پوجن‘ میں ملک بھر سے جن 200 خصوصی مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے، ان میں موہن بھاگوت، لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے علاوہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار بھی شامل ہیں۔واضح رہے کہ یہ رام مندر کا دوسرا سنگ بنیاد ہے۔ اس سے پہلے 9 نومبر1989کو بابری مسجد کے روبرو رام مندر کا شلانیاس ہوچکا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بابری مسجد اپنے مقام پر کھڑی تھی اور اس کے خلاف ملک گیر سطح پر انتہائی زہریلی مہم چل رہی تھی۔ میں اس وقت شلانیاس کی رپورٹنگ کرنے اجودھیا گیا تھا اور سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت وشوہندو پریشد کے اشوک سنگھل اورمہنت اویدھ ناتھ جیسے سینکڑوں لیڈروں نے بلند آواز میں کہا تھا کہ ”ہم آج یہاں صرف رام مندر کا شلانیاس نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہندوراشٹر کاسنگ بنیادرکھ ر ہے ہیں۔“ اس وقت یوپی میں آنجہانی نارائن دت تیواری وزیر اعلیٰ تھے اورانھوں نے ہی راتوں رات بابری مسجد کے سامنے واقع قبرستان کی اراضی کو ’غیر متنازعہ‘ ہونے کی سند دے کر شلانیاس کی راہ ہموار کی تھی۔
یہ تو اس وقت کی باتیں ہیں، جب بی جے پی کے ہاتھوں میں ملک کا اقتدار نہیں تھا اور وہ اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے کے لئے ماحول میں فرقہ واریت کا زہر گھول رہی تھی۔اس مہم کا اصل نشانہ بابری مسجد تھی جسے 6دسمبر1992 کو دن کے اجالے میں شہید کردیا گیا۔ تب سے اب تک بابری مسجد انہدام کا مقدمہ سی بی آئی عدالت میں چل رہا ہے، لیکن اس کا کوئی نتیجہ ابھی تک برآمد نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ جن لوگوں پر بابری مسجد کوشہید کرنے کا الزام ہے،وہ اس وقت اقتدار میں ہیں اور کسی بھی سزا سے بچنے کے لئے قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب سپریم کورٹ بابری مسجد کا مقدمہ فیصل کرنے کی تیاری کررہا تھا تو بابری مسجد انہدام سازش کیس کی تحقیقات کرنے والے یک نفری کمیشن کے سربراہ جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے زور دے کر کہا تھا کہ ملکیت کا تنازعہ حل کرنے سے زیادہ ضروری بابری مسجد انہدام سازش کیس کا فیصلہ کرنا ہے، لیکن ان کی بات ان سنی کردی گئی۔
گزشتہ سال نومبر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت والی دستوری بنچ نے جب رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا تو سبھی انصاف پسند لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالی تھیں۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی بی جے پی کو محسوس ہوا کہ اسے اپنی منزل مل گئی ہے اور اب ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کے خواب میں رنگ بھرنا آسان ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کی سیٹ طشتری میں سجاکر پیش کی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب انھوں نے حلف لیا تو پورا ایوان”شیم شیم“ کے نعروں سے گونج اٹھا۔میرا خیال ہے کہ مجوزہ رام مندر میں جن لوگوں کی تصویریں آویزاں ہو ں گی، ان میں ایک تصویر جسٹس رنجن گوگوئی کی بھی ہوگی، بالکل اسی طرح جیسے بابری مسجد کی دیوار پر فیض آباد کے ڈی ایم کے۔کے نائر کی تصویر آویزاں تھی، کیونکہ مسٹر نائر نے ہی بابری مسجد میں 22دسمبر1949 کو مورتیاں رکھوانے میں بنیا دی کردار ادا کیا تھا۔
رام مندر کا سنگ بنیاد ایک ایسے مرحلہ میں رکھا جارہا ہے، جب سی بی آئی عدالت میں بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت آخری مراحل میں ہے۔ یہاں اڈوانی اور جوشی سمیت تمام ملزمان کے بیانات درج ہوچکے ہیں اور سب نے ہی اس معاملے میں خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی کے سبھی لیڈروں نے ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت عدالت میں یہ بیان دیا ہے کہ انھیں اس مقدمے میں ایک سازش کے تحت پھنسایا گیا ہے اور ان کے خلاف جھوٹے ثبوت گڑھے گئے ہیں نیز کانگریس حکومت نے انھیں سیاسی انتقام کے تحت پھنسایا ہے۔ سبھی ملزمان کے بیا نوں میں حیرت انگیز مماثلت پائی گئی ہے۔ سی بی آئی عدالت کو 31 اگست تک اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنی ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اجودھیاکی خونی تحریک ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کی آگ بھڑکانے کے لئے شروع کی گئی تھی اور اس مقصد میں بی جے پی کو پوری کامیابی حاصل ہوئی، لیکن اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب بی جے پی مرکزکے اقتدار پر پوری طرح قابض ہے تو اسے رام مندر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ایسا کرکے بی جے پی مسلمانوں پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتی ہے اور وہ اجودھیا میں بابری مسجد کی اراضی پر عالیشان رام مندر تعمیر کرکے یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ یہ ملک ان کا ہے اوریہاں سارے فیصلے ان کی مرضی کے مطابق ہی ہوں گے۔ وہ اس معاملے میں انصاف اور قانون کو پہلے سے ہی ٹھینگا دکھاتے رہے ہیں اور اب تو سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت ملک جن سنگین مسائل سے دوچار ہے، ان کا بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ ملک میں اس وقت کورونا وائرس کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں اور ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد تیرہ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس میں ہر دن لگ بھگ پچا س ہزار مریضوں کا اضافہ ہورہا ہے۔اس موذی وبا سے مرنے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ملکی معیشت ہچکولے کھارہی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں بے تحا شہ اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت ان سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل ڈھونڈنے کی بجائے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایک آزمودہ فارمولا ہے جس پر برسوں سے عمل کیا جارہا ہے۔
ایک بڑا سوال جو اس وقت مختلف حلقوں میں گردش کررہا ہے، وہ یہ ہے کہ آیا ایک سیکولر ملک کے وزیراعظم کو ایک ایسے مندر کا سنگ بنیاد رکھنا چاہئے جو اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے سینے پر پاؤں رکھ کر تعمیر کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال دراصل وہ سادہ لوح لوگ پوچھ رہے ہیں جنھیں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ایجنڈے سے واقفیت نہیں ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جتنے بھی کام کئے ہیں، وہ تمام مسلمانوں کو شکست وریخت کا احساس دلانے کے لئے ہی کئے گئے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ مسلسل دویم درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ آج کل ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں جہاں یوگی آدتیہ ناتھ برسراقتدار ہیں، عیدالاضحی کے موقع پر مسلمانوں کو نمازدوگانہ پڑھنے اور قربانی کا فریضہ ادا کرنے کے لئے پابندیوں کا جو پہاڑڈھونا پڑرہا ہے، اس کا اندازہ ان کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا۔جوحکومت اجودھیا میں سینکڑوں لوگوں کو رام مندر کے سنگ بنیاد کے لئے اکھٹا کررہی ہے، وہ نمازپڑھنے کے لئے پانچ آدمیوں سے زیادہ کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔حال ہی میں جب ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے یہ بیان دیا کہ نمازایک عبادت ہے اور نماز پڑھنے سے کورونا دور ہوگا تو بی جے پی کے لوگ انھیں جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ان کے ساتھ وہ میڈیا بھی کھڑا ہوگیا جو تالی، تھالی اور موم بتیاں جلاکر کورونا وائرس کو بھگانے کی تصویریں بڑی عقیدت سے دکھاتا رہا ہے۔
این سی پی صدر شرد پوار نے رام مندر کے سنگ بنیاد کے معاملے میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ مندربننے سے کورونا ختم ہوجائے گا۔ سرکار کو اس کے بجائے لاک ڈاؤن سے پہنچے نقصان کی فکر کرنی چاہئے۔ اس دوران شنکر اچاریہ سروپا نند سرسوتی نے رام مندر کے بھومی پوجن کے لئے طے کی گئی تاریخ پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ شنکر اچاریہ کا کہنا ہے کہ”بھگوان رام کا عظیم الشان مندر بننا چاہئے، اس میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ سیاست کی وجہ سے ہندوؤں کے کئی ایشوز کھٹائی میں پڑجاتے ہیں۔جس تاریخ میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے، وہ گھڑی مناسب نہیں ہے بلکہ یہ اشبھ (منحو س وقت)ہے۔ نرسنگھ پور ضلع کے اپنے آشرم میں شنکر اچاریہ نے کہا کہ سناتن مذہب کی اصل بنیاد وید ہیں۔ ویدوں کے مطا بق کئے گئے عمل یگیہ کہے جاتے ہیں جو پوری طرح کال(وقت)کی شماری پر مبنی ہیں۔ کال شماری اور خاص وقت کے مبارک اور منحوس ہونے کا علم جیوتش شاستر سے ہوتا ہے۔اسی لئے جیوتش کو ویدانگ کہا گیا ہے۔ اسی لئے سناتن دھرم کے پیروکاراپنے کام مبارک وقت میں شروع کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ”آج سناتنی سماج افسردہ ہے کہ پورے ملک کے کروڑوں لوگوں کی عقیدت کے مرکزرام مندر کی تعمیربغیر شبھ مہورت کے شروع کی جارہی ہے۔ اس من مانی سے اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں مندر نہیں آرایس ایس کا دفتر بنایا جارہا ہے۔“