مولانا آزاد کے خلاف گھٹیا الزام تراشی
سہیل انجم
حالیہ چند برسوں میں جب سے ملک کی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی ہے حکومت کی خوشامد، حکمراں جماعت کے نظریات کی تبلیغ اور ان نظریات کے مخالفین کو سب و شتم کا نشانہ بنا کر حکومت کی نظروں میں سرخرو ہونے یا کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کا ایک نیا سلسلہ چل پڑا اور ایک نیا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔ یہ رجحان خاص طور پر افسر شاہوں اور عدلیہ سے وابستہ افراد میں تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اس کا انھیں فائدہ بھی مل رہا ہے۔ حکومت کے مخصوص مقاصد کی تکمیل کرنے والوں کو نوازا جا رہا ہے اور انھیں مختلف قسم کی مراعات دی جا رہی ہیں۔ ایم ناگیشور راو سی بی آئی کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔ 31جولائی کو وہ ہوم گارڈس، فائر سروس اور سول ڈیفنس کے ڈائرکٹر جنرل کے منصب سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ لیکن اس سے چار روز قبل 27 جولائی کو انھوں نے ایک ایسا ٹویٹ کیا جس نے دانشوروں کے حلقے میں قدرے طوفان برپا کر دیا۔ حالانکہ اس پر پورے ملک میں شدید رد عمل ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوا۔ یا تو کمیونسٹ پارٹی کے کچھ رہنماوں نے ان کے بیان کی مذمت کی اور ان کے خلاف سروس رول کے تحت سخت کارروائی کا مطالبہ کیا یا پھر کچھ تعلیم یافتہ افراد کی جانب سے اس ٹویٹ کی مخالفت کی گئی اور اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ باقی خاموشی رہی۔ ناگیشور راو نے ایک ایسی شخصیت کو اپنی گھٹیا الزام تراشی کا نشانہ بنایا ہے جس شخصیت کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ انھوں نے ملک کے عظیم مجاہد آزادی، دانشور، ماہر تعلیم، صحافی، صاحب علم، انتہائی سیکولر سیاست داں اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار مولانا ابوالکلام آزاد کو فرقہ پرست قرار دیااور کہا کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد اور اس کے بعد ہمایوں کبیر، ایم سی چھاگلہ، فخر الدین علی احمد اور ڈاکٹر نورالحسن نے ”خوں ریز اسلامی حملوں اور مسلمانوں کی حکومت کو وہائٹ واش کرکے ہندوازم کو نقصان پہنچایا اور ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کیا“۔ انھوں نے مذکورہ شخصیات پر ہندوستان میں ابراہیم ازم پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ہندوستان کی جنگ آزادی میں کروڑوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور حقیقت یہ ہے کہ ابتدا میں جنگ آزادی کی کمان مسلمانوں کے ہی ہاتھ میں رہی ہے۔ چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے وہ بھی مسلمانوں کو ہی اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد مسلم مجاہدین کا نام لینا گوارہ نہیں کیا جاتا۔ ایک سازش کے تحت ان کے کارناموں کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور دیگر رہنماوں کے بعد لے دے کے صرف مولانا آزاد کا نام لیا جاتا ہے لیکن اب کچھ لوگوں کو یہ بھی گوارہ نہیں ہے۔ اب مولانا آزاد کا نام بھی تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے یا کم از کم ان کو فرقہ پرست ثابت کرکے ان ہندووں کی نظروں میں جو مولانا آزاد کے قدردان ہیں، انھیں گرانے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ حالانکہ مولانا آزاد کی پوری زندگی ہندو مسلم اتحاد کی وکالت کرتے گزری تھی۔ کیا ان کا یہ معرکة الآرا جملہ کوئی فراموش کر سکتا ہے ”اگر آسمان سے کوئی فرشتہ اتر کر آئے اور کہے کہ تمھیں سوراج ابھی مل جائے گا بشرطیکہ تم ہندو مسلم اتحاد سے کنارہ کش ہو جاو تو میں کہوں گا کہ مجھے ایسا سوراج نہیں چاہیے جو ہندو مسلم اتحاد کی قیمت پر ہو۔ سوراج ہم جلد یا بدیر حاصل کر لیں گے۔ سوراج میں تاخیر سے ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن ہندو مسلم اتحاد کے ختم ہو جانے سے پوری انسانیت کا نقصان ہوگا“۔ مولانا آزاد اگر فرقہ پرست ہوتے تو کانگریس کے بجائے مسلم لیگ میں ہوتے۔ اگر وہ فرقہ پرست ہوتے تو تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کرتے۔ اگر وہ فرقہ پرست ہوتے تو گاندھی اور نہرو کے بجائے جناح کا ساتھ دیتے اور پاکستان کے قیام کو مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان قرار نہیں دیتے۔ اگر وہ فرقہ پرست ہوتے تو ملک کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے وہ خدمات انجام نہیں دیتے جو انھوں نے انجام دیں۔
کیا ناگیشور راو یا ان کے قبیل کے دوسرے لوگ یہ بتا سکتے ہیں کہ ملک میں انتہائی اہم تعلیمی ادارے کس نے قائم کیے۔ آئی آئی ٹی، سائنس اکیڈمی، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، للت کلا اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی اور ساہتیہ کلا اکیڈمی کس نے قائم کیے۔ کیا یہ مسلم ادارے ہیں۔ ثقافتی رشتوں کو فروغ دینے کے لیے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشن کس نے بنائی۔ مہابھارت اور رامائن کا فارسی میں ترجمہ کس نے کروایا تاکہ عالم اسلام ہندوستان کی عظیم الشان روایات سے واقف ہو سکے۔ اگر مولانا آزاد فرقہ پرست ہوتے تو دہلی کی جامع مسجد سے پاکستان جانے والے مسلمانوں کو واپس آنے کی تلقین نہ کرتے بلکہ خود بھی پاکستان چلے جاتے۔ مولانا آزاد کے یار غار مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے فرزند احمد سعید ملیح آبادی اپنی کتاب ”عظیم صحافی، عظیم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد“ میں لکھتے ہیں کہ ”مولانا آزاد مشترکہ قومی زندگی اور متحدہ قومیت کے قائل اور اس نظریے کے علمبردار تھے۔ ہندووں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک و تعاون اور اتحاد کی تلقین کرتے رہے۔ انھوں نے اس معاملے میں کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وطن کی آزادی ان کا نصب العین تھا۔ مسلمانوں کو جد و جہد آزادی میں برادران وطن کے دوش بہ دوش کھڑا کرنے کے لیے مولانا نے انتھک کام کیا۔ اس مقصد کے لیے مولانا ہندووں اور مسلمانوں کو امت واحدہ قرار دیتے تھے اور دلیل میں مدینہ منورہ کو ہجرت کے بعد جناب محمد ﷺ کے اس دفاعی معاہدے کو پیش کرتے تھے جو مدینہ کے اطراف میں آباد غیر مسلم قبائل کے ساتھ کیا گیا تھا۔ آگرہ خلافت کانفرنس (1921) میں اپنے خطبہ صدارت میں مولانا آزاد نے فرمایا تھا کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان 22 کروڑ ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسے ہو جائیں کہ دونوں ہندوستان کی ایک قوم اور نیشن بن جائیں“۔ ڈاکٹر عبد المغنی نے ”مولانا آزاد کا تصور قومیت“ کے زیر عنوان ایک مضمون میں ان کے قومی نظریے سے سیر حاصل بحث کی ہے اور آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ”مولانا آزاد کا تصور قومیت بیک وقت وطن دوستی اور انسان دوستی سے مرکب ہے۔ چنانچہ وہ ہندوستانی قوم کی آزادی، اصلاح اور ترقی پر سارا زور اسی لیے دیتے تھے کہ اپنی بود و باش کے مخصوص خطے میں اپنے خاص انداز سے وہ پوری انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے تھے اور بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ موجودہ بین الاقوامی دور میں ایک آفاقی نقطہ نظر کے بغیر دنیا کے کسی گوشے میں امن قائم ہو سکتا ہے نہ وہاں کے باشندوں کی صلاح و فلاح کے لیے کوئی مفید کام ہو سکتا ہے“۔ مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ”ذکر آزاد“ میں ”ثقافت الہند“ کے اجرا کا بیان انتہائی دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔ مولانا نے اس رسالے کا اجرا اس لیے کیا تھا تاکہ بیرونی دنیا کو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا علم ہو سکے۔ اس کے لیے مولانا نے ملیح آبادی کو کلکتہ سے دہلی طلب کیا اور اس رسالے کے اجرا کے منصوبے سے ان کو باخبر کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”مولانے نے فرمایا کہ اسلامی دنیا عام طور پر اور عرب دنیا خاص طور پر ہندوستان سے بالکل ناواقف ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ ہندوستان وحشی ملک ہے۔ یہاں کے لوگ پتھر کے ٹکڑے لیتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے چھیل چھال کر بت گڑھتے اور پھر خدا کہہ کر ان کی پرستش کرتے ہیں۔ اسلامی دنیا کو قدیم ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، فلسفہ، ادب، ادیان کی کچھ خبر نہیں۔ اسی قدر وہ اس ملک میں اسلامی تاریخ اور اس کی اہمیت سے بھی قطعاً بے خبر ہیں۔ مختصر لفظوں میں تجویز یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک ثقافتی مجلس قائم کی جائے اور بیرونی خصوصاً اسلامی دنیا سے ثقافتی رشتے جوڑے جائیں“۔
اس طرح ملیح آبادی کی ادارت میں ثقافت الہند نام کا پرچہ شروع ہوا جس نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو عالم اسلام تک پہنچایا۔ مولانا آزاد نے ہندوستانی فنون لطیفہ کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی متحدہ قومیت اور ہندو مسلم اتحاد و یکجہتی کے لیے وقف کر دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود جنگ آزادی کے تذکرو ں اور معماران قوم میں ان کا نام آخر میں لیا جاتا ہے۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ایک طبقہ کو ان کا نام بھی لینا گوارہ نہیں۔ وہ انھیں ایک فرقہ پرست اور ہندووں کا دشمن بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ناگیشور راو کا بیان اس کا زندہ ثبوت ہے۔ اس رجحان کی کڑے لفظوں میں مذمت کی جانی او رناگیشور راو کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے ایک عظیم اور محب وطن انسان کی شان میں جو گستاخی کی ہے وہ ناقابل معافی ہے۔