ہارون روح الّلہ مدنی
والد صاحب نے کسی زمانے میں ایک پلاٹ خریدا تھا.جس کو 2004 میں انھوں نے فروخت کیا.سودے سے معقول آمدنی ہوئی.پلاٹ کے سودے کے بعد بابا گھر آئے تو کافی خوش خوش لگ رہے تھے۔بولے دل چاہتا ہے ,تم سب کو عمرہ کرا دوں.ہم خوشی سے جھوم اٹھے اور اگلےروز ہم سب بہن بھائی اور والدہ نے پاسپورٹ کے لیے درخواست جمع کرادی.چند دنوں بعد پاسپورٹ بن کر آگئے اور ہم کچھ دنوں بعد عمرہ کے لیے عازم سفر ہوگئے.عمرہ بذات خود ایک بہت بڑی سعادت ہے۔لیکن جب آپ کے ہمراہ والد والدہ بھائی بہن ہوں تو اسکا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔میں ان دنوں عمر کے 18ویں سن میں تھا۔سو بعض معاملات کا شعور رکھتا تھا. مکہ مکرمہ قیام کے دوران میں حرم سے زیادہ فائدہ تو نہ اٹھا سکا لیکن ایک بات کا اہتمام ضرور کرتا رہا.کہ جب کبھی والدہ سے دوران طواف ملاقات ہو جاتی تو والدہ کا ہاتھ پکڑ کر ملتزم کے سامنے کھڑا ہو جاتا۔والدہ حیرانگی سے پوچھتی کہ کیا ہے ،میں کہتا ،امی میرے لیے دعا کر دیں ،یہاںتو ملتزم کے ساتھ کھڑے ہو کر اماں دعا کرتی جاتیں اور میں امین کہتا جاتا۔ہمارے والد بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ تھے۔مجھے والد سے شدید محبت ہے لیکن میں کبھی اس کا اظہار نہیں کر سکا۔طواف کے دوران کئی بار آمنا سامنا ہوا۔ہم ایک دوسرے کی طرف ہنس کر آگے نکل جاتے۔میرا بس نہیں چلتا تھا کہ کیسے والد کا ہاتھ پکڑوں اور ان سے دعا کا کہوں.والد صاحب حرم میں اپنا ٹائم بہت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں۔بابا مدینہ یونیورسٹی کے فاضل ہیں،سو کافی عرصہ وہاں رہے ہیں۔اس دوران حرمین میں قیام کے دوران والد کی ایک عادت develop ہوئی کہ وہ دوران طواف قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ،حافظ ہیں سو ایک دن کی فجر سے قرآن کی ابتداء کرتے اور اگلے ظہر تک قران کا ایک دور کر لیتے۔ہھر ظہر کو ہم سب کو ساتھ بٹھاتے۔ہم پوری فیملی حرم کے کسی کونے میں بیٹھ جاتے۔پھر ابا دعا کراتے،لمبی دعا ہوتی پھر عصر کے بعد اگلا دور شروع ہو جاتا۔میری خواہش تھی کہ کوئی ایسا لمحہ ہو جو صرف میرا ہو۔جس میں صرف میں ہی ہوں۔سو ایک دفعہ دوران طواف والد صاحب ہاتھ آہی گئے،ہمت کرکے ان کا ہاتھ پکڑاملتزم تک لے آیا،والدصاحب نے آنکھوں کے اشارے سے پوچھا ! کیا ہے؟ ہم نے ہاتھ اٹھا کر بیت اللہ کی طرف اشارہ کرکے کہا ،بابا میرے لیے دعا،بابا کے ہاٹھ اٹھے لب ہلنے لگے آنسووں کی جھڑی بہنے لگی.دعا کی اور کرتے رہے.پر محبت کے بھوکوں کی تسلی اتنی آسانی سے نہیں ہوتی.ہم نے پھر ان کو ہاتھ سے پکڑا۔اس دفعہ حطیم لے کر گئے ان کواللہ کا کرم ہوا ،میزاب رحمت کے نیچے جگہ ملی ایک طرف بابا ایک طرف ہم.اب کی بار چہرے کعبۃ اللہ کی طرف سینہ دیوار سے لگائے ہوئے پھر دعا شروع ہوئی ،کوئی لمحہ بعد بابا برداشت نہ کرسکے،گریہ شروع ہوا ،والد کو روتے دیکھ کر ہم بھی ٹوٹ گئے.طویل دعا کے بعد جب حالت سنبھلی اور دیوار سے پیچھے ہٹے تو ہماری نظریں ملیں دیکھا تو بابا کی آنکھیں سرخ تھیں پہلی دفعہ والد کو روتے دیکھا تھا ،برداشت نہ ہوا رو پڑا.بابا پھر حرم کی دیوار سے لگ گئےپھر پتہ نہیں کب تک دعائیں کرتے رہے جب تھک کرپیچھے ہٹے تو پھر والد کی طرف دیکھا نہ گیا اور میں حطیم کے ایک طرف سے اور وہ دوسری طرف سے باہر نکل گئے۔
صاحبو!
اس روز والد کی محبت کا احساس ہواکہ والد محبت میں والدہ سے کم نہیں رہے،لیکن ان کو جو کردار اللہ کی طرف سے سونپا گیا ہے اس کے تقاضے مختلف ہیں. ہمارے لٹریچر میں والدین کے حقوق پر کافی زور دیا گیا ہے،حقوق اللہ کے بعد والدین کے حقوق کی تاکید ہے.لیکن ہمارے معاشرے میں جب والدین کے متعلق ہمارے رویہ کا جائزہ لیا جائے تو اولاد عموما ماں کی طرف زیادہ جھکی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
صاحبو !
یہ والد بہت نازک اور میٹھی چیز ہے اس کا خول سخت لیکن اندر سے یہ بہت نرم ہوتا ہے۔ہمیں ساری زندگی یہ تو یاد رہتا ہےکہ ہماری اماں ،گرمی میں کچن میں ہمارے لیے محنت کرتی تھیں. لیکن یہ یاد نہیں ہوتا کہ اسی گرمی میں باپ دو پیسے کمانے کے لیے اپنی جوانی جھلسا رہا ہوتا ہے.آپ نے اماں کو بیمار تو دیکھا ہو گالیکن دوائی خریدتے ہوئے باپ کے لرزتے ہاتھوں اور اسکی آنکھوں کی نمی کبھی نہیں دیکھی ہوگی.آپ عید پر اپنے جوتوں کے لیے بابا سے لڑے تو ہوں گےلیکن ان کے پیروں کی طرف کبھی نظر گئی ہو گی آپکی؟آپ کو غصہ تو بہت آیا ہو گا کہ آپ کو بابا نے موٹر سائیکل نہیں لے کر دی لیکن آپ نے بابا کو صرف آپکی فیس کے پیسے پورے کرنے کے لیے دس دس میل پیدل چلتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا ،آپ کو کیا پتہ چلتے چلتے وہ کتنی دفعہ رک کر سانسیں بحال کرتا رہا ہے۔ آپ کو کچھ روپے وہ زیادہ نہ دے سکاتو ساری رات آپ تو گالیاں دے کر دل تو ٹھنڈا کر لیتے ہوں گے لیکن کبھی اسکے تکیہ پر اس کے گرم آنسووں کے نشان دیکھنے کی زحمت کی آپ نے،آپ کو ماں کا پھٹا ہوا دوپٹہ تو یاد رہا لیکن باپ کی پھٹی ہوئی بنیان کبھی نہیں دیکھ سکے،ماں کے ماتھے کی جھریاں تو نظر آجاتی ہیں لیکن باپ کے پیروں کے چھالے کبھی دیکھے ہیں آپ نے،اس کا گلہ تو ساری زندگی رہا آپ کو کہ آپ کو موٹر سائیکل لے کر نہیں دی ،لیکن جولائی اگست میں اس کا میلوں پیدل چلنا بھول گئے آپ۔
صاحبان!
میں قطعا ماں باپ کی قربانیوں کا تقابل نہیں کر رہا،صرف یہ احساس جگانے کی کوشش ہے کہ آپ کے والد بھی آپ سے شدید محبت کرتے ہیں،وہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ ان کی گود میں سر رکھیں،وہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ ان کو دل کی باتیں بتائیں،وہ بھی آپ کے ساتھ ہنسنا چاہتے ہیں،آپکو حال دل بتانا چاہتے ہیں،آپ کو پتہ ہےوالد بعض اوقات صرف اس وجہ سے بازار میں اپنی مرغوب چیزیں کھانا چھوڑ دیتا ہے کہ اب وہ اپنے ارمانوں کی قیمت پر آپ کے ارمان پورے کرنا چاہتا ہے، اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ جب والد کے سامنے چلاتے ہوئے کہہ پڑتے ہیں کہ آپ نے میرے لیے کیا کیا ہے تو ظالمو وہ ٹوٹ جاتا ہے ،ایک لمحہ میں وہ جس کو کوئی توڑ نہ سکے آپ کا ایک جملہ اس کو کرچی کرچی کر جاتا ہے۔آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کو اپنے والد کی آنکھوں کی رنگت معلوم ہے۔کتنے ایسے ہیں جنہوں نے والد کے چہرے کو کبھی غور سے دیکھا ہو۔
ظالمو اللہ کی اس نعمت کا لطف لو،والد کے لیے تحفہ لےکر آئیں ،بابا کو سرپرائزز دیں،پھر دیکھیں زندگی کیسے بنتی ہے۔اور یہ سب کرکے یاد رکھیں آپ بابا پر احسان نہیں کررہے۔رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.”انت ومالک لابیک” تم اور تمہارا سب کچھ تمہارے والد کا ہے۔
صاحبو!
بابا کے دل میں کہنے کو بہت کچھ ہے،بس وہ ایک موقع چاہتے ہیں آپ سے دل کی بات کہنے کا بس، ان کو وہ ایک موقع ضرور دیں ایسا نہ ہو دیر ہو جائے اور وہ سب کچھ دل میں لیے ہوئے آپ سے دور چلے جائیں ،پھر آپ بابا ،بابا پکاریں گے لیکن بابا پھر لوٹ کے نہیں آسکیں گے ،احساس کریں ،محبت بانٹیں۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...