
ہندستان کا مستقبل ماضی کے ذکر پر نہیں حال کی درستگی پر منحصر

عبدالسلام عاصم
مستقبل کے پُر امن،جدت پسند، خوشحال اور ترقی یافتہ ہندستان کی تعمیر کا تمام ترانحصار ماضی کی اُن کوششوں کے تذکرے پرہرگز نہیں جو مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، مولانا ابو الکلام آزاد اوردوسروں نے کی تو ضرور لیکن ہندستان کو وہ آزادی نہیں دلا سکے جو اسے دوٹوک نفرت کی بنیاد پر دو ٹکڑے ہونے بچا لیتی۔موجودہ ہندستان کی مذکوہ حوالوں سے پرامن بقا اب صرف اُس کی موجودہ خستہ حالی کے انسداد پر منحصرہے۔
ایسا نہیں کہ ہندستان کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچانے میں ناکام آزادی کے متوالوں نے اپنی کوششیں ادھوری چھوڑ دی تھیں یا ان کی تھکان کا نام نہادمسلم لیگ نے راست فائدہ اٹھا لیا تھا۔تقسیم کے لئے جتنا ذمہ دار فرقہ پرستی سے متاثر مسلم لیگ کا ایک انتہاپسند حلقہ تھا اتنے ہی ذمہ دار کانگریس کے وہ رہنمایان بشمول پنڈت جواہر لعل نہرو تھے جنہوں نے اُس کابینی مشن کو ناکام بنا دیا جس سے ایک طرف سردار پٹیل نے بعض تحفظات کے باوجود اتفاق کر لیا تھا وہیں دوسری جانب محمد علی جناح کو بھی اس میں وہ حل نظر آنے لگا تھا جس حل کے نام پرہندستان کو دو ٹکڑے کر کے پاکستان بنانے کی سازش رچی گئی تھی۔
اس تحریرکی محرک مولانا آزاد اور بعض دوسروں کے تعلق سے سی بی آئی کے سابق عبوری ڈائریکٹر اورموجودہ آئی پی ایس افسر ایم ناگیشور راو نے کی وہ باتیں ہیں جو کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہوں لیکن ان باتوں کے لئے ذہن سازی کا ماحول ہمارے مشترکہ اعمال کا نتیجہ ہے۔ ہم نے بر صغیر میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور انسانی تہذیبی ربط کو عقائد پر ترجیح دینے وہ کوشش کبھی نہیں کی، جس کی نسل آئندہ کی بہترین حفاظت کیلئے سخت ضرورت تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کی سلامتی کیلئے خطرہ بن کر تحفظ کا گلہ کرتے رہنے میں تقریباً ایک صدی گزار دی جس میں تقسیم کے اندوہناک صدمے کیساتھ ملنے والی آزادی کی سات دہائیاں بھی شامل ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا آزاد کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جد وجہد آزادی کے حتمی مر حلے میں ہندووں اور مسلمانوں کے مابین فرقہ وارانہ منافرت کی کھائی دونوں طرف کے انتہاپسند مقرروں کی وجہ سے اتنی گہری ہو چکی ہے کہ اسے کسی بالواسطہ کوشش کے بغیر براہ راست اقدام سے پاٹنا آسان نہیں۔وہ اسی فکر میں غلطاں تھے کہ برطانیہ نے ایک کابینی مشن روانہ کیا جس نے وقتی طور پر سہی مولانا کی بالواسطہ کوشش والی سوچ کو مہمیز لگا دی تھی۔
کابینی مشن 23 مارچ 1946 کو ہندستان پہنچاتھا۔ اس وقت مولانا آزاد کُل ہند کانگریس کے صدر تھے۔ اس لئے انہی کو مشن سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اِس رُخ پر انہوں نے انتہائی مربوط تیاری کی۔ حالات کے اس موڑ پر مسلم لیگی جاگیرداروں کے جھانسے میں آجانے والے مسلمان چونکہ اپنے مستقبل کے تعلق سے بے حد پریشان تھے اور اس پریشانی کا حل انہیں قیام پاکستان میں ہی نظر آرہا تھا اس لئے مولانا آزاد نے اور بھی محتاط انداز اختیار کیا۔وہ بڑی بے چینی سے ایک ایسے حل کی طرف سب کو لے کر بڑھنا چاہتے تھے جو ملک کو تقسیم ہونے سے بچالے۔
اس طرح مولانا نے کابینی مشن کے ذمہ داران سے ان کی آمد کے دو ہفتے بعد پوری ذہنی تیاریوں کے ساتھ ملاقات کی۔ اس ملاقات کیلئے انہوں فرقہ وارانہ نفرت کی بنیادکھوکھلی کرنے پر بڑی گہرائی سے سوچا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ نفرت کی شدت کو دونوں طرف سے کیش کرنے کی کوشش کرنے والے مٹھی بھر لوگوں کو قابو میں کرنے کی بہتر صورت یہ ہو گی کہ آزاد ہندستان کے دستور کر ایسی وفاقی شکل دی جائے جس میں ریاستی حکومتیں وفاق کا اٹوٹ حصہ رہتے ہوئے وسیع ترخود مختاری رکھتی ہوں۔ان کا خیال تھا کہ اگر متحدہ ہندستان کے لئے انتہائی جذبہ رکھنے والوں نے اِس سے اتفاق کر لیا تو ہندووں سے نجات کا گمراہ کن خواب دیکھنے والے نام نہاد مسلم لیڈروں اورمسلمانوں سے جان چھڑانے میں ہی عافیت محسوس کرنے کی حد تک سوچنا شروع کردینے والے محدود ہندد حلقے کومتحدہ ہندستان کے حق میں راضی اور ان کے جذبات کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔
مولانا آزادنے کابینی مشن کے سامنے جب اپنا یہ حل پیش کیا تو اس پر بہر لحاظ غور کرنے کے بعد مشن کے ذمہ داران نے اسے بہترین حل کے طور پر قبول کر لیاتھا۔اس کے بعد مولانا نے کامیابی کی ایک نہیں کئی منزلیں طے کیں۔ کانگریس کی مجلس عاملہ میں اپنی تجویز رکھی۔مہاتما گاندھی کی تائید حاصل کی۔ سردار پٹیل نے بھی بعض وضاحتیں سننے کے بعد اس سے اتفاق کر لیا۔ آخری رکاوٹ اس وقت دور ہو گئی جب محمد علی جناح کو انہوں نے قائل کر لیا کہ مسلمانوں کو بظاہرجو تشویش ہے اُسے دور کرنے کیلئے پاکستان کے قیام کی نہیں بلکہ وسیع اختیارات سے لیس وفاقی ریاستوں والے ہندستان کی ضرورت ہے۔
جس طرح مولانا آزادمسلمانوں میں انتہاپسندوں اور نام نہاد مسلم لیگ کے ہتھے چڑھ جانے والوں کو بالواسطہ غلط راستے سے ہٹانے کیلئے کوشاں تھے اسی طرح سردار پٹیل ہندووں میں انتہائی سوچ رکھنے والوں کو آزادی کی منزل کے رُخ پر معتدل راستے پرگامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ متحدہ ہندستان کے حق میں لوہا گرم ہو نے لگا تھا لیکن اس سے پہلے کہ اسے حتمی شکل دی جاتی مولانا کی بحیثیت صدرِ کانگریس میعاد ختم ہو گئی اور نئے صدر جواہر لعل نہرو نے ممبئی میں اس حل کی قبر کھود دی۔
سوچا جا سکتا ہے کہ پنڈت جی نے ایسا کیوں کیا؟ جواب یہ نہیں کہ وہ کوئی منفی ارادہ رکھتے تھے۔ جواب یہ ہے کہ اِس حوالے سے اُن کی سوچ امکانات سے زیادہ خدشات ر خی تھی۔ ایسا نہیں کہ انسانی زندگی میں اندیشے پیش نہیں آتے، لیکن سفر ہمیشہ امکانات کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اندیشوں سے بچنے کی بہتر اور موثر تجویز کی جاتی ہے، حادثات کے اندیشوں کی وجہ سے سفر ترک نہیں کیا جاتا۔ پنڈت جی کو شاید وسیع تر اختیارات والی ریاستوں پر مشتمل وفاقی ہندستان کے اینٹی بایوٹک نسخے کے فیل ہونے کے نتائج کے اندیشے نے گھیر لیا اور انہیں اس علاج سے زیادہ آسان وہ عمل جراحی نظر آیا جس نے ہندستان کے دونوں بازو وں کی لمبائی کم کر دی۔
اگر آج متحدہ ہندستان ہوتا تو چین کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ شرارت بھی کرے اور اپنی شرارتوں کا اپنی ہی شرطوں پر جوازبھی پیش کرتا پھرے۔ پاکستان موجودہ چینی شرارت کا اٹوٹ حصہ ہے جو اپنے باقیماندہ وجود کو بچائے رکھنے کیلئے آج بھی اسی سوچ پر گامزن ہے جس کی دھارہمیشہ کیلئے کند ہوجاتی اگر پنڈت نہرو کے سیاسی تدبر کو وقتی طور پر امکانات کی جگہ اندیشوں نے ہائی جیک نہیں کر لیا ہوتا۔ پنڈت جی نے تو بس حل کے راستے میں ٹریفک بڑھنے کے پیشگی خوف سے اسپیڈ بریکر لگائے۔ نام نہاد مسلم لیگ نے اُسے دیوار میں بدلنے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔اینٹ اور گارے کی جگہ انسانی لاشوں اور خون سے چنی اس دیوار کے دونوں طرف اُن حلقوں کو تقسیم کی بھاری قیمت چکانی پڑی جن کا تعلق اپنی کمیونٹی کے خواص سے نہیں عوام سے تھا۔ہندستان میں مسلمانوں اور پاکستان میں ہندووں کے ساتھ کہیں کم کہیں زیادہ زیادتیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔
حالات بدلے ضرور لیکن سوچ نہیں بدلی۔آئین کی طرف سے تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود اگر سیکولر ہندستان میں بھی اقلیت کو تحفظ کا گلہ ہے تو اس کا المناک پہلو یہ ہے کہ ہندستان میں سابقہ نام نہاد سیکولر حکومتوں نے اقلیتوں کے عدم تحفظ کا جم کرانتخابی کاروبار کیا۔اقلیتی ووٹ بینک قائم کئے گئے اور مسلمانوں کے بنیادی انسانی مسائل جو ہندووں سے قطعی مختلف نہیں تھے، انہیں بھی اس قدر فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی ضرورتوں کی تکمیل ہی بنیادی ضرورت نظر آنے لگی۔
ایسے میں کیا ہم اپنی خستہ حالی دور کرنے کیلئے ایک دوسرے کے بارے میں ستر برسوں سے پرورش پانے والی غلط فہمیوں سے آلودہ اقلیت اور اکثریت دونوں کی سوچ میں ایکدم سے تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اگر جواب ہاں ہے تو دونوں حلقوں میں ایک سے زیادہ مجالس اورپریشد چلانے والے کوئی عملی تجویز سامنے لائیں اور اگر جواب نہیں ہے تو یہ مان کر آگے بڑھیں کہ مستقبل کے پُر امن،جدت پسند، خوشحال اور ترقی یافتہ ہندستان کی تعمیر کا تمام ترانحصار اِن چاروں حوالوں سے اب صرف موجودہ خستہ حالی کے انسداد پر ہے، ماضی کی اُن کوششوں کے تذکرے پرہرگز نہیں جو مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل، مولانا ابو الکلام آزاد اوردوسروں نے کی تو ضرور لیکن ہندستان کو وہ آزادی نہیں دلا سکے جو اسے دوٹوک نفرت کی بنیاد پر دو ٹکڑے ہونے بچا لیتی۔
تابناک ماضی کے مختلف حوالوں سے
خستہ حالیء دوراں دور کرنا مشکل ہے