’سو برس‘ کے مودود صدیقی

معصوم مرادآبادی
معصوم مرادآبادی

معصوم مرادآبادی
مودود صدیقی کے چاہنے والوں کے لئے خوش خبری یہ ہے کہ ماشاءاللہ انھوں نے اپنی زندگی کے 85 سال مکمل کرلئے ہیں اور اب وہ عمر کی 86ویں منزل میں داخل ہورہے ہیں۔ فارسی کی مشہور کہاوت ہے کہ انسان کی بزرگی کو ناپنے کا پیمانہ اس کی عقل ہوتی ہے نہ کہ عمر۔لیکن جب یہ دونوں چیزیں مل کر ایک ساتھ سفر کرتی ہیں تو دوآتشے کا لطف دیتی ہیں۔مودود صدیقی اپنی زندگی کے تجربات اور حوادث کے اعتبار سے منفردحیثیت کے حامل ہیں۔وہ بنیادی طور پر ایک محنت کش اوردردمند انسان ہیں اور 85 برس کا ہونے کے باوجود ان کے اندر محنت کرنے اور لوگوں کے کام آنے کا جذبہ سردنہیں ہوا ہے۔دردمندی، دل داری اور جاں سوزی ان کے مزاج کے اجزائے ترکیبی ہیں۔اپنے متعلقین کی خبر گیری کرنا اور ان کے مسائل کو اپنی سکت سے آگے بڑھ کر حل کرنے کی کوشش کرناکوئی ان سے سیکھے۔غریبوں،حاجت مندوں کے کام آنا اور اپنے دوستوں کو اس میں شریک کرنا بھی انھیں بہت پسند ہے۔وہ اپنے دوستوں سے جس خلوص اور محبت کا والہانہ تعلق رکھتے ہیں، اس کی توقع وہ ان سے بھی رکھتے ہیں۔اگرچہ اس راہ میں کبھی کبھی انھیں تلخ تجربات سے بھی گزرنا پڑتا ہے، لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور ہیں۔انھیں عدم کا یہ شعر بہت پسند ہے۔
اے عدم سب گناہ کر لیکن
دوستوں سے ریا کی بات نہ کر
مودود صدیقی سے میری ملا قاتوں کا دورانیہ کوئی چالیس برسوں پر محیط ہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات 1980 میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ رسالہ ” نگار” سے وابستہ تھے۔ اس دوران میں نے انھیں مختلف اور متنوع کرداروں میں دیکھا ہے۔ وہ مجھے ہر کردار میں جچتے ہوئے نظر آ ئے۔ میں ان کی خوبیوں کا خوشہ چیں رہا ہوں۔ یقین مانئے میں نے ان سے زندگی میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان میں سب سے بڑی چیز ہے کام کرنے کا سلیقہ اور اپنے وقت کو برباد نہ کرنے کا ہنر۔ وہ زندگی میں سخت ڈسپلن کے پابند انسان ہیں۔ میری طرح نہ جانے کتنے لوگوں نے ان سے یہ ہنر سیکھا ہوگا۔ ان کی زندگی میں نہ جانے کتنے نشیب وفرازآئے اور نہ جانے کتنی اذیتوں کو انھوں نے اپنے مختصر سے وجود پر جھیلا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشکلات اور حوادث میں انھوں نے ثابت قدم رہنے کا جو حوصلہ دکھایا، اس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
جو لوگ مودود صدیقی کو نہیں جانتے ان کے لئے یہ سوال اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے کہ مودود صدیقی کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔اگر آپ دہلی میں رہتے ہیں اور اردو صحافت اور ادب سے آپ کو کوئی دل چسپی ہے تو مودود صدیقی کے بارے میں نہ جاننا آپ کی کم علمی کا ہی ثبوت مانا جائے گا۔ مودود صدیقی نہ تو کوئی بڑے آدمی ہیں اور نہ ہی وہ گھوڑے گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔ پہلے وہ ڈی ٹی سی کی بسوں کی خاک چھانتے تھے اور اب سائیکل رکشا ان کی محبوب سواری ہے، جس میں بیٹھ کر وہ بلا ناغہ تراہا بہرام خاں سے چل کراپنے دستوں اور خیر خواہوں کی خیریت دریافت کرتے ہوئے کوچہ دکھنی رائے (دریا گنج) میں واقع ’اخبارنو‘ اور سابق ممبر پارلیمنٹ جناب م۔ افضل کے دفتر پہنچتے ہیں۔دفتر میں بیٹھنے کا دورانیہ اب آٹھ گھنٹے کی بجائے چار گھنٹے ہوگیا تھا جو لاک ڈاؤن میں گھٹ کر صفر کی برابر رہ گیا ہے۔مودود صدیقی کی اصل بے چینی اور اضمحلال کا سبب دفتر سے ان کی دوری ہے، جو وبا کے ان دنوں میں ان کی صحت کے لئے ضروری بھی ہے، لیکن وہ کیونکہ مجلسی انسان ہیں، اس لئے گھر میں ان کا دل کم ہی لگتا ہے۔دفتر سے دوری کا ازالہ وہ فون کے ذریعہ کرتے ہیں جو ہمیشہ سے ان کا محبوب انسٹرومنٹ رہا ہے۔دفتر ان کی اور وہ دفتر کی سب سے بڑی کمزوری ہیں، کیونکہ ان کی ذات دفتر کے نظم وضبط کے جس سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے، اس میں دفتر کے بغیر ان کا اور ان کے بغیر دفتر کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔وہ نہ جانے کہاں سے اپنے لئے اتنا کام نکال لیتے ہیں کہ وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔اگلی صبح جب وہ دفتر آتے ہیں تو پھر اتنا ہی کام ان کا منتظر ہوتا ہے۔انھیں دیکھ کر اکثر مجھے حسن نعیم کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
کوئی مجھ سے پوچھتا ہے روز اتنے پیار سے
کام کتنا ہوچکا ہے، وقت کتنا رہ گیا
وقت اور کام کے درمیان توازن قایم رکھنے کا ہنران میں جتنا زیادہ ہے اتنا شاید ہی کسی اور میں ہو۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک وقت میں کئی کام ایک ساتھ کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ وقت نے کئی بار ان سے آگے نکلنے کی کوشش کی مگر میں نے دیکھا کہ انھوں نے ہی اس پر قابو پالیا۔یہ وقت وہ نہیں ہے جس کی ہر شے غلام ہے بلکہ وہ ہے جو گھڑی کی دو سوئیوں کے درمیان گردش کرتا ہے۔مودود صدیقی کی یوں توکئی ایسی خوبیاں ہیں جو آج کے زمانے میں آپ کو کم ہی لوگوں میں ملیں گی۔ لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کی خبر گیری کرنے کا نرالا اندازہے اور وہ بھی بڑی تندہی اور ذمہ داری کے ساتھ۔اس شہر ناپرساں میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگاجو اتنی پابندی کے ساتھ اپنے گردوپیش کے لوگوں کی خبرگیری کرتا ہو اور ان کے کام آنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ لاک ڈاؤن سے پہلے جب وہ پابندی سے دفتر جایا کرتے تھے تو وہاں لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ ایک جاتا تھا اور دوسرا آتا تھا۔ دفتر کا ماحول بھی عجیب و غریب ہوتا۔ان کی یادداشت اتنی اچھی ہے کہ آدمی کو دیکھ کرانھیں اس کا کام فوراً یاد آجاتا ہے۔بائیں ہاتھ میں فون کا ریسیور، دائیں ہاتھ میں قلم، کونی کے نیچے فائل اور نظریں سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے ہم کلام۔ اس دوران کوئی نیا ملاقاتی آپہنچے تو اس کے بیٹھنے اور اس کی چائے کا بندوبست کرنا بھی نہیں بھولتے۔ یہ سب کاموں کو اتنی چابک دستی سے انجام دیتے ہیں کہ ان سے کبھی کسی کو شکایت نہیں ہوئی۔مجال ہے کہ جو بات فون پر کرنی ہے، وہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی بات سے ٹکرا جائے یا جو کام فائل یا ڈائری میں انجام پارہا ہو، وہ ایک دوسرے میں خلط ملط ہوجائے۔
میں یہ تحریر مودود صدیقی کی 85 ویں سالگرہ پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے لکھنے بیٹھا ہوں۔آپ اس کی سرخی دیکھ کرضرور چونکے ہوں گے کہ میں نے 15برس پہلے ہی انھیں” سو برس” کا کیوں لکھ دیا ہے۔ ”سوبرس“ درحقیقت اس ادبی رسالہ کا نام تھا جو برسوں پہلے انھوں نے اپنے دوست اور مشہور شاعر نشتر خانقاہی کے ساتھ مل کر نکالا تھا۔ رسالہ چونکہ بہت معیاری تھا اس لئے زیادہ دنوں چل نہیں سکا۔ اس دور میں زیادہ معیاری چیزوں کا یہی حشر ہوتا ہے، کیونکہ یہ زماننہ معیار کا نہیں بلکہ مقدار کا ہے۔اگر آپ مودود صدیقی کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کی پوری عمر اخبارات و رسائل کی زلفیں سنوارتے ہوئے گزری اور وہ اس کام میں اتنے منہمک رہے کہ انھیں خود اپنی زلفیں سنوارنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ دہلی کے کسی کامیاب اخبار اور رسالہ کا نام لیجئے تو اس کی صورت گری کے پیچھے آپ کو مودود صدیقی کی کاریگری کا ہنر ضرور نظر آئے گا، لیکن وہ بچپن سے کچھ شرمیلے واقع ہوئے ہیں۔ اس لئے انھوں نے ہر اس مقام پر اپنے آپ کو پیچھے رکھا جہاں انھیں آگے ہونا چاہئے تھا۔ مشہور زمانہ رسائل اور جرائد میں ’بیسویں صدی‘، ’آستانہ‘ ’نگار‘ اور مشہور اخبارات میں ’پیام مشرق‘، ’ایشیاء‘،’عوام‘ اور ’اخبارنو‘ کے علاوہ کتنے ہی اخبارات و جرائد ہیں جن میں انھوں نے خدمات انجام دیں اور انھیں چار چاند لگائے، لیکن ان سے اپنی محنت کا معاوضہ وصول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں لیا۔انھوں نے جن شخصیات کے ساتھ کام کیا اوران کی رفاقت نصیب ہوئی ان میں سابق گورنر محمد عثمان عارف نقشبندی، میر مشتاق احمد، مولانا امتیاز علی عرشی ، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ،سید شہاب الدین ، شمیم احمد شمیم ، مہدی نظمی ،مدثر حسین رضوی، مجتبیٰ حسین، سعید سہروردی، نازانصاری، خو شتر گرامی، م۔ افضل، ڈاکٹر رضوان احمد ، رحمن نیّر، مستحسن فاروقی،انورعلی دہلوی، عبدالباقی(ایم اے) ، نشتر خانقاہی، سید شریف الحسن نقوی، جسٹس سہیل اعجاز صدیقی،ڈاکٹر شریف احمد، ڈاکٹر خلیق انجم، اظہر عنایتی، ڈاکٹر فیروز دہلوی، ایس اے رحمن اور عظیم اختر وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ہم جیسے جونیر ساتھیوں کی تو ایک لمبی فہرست ہے جس میں سینکڑوں نام آتے ہیں۔دوستی کے معاملے میں وہ مولانا امتیازعلی عرشی کے اس قول کو اپنا رہنما بنائے ہوئے ہیں کہ ”جب کسی سے دوستی کرو تو اس کی خامیوں سے بھی دوستی کرو۔“حالانکہ اس معاملہ وہ کبھی کبھی دوسرا رویہ بھی اختیار کرتے ہیں، لیکن ایسا غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے۔ ان سے دوستی کرنا ان معنوں میں جوکھم بھرا کام ہے کہ جن لوگوں کو وہ ان کے برے اطوار کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں، ان کے بارے میں اپنے دوستوں سے بھی اسی رویے کی امید کرتے ہیں۔ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہ بنیادی طور پر مصلحتوں اور مفاد پرستی کا دور ہے، لیکن مودود صدیقی کی لغت میں یہ دونوں ہی الفاظ ناپید ہیں۔ وہ منافقین کو بھی پسند نہیں کرتے ۔ وہ بنیادی طور پر پرانی وضع قطع کے ایک کھرے انسان ہیں۔ خدا ان کا یہ کھرا پن ہمیشہ برقرار رکھے اور وہ کم ازکم اپنی عمر کے ’سو برس‘پورے ہونے تک ہم جیسے نااہلوں کی سرپرستی فرماتے رہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *