
دو مسجدیں اورشہید ہوگئیں
ڈاکٹر علیم خان فلکی
پہلے یہ تو ہوتا تھا کہ اگر کوئی مسجد گرتی تو کسی نہ کسی اخبار، پورٹل یا ٹی وی پر ایک صدائے احتجاج تو بلند ہوتی تھی۔ لیکن حیدرآباد جیسے شہر کے بیچوں بیچ دو مسجدیں منہدم کردی جاتی ہیں لیکن نہ کوئی احتجاج بلند ہوتا ہے نہ کہیں کوئی دکھ یا افسوس۔ ہاں حکومت اور مسلم قیادت کی چالبازی کے خلاف ایک غصہ تو ظاہر ہوا لیکن مسجد کی شہادت کا دکھ کہیں بھی ظاہر نہیں آیا۔ لوگوں کا رویہ ایسا تھا جیسے”جس کا گھر تھا وہی اگر خاموش ہے تو ہم کیا کریں“؛ قصہ یہ ہوا کہ تلنگانہ سکریٹریٹ Secretariatجن مساجد کی وقف زمین پر بنایا گیا تھا، اب اسی سیکریٹریٹ کی جدید تعمیر کے لئے مسجدیں رکاوٹ بن گئیں تو مسجدوں کا صفایا کردیا گیا۔ ہم کو مسجد کا ماتم کرنا نہیں ہے، ماتم اس سے بھی کہیں زیادہ بڑے ایک اور سانحہ پر کرنا ہے۔ کیوں کہ ہم اس کے علاوہ اب اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ ہاں کچھ اخباروں میں لکھ کر دل کی بھڑاس نکال لینے سے یہ فائدہ ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو اردو کی آخری قاری نسل ہے، جو اب پچپن ساٹھ سال میں داخل ہورہی ہے، اخبار پڑھنا کچھ تبصرے کرلینا جن کی ہابی ہے، ان کو کچھ تازہ غذا مل جاتی ہے۔ اصل سانحہ کیا ہوااس پر گفتگو کرنے سے پہلے، مسجد کے بارے میں تھوڑی تفصیل بتاتے چلیں کہ یہ دو مسجدوں میں سے ایک مسجد ہاشمی تھی جو 1947 سے بھی بہت پہلے نواب میر عثمان علی خان کے دورِ حکومت میں تعمیر کی گئی تھی، دوسری مسجد سیکریٹریٹ کہلاتی تھی، ہر ایک کے حصے میں کافی زمین وقف تھی، جس پر آندھراپردیش سکریٹیریٹ تعمیر کیا گیا تھا،جو بعد میں تلنگانہ سیکریٹریٹ بن گیا۔
مسجدیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ گرائی گئیں، اطراف و اکناف کی سڑکوں کو بند کردیا گیا، امام اور مؤذنوں کو تین دن پہلے سے ہی مسجد آنے سے منع کردیا گیا تھا، چونکہ سکریٹریٹ کی تعمیر کا کام جاری تھا اس لئے مؤذن اور اماموں کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ انہیں خداحافظ کرکے مسجدیں مکمل زمین دوز کردی جائینگی۔ یہ کام اتنا منظّم ہوا کہ باہر کی دنیا کو خبر ہوتے ہوتے ایک ہفتہ لگا، کیونکہ تفصیلی واقعہ نہ کسی اخبار میں آیا نہ کسی سوشیل میڈیاپر، کیونکہ اس علاقے کے اطراف کے اونچی عمارتوں کے چھت بند کروادیئے گئے تھے، اور کام کرنے والوں کو موبائیل لے جانے سے سخت منع کردیا گیاتھا۔
بعد میں جب لوگوں میں بے چینی پیدا ہوائی تو چیف منسٹر نے پہلے کہا کہ مسجدیں غلطی سے شہید ہوگئیں، لیکن اس سے بھی خوبصورت مسجد تعمیر کروادی جائیگی۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی صاحب جو اسی قسم کے بیانات دے کر عوام کو چپ کرواکر وقت گزروا دینے کے کام پر رکھے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی طرح کی شاندار مسجد تعمیر ہوگی۔ اویسی صاحب جو شہر کے ایم پی ہیں ان کا چیف منسٹر کے نام مبارکبادی اور شکریہ کا ایک ٹویٹ جاری ہوا اور اس کے بعد چند ایک دیوانے چِلّاتے رہ گئے، اور اب وہ مسجدیں ایک داستانِ پارینہ ہوگئیں۔اگرچہ کہ کانگریس اور مسلم شبّان کے کچھ مسلم نوجوانوں نے محدود گروپ میٹنگس، سوشیل میڈیا اور جھنڈیوں کے ذریعے سڑکوں پرگاہے گاہے کچھ احتجاج جاری رکھا،، لیکن ان کا یہ احتجاج ایک سیاسی مخالف پارٹی کے لوگوں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے بہت آسانی سے نظر اندازکردیا گیا۔ رسماً ایک دو جماعتوں نے واٹس اپ اور فیس بک پر مسجد کو اسی جگہ بنانے کا مطالبہ کیا، اور ایک دو حضرات کورٹ بھی گئے، لیکن حکومت کا رویہ یہ ہے کہ ”جاؤ جو ہمارا بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو“، کیونکہ NRC & CAA کے احتجاج کے زمانے سے پولیس کی دہشت جو ذہنوں میں بٹھانے کی ریہرسل کی جارہی تھی اب پوری کام آئی۔
اب ان سوالات پروظیفہ یاب فارغ حضرات بحث کرتے رہیں کہ اگر غلطی سے مسجدیں شہید ہوئیں تو کیا خاطی کے خلاف پولیس رپورٹ ہوئی؟ اگر سب کچھ غلطی سے ہوا تو کیا مسجدیں اسی مقام پر بنائی جائنگی؟ تعمیر کا نقشہ جو جاری کیا گیا ہے اس میں دو کے بجائے صرف ایک مسجد ہے جو اپنے اصل مقام پر نہیں بلکہ کہیں اور ہٹ کر ہے۔ اصل مسجد کی جگہ سڑک بننے والی ہے۔
مسجدیں غلطی سے گریں یا دانستہ منصوبہ بندی سے گرائی گئیں یہ راز اس طرح فاش ہوگیا کہ وہاں ایک مندر بھی تھی جو منہدم کردی گئی، حیرت اس بات پر ہے کہ مندر کے لئے نہ کوئی احتجاج ہوا، نہ لوگ سڑک پر آئے، جب کہ بی جے پی نے شہر میں ماحول کو اس قدر فرقہ وارانہ اور زہریلا کیا ہوا ہے کہ اگر غلطی سے بھی کوئی کار کسی مندر کی دیوار سے ٹکرا جائے تو یہ لوگ سڑکوں پر نکل کر ہنگامے برپا کرڈالتے ہیں، لیکن ایک مندر گرادی گئی اور یہ لوگ خاموش رہے۔ سنا یہ گیا کہ انہدام سے پہلے پجاریوں نے خود مورتیاں ہٹائیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسجدیں اور مندر کے انہدام سے پہلے ہندو اورمسلم دونوں طرف کے خاص خاص لیڈروں کو اعتماد میں لے لیا گیا جس طرح بابری مسجد کے فیصلے کے وقت ہوا تھا۔ ایک سوال پھر بھی یہ اٹھتا ہے کہ مندر کی مورتیاں تو بحفاظت ہٹوائی گئیں لیکن مسجدوں کی جانمازیں، قرآن اور دیگر چیزیں کیا اٹھا کر رکھی گئیں یا ڈمپ کردی گئیں؟امام اور مؤذن حضرات سے تاحال کسی کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ انہیں کسی سے بھی بات کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
مسجد یں شہید کرنے کی وجہ اگر سڑک کی تعمیر، یا اس کی جگہ ایک بڑی مسجد کی تعمیر، یا کوئی اور مثبت تعمیری منصوبہ ہوتا تو شائد اتنا دکھ نہ ہوتا، کیونکہ سعودی عرب میں بھی ہم نے دیکھا کہ وہاں اگر کبھی کوئی مسجدگرائی بھی جاتی تو کسی مثبت تعمیری مقصد سے، لیکن اس کی جگہ کہیں زیادہ شاندار مسجد وجود میں بھی آجاتی۔ لیکن سکریٹیریٹ کی مسجدیں جس مقصد سے گرائی گئی ہیں، اس کے پیچھے جو مقصد کارفرما تھا وہ مسلمانوں کے لئے، یعنی امتِ ابراہیمی کے لئے جس کی بعثت کا مقصد شرک کو مٹانا اور بتوں کو توڑنا تھا، ایسی امت کے لئے انتہائی باعثِ شرم ہے۔ اور اس سے غفلت کا عذاب دنیا اور آخرت دونوں میں ذلت اور رسوائی ہے۔ چیف منسٹر صاحب کا واستو پر عقیدہ ہے، اور سکریٹیریٹ کی عمارت کی تعمیر واستو کے مطابق نہیں ہوئی تھی۔ ہوئی تو تھی لیکن اس وقت کے چیف منسٹر جن پنڈتوں کو مانتے تھے ان کے مطابق واستو کچھ اور تھا اور اب یہ چیف منسٹر صاحب جن پنڈتوں کو مانتے ہیں ان کا واستو الگ ہے۔ یہ ایک مشرکانہ عقیدہ ہے۔ اگر اس عقیدے میں کوئی برائی نہیں بھی ہے تو یہ ایسا عقیدہ بھی نہیں کہ اس کے لئے اچھی خاصی عمارتوں کو گرا کرسینکڑوں کروڑ روپیہ برباد کرکے، اس کے لئے مسجدوں کو شہید کرکے نئے واستو کے مطابق عمارت بنائی جائے، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ کرونا اور اس کے بعد کے حالات کی وجہ سے لوگ بھوکے مررہے ہیں، بے روزگاری اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ کارپوریٹ دواخانے لوٹ مچائے ہوئے ہیں، کئی اسکول اور کالج بند ہوچکے ہیں، خود حکومت کے پاس تنخواہیں دینے پیسہ نہیں ہے،، ایسے وقت میں عوام کا پیسہ عوام کے نازک وقت پر کام آنے کے بجائے ایک شخص کے مذہبی عقیدے پر برباد ہورہا ہے۔، یہ سب سے زیادہ افسوسناک بات ہے۔ اور ایسے مشرکانہ عقائد کی بنیاد پر ایسے پروجیکٹ کی حمایت میں خود مسلم قائدین کا خاموش رہنا پوری امت کے لئے باعثِ شرم ہے۔
اصل سانحہ
ان سوالات کے جوابات نہ تو ہمیں چیف منسٹر سے چاہئے، نہ مسلم قیادت سے۔ جوابات ہمیں جوابات معلوم ہیں۔ اب حکومت اور مسلم قیادت کو اچھی طرح علم ہے کہ مسلمان بڑے سے بڑے حادثے پر کتنا شورپکارا کریں گے، تقریروں یا بیانات میں کیا کہیں گے، اردو اخباروں یا سوشیل میڈیا پر کیا لکھ لیں گے۔ انہیں اس کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ سب پڑھنے والے یا سننے والے کون ہیں، کتنا دم رکھتے ہیں، چونکہ نیشنل میڈیا سوائے اردو کے کہیں بھی انہدام کے خلاف ایک لفظ بھی آنے نہیں دے گا، یہ اردو والے اردو اخبارات میں چیخ کر چلّا کر خاموش ہوجائینگے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایسے حادثات ایک یا دوہفتہ سے زیادہ خبروں میں نہیں رہتے، جوں ہی ایک اور واقعہ ہوا لوگ نادان بچے کی طرح ہوتے ہیں، پرانا واقعہ بھول کر نئے واقعہ میں کھوجاتے ہیں، ابھی مسجد گری، لوگ بات کرہی رہے تھے، ٹی وی اور سوشیل میڈیا پر امیتابھ بچن کے کرونا کی وجہ سے دواخانے میں شریک ہونے کی خبر پر گفتگو کرنے لگے، کیا اس بھانڈ کا کرونا کا شکار ہونا اور دواخانے میں شریک ہوناکوئی نیشنل خبر ہے؟ لیکن واٹس اپ اور فیس بک کے بیماروں کے لئے ضرور اہم خبر ہے۔ ہر روز نئی نئی خبروں کو صرف فارورڈ کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجانا جس قوم کی زندگی کا چلن بن جائے اب اس قوم کو جگانے کے لئے صرف حضرت اسرافیل کا صور ہی کام کرے گا۔ یہ سلسلہ اب یوں ہی چلنے والا ہے، کچھ دنوں میں متھرا اور کاشی کی مسجدوں کا فیصلہ آئے گا، بابری مسجد کی جگہ مندر کا سنگِ بنیاد رکھا جائیگا، اور پورے ہندوستان کے فرقہ پرست جمع ہوکر اپنی قوت کا مظاہرہ کریں گے، بقرعید پر کچھ جانوروں کو لے کر کچھ مقامات پر مارپیٹ ہوگی، ان تمام واقعات کا مقصد اب مسلمانوں کو آکسیجن سے کوما میں بھیجنے کا مکمل بندوبست کرنا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ حیدرآبا د تو مسلمانوں کا وہ شہر ہے جواگر کسی بھی جگہ کے مسلمان پر کچھ آنچ آئے، اسکے خلاف آواز اٹھانے میں سب سے پہلے ہوا کرتا تھا،ملین مارچ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ لیکن اچانک یہ کیا ہوا کہ اپنے ہی شہر کی مسجدیں شہید ہوگئیں لیکن ہر شخص اس لئے خاموش ہے کہ وہ یہی سوچ رہا ہے کہ جب قیادت خاموش ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ وہ قیادت جس کی ایک آواز پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے تیار ہوجاتے، وہ آواز ہی مصلحت کی چادر اوڑھ کر پتہ نہیں کس گلی کی ہوگئی۔قیادت اور اس کے ساتھ دینے والی جماعتیں سمجھدار ہیں، انہوں نے جب دیکھ لیا کہ قوم اتنی غفلت کا شکار ہے کہ اب سڑکوں پر نہیں آئے گی، تو انہوں نے یہ کیا کہ قوم کی اس غفلت کا سودا کرلیا۔
کیونکہ انہیں بھی اور حکومت کو یہ معلوم ہے کہ ان منہدم کی جانے والی مسجدوں میں مصلی کتنے آتے تھے۔ جب اللہ کا گھر یوں بھی ویران پڑا رہتا تھا،تو ایسا گھر دشمن کی نظر میں کیوں نہیں کھٹکتا؟ اس لئے مسجدیں جب منہدم ہوئیں، کئی مسلمان ملازمین نے بھی دیکھا، لیکن کیوں کسی نے احتجاج نہیں کیا، کیوں کسی کی غیرتِ ایمانی اور حمیّتِ قومی نہیں جاگی، کیوں انہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی؟ سکریٹریٹ کو کسی نہ کسی کام سے جانے والے ہزاروں افراد ہیں، کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ کبھی اذان کی آواز سن کر کسی نے مسجد کا رخ کیا تھا؟ یہ اصل سانحہ ہے۔
یوگی پولیس اور دہلی پولیس ایک ایسا ماڈل بن چکا ہے جس کا خوف ہر ریاست پر چھاگیا ہے۔ کسی اور پر ہو نہ ہو، مسلمانوں کے ذہن پر تویہ خوف اچھی طرح بیٹھ چکا ہے۔نرسمہاراو کی تصویریں شہر میں جگہ جگہ لگادی گئیں کوئی کچھ نہ کرسکا، اور ایک شخص جو بابری مسجد کے انہدام کی سازش کا اصل سرغنہ تھا۔ جس کا تعلق نہ حکمران جماعت سے ہے نہ مسلم قیادت سے، اس کے باوجود اس کی تقاریب پر کروڑوں روپیہ برباد کیا جارہا ہے، یہ عوام کی بزدلی اور حکومت کی ہٹ دھرمی اور ڈکٹیٹرشپ کا کھلا ثبوت ہی نہیں سخت وارننگ ہے۔ اب گھر گھر سے صفورہ، کفیل، شرجیل اگر پکڑے جائیں گے تو سوائے سوشیل میڈیا پر لوگ تبصرے کرنے کے اور کچھ نہیں کرینگے۔ اگر پڑوس کا بچہ بھی گرفتار ہو جائے تو پڑوسی گھر سے نکل کر پولیس والوں سے بات نہیں کرے گا بلکہ فیس بک یا ٹویٹر پر سوال کرے گا، جب کہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ سوشیل میڈیا ایسے ہی ان تمام کچہرا لوگوں کا اڈّہ ہے جو ٹائم پاس کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ یہاں جو چاہے لکھ لو، جو چاہے کہہ لو، حکومت ہو کہ پولیس، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب زو کے جانوروں کی طرح ہوتے ہیں جو چنگھاڑتے ضرور ہیں، لیکن ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، یہ تو پنجروں میں بند ہوتے ہیں۔ ہاں پنجرے سلاخوں کے نہیں ہوتے، خوف کے پنجرے ہوتے ہیں، قانون اور جیل کے خوف کے، بچوں کے مسقتبل کے خوف کے، یا پھر لالچ کے پنچرے ہوتے ہیں۔ کسی اردو اکیڈیمی یا مقامی حج یا اوقاف کی صدارت کا لالچ، کارپوریٹر یا اسمبلی کے ٹکٹ کا لالچ کے پنچرے ہوتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح چونکہ معلوم ہے کہ اب چاہے مسجدیں شہید کردو، چاہے فیک انکاؤنٹر کرڈالو، چاہے ان کی اکنامی اور روزگار یا تعلیم تباہ کرڈالو، چاہے نرسمہاراؤ کے پوسٹر سارے شہر میں لگوادو چاہے اس کی سالگرہ تقاریب پر کروڑوں روپیہ خرچ کرڈالو، نہ مسلمان کچھ کرسکتے ہیں نہ دلت اور نہ دوسری ذاتیں۔ اس لئے ہمیں نہ چیف منسٹر سے سوالات کرنے ہیں اور نہ مسلم قیادت سے اور نہ مسلم قیادت کے پیچھے چلنے والوں سے۔ یہ سب سمجھدار لوگ ہیں۔
انقلابات صرف Masses سے آتے ہیں۔ جب تک لوگ سر پرکفن باندھ کر سڑکوں پر نہ نکلیں کوئی انقلاب نہیں آسکتا۔ اب جو لوگ اپنے سروں کو بچانے کی فکر میں اپنی زبانوں کو بند کرچکے ہیں، ہمتوں کو معطّل کرچکے ہیں وہ دراصل یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ کل ان کی نسلیں ماتحت اور غلام ابن غلام ابن غلام بن کرہی اس دیش میں رہیں گی۔
بہرحال دو مسجدوں کی شہادت پر یہ قبرستان جیسی خاموشی اب مستقبل میں کئی اور مسجدوں کی شہادت اور اس سے زیادہ اہم یہ کہ ہمت، عزائم اور حوصلوں کی موت کا پیغام دے رہی ہے۔ امید کی ہمیں کوئی کرن اس لئے نظر نہیں آتی کہ ایسے کئی مضامین پڑھ کر لوگ راقم الحروف کو فون کرکے خوب سراہتے ہیں، لیکن جتنے فون آتے ہیں وہ تمام یا تو ریٹائرڈ لو گوں کے ہوتے ہیں، حسرت رہ گئی کہ کبھی کوئی نوجوان لڑکے یا لڑکیاں فون کرلیں جن کے لئے یہ مضامین لکھے جاتے ہیں۔ انہیں نہ مسجدوں کے انہدام کی پروا ہے نہ خود ان کے اپنے دین، کلچر، تاریخ اور قومی شان کی فکر ہے اور نہ انہیں یہ فکر ہے کہ کل کے ہندوستان میں ان کی حیثیت کیا ہوگی۔ اب انہیں کوئی یہ کیسے بتائے کہ کل کے ہندوستان میں ان کی حیثیت ہریجنوں سے بھی بدتر بنانے کی پوری منصوبہ بندی ہوچکی ہے۔ یہی سب سے بڑا سانحہ ہے۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں