Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کانگریس‘ کہیں تاریخ بن کر نہ رہ جائے!

by | Aug 31, 2020

فاضل حسین پرویز

فاضل حسین پرویز

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

کانگریس میں جو بھونچال آیا اس پر حیرت یا تعجب نہیں ہونا چاہئے! نئی نسل کے نمائندے سچن پائلٹ اور سندھیا کی ناراضگی اگر واجبی ہے تو پھر پارٹی سے برسوں سے تعلق رکھنے والے‘ اس کے لئے قربانیاں دینے والے سینئر قائدین کی ناراضگی یا حقائق کا اظہار بھی فطری ہے۔ چوں کہ کانگریس کا کلچر تنقید کا عادی نہیں۔ اس لئے جب کبھی کوئی آواز قیادت کے خلاف اٹھتی ہے تو اُسے پارٹی کے مفاد کے خلاف سرگرمیوں کا نام دیا جاتا ہے اور کبھی پارٹی سے بغاوت بھی کہا جاتا ہے۔ کانگریس ہندوستان کی واحد نیشنل پارٹی ہے جس کی صدارت پر نہرو گاندھی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ حالانکہ 13قائدین جن کا تعلق نہرو گاندھی خاندان سے نھیں تھا وہ بھی آزادی کے بعد سے اب تک پارٹی صدارت پر فائز رہ چکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب کبھی نہرو گاندھی خاندان کا کوئی فرد صدر اور سکریٹری کے عہدہ پر فائز رہا اُسے تادم حیات برقرار رکھا گیا۔ غلام نبی آزاد کی قیادت میں 23 اور سنجے جھا کی بات پر یقین کیا جائے تو 100 سے زائد کانگریسی قائدین نے سونیا گاندھی کو مکتوب لکھتے ہوئے اس میں کئی شکایتوں کی طرف توجہ دلائی اور پارٹی قیادت میں تبدیلی کی بات کہی۔ جس پر کانگریس کا منتھن یا ان کی ورچوول بیٹھک ہوئی۔ توقع کے عین مطابق سونیا گاندھی ہی اگلے چھ مہینوں تک صدارت پر برقرار رہیں گی۔ اور ممکن ہے کہ چھ مہینے کے بعد راہول گاندھی اپنی ماں کی کرسی پر خود براجمان ہوجائیں گے۔ غلام نبی آزاد، کپل سبل، آنند شرما، موکل واسنک کانگریس کے وفادار قائدین ہیں‘ جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پارٹی کے لئے وقف کردیا۔ اگر ان پر راہول گاندھی جو ان کی اولاد کے برابر ہیں‘ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ بی جے پی سے ان کی ساز باز ہے تو دل شکنی، ناراضگی اور کم از کم ایک مکتوب کے ذریعہ دل کی بھڑاس نکالنا فطری بات ہے۔ سونیا گاندھی کی صحت ناساز ہے۔ اور اس دوران ان کے نام مکتوب روانہ کرنے پر اعتراض کیا جارہا ہے۔ مگر جن قائدین نے مکتوب لکھا ہے‘ انہوں نے درست اقدام کیا ہے  کیوں کہ اگر کسی وجہ سے سونیا گاندھی اپنی صحت کی وجہ سے پارٹی امور میں چاہنے کے باوجود دلچسپی لینے کے قابل نہ رہیں یا کوئی اور سانحہ پیش آجائے تو جذبات کی رو میں بہہ کر ان کی جگہ راہول گاندھی کو بھی صدارت پر فائز کیا جانا طئے ہوجاتا۔ راہول گاندھی اگرچہ کہ بہت کم عمری سے عملی سیاست میں ہیں مگر ابھی تک وہ مکمل سیاستدان نہیں بن سکے۔ یہ ان کا مزاج ہے کہ وہ دوسری جماعتوں کے قائدین کی طرح اپنے الفاظ، لب و لہجہ اور جذباتی تقاریر سے عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔اگرچہ کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی تقاریر میں ملک اور سماج کے غریب، پسماندہ طبقات کے لئے آواز اٹھائی ہے جیسے  بار بار انہوں نے کہا کہ یہ ملک چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے۔ کبھی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان میں دو آوازیں سنائی دیتی ہیں‘ ایک امیروں کی ایک غریبوں کی۔ غریبوں کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ اور انہوں نے 2010ء میں ویدانتامائننگ پراجکٹ کے بند ہونے پر کہا تھا کہ وہ آدی واسیوں کے سپاہی ہیں۔ اس پراجکٹ کے بند ہونے سے آدی واسیوں کو نقصان ہوا تھا۔ راہول نے کبھی نریندر مودی پر مٹھی بھر سرمایہ داروں کے مفادات کے لئے کام کرنے کا الزامات عائد کرتے ہوئے حکومت کو سوٹ بوٹ کی سرکار قرار دیا تھا۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ مٹھی بھر سرمایہ دار اس ملک کا بیڑہ غرق کریں گے۔
نوٹ بندی، کرونا سے نمٹنے میں ناکامی، لاک ڈاؤن کے مسائل سے نمٹنے میں ناہلی، پی ایم کیئر فنڈس کی شفافیت پر انہوں نے بہت آوازیں اٹھائیں مگر نہ تو انہیں عوامی سطح پر کامیابی ملی نہ ہی قانونی طور پر وجہ چاہے کچھ بھی ہو۔ وہ جتنا خلاف کہتے گئے بی جے پی اور نریندر مودی کو فائدہ ہوتا رہا۔ کانگریس میں سینئر قائدین موجود ہیں۔ جن سے راہول گاندھی کی دوری سے ہمیشہ مسائل پیدا ہوتے رہے۔ یہ قائدین قاہتے ہیں کہ راہول گاندھی اور سونیا گاندھی اور پارٹی قائدین کے درمیان فاصلے نہ ہوں۔ آپسی مشاورت سے مسائل حل کئے جائیں۔ کانگریس بدترین دور سے گزر رہی ہے۔یقینا اس کی ذمہ داری سونیا اور راہول پر ہی عائد ہوتی ہے کیوں کہ انہوں نے شاید ہی کبھی پارٹی کی شکست‘ ہار محاذ پر ناکامی، مختلف سطحوں پر قائدین اور کارکنوں کی ناراضگی کا جائزہ نہیں لیا۔خود کا محاسبہ نہیں کیا۔ جمہوری طرز پر چلائی جانیو الی پارٹی میں تاناشاہی نظام رائج رہا۔ غلام نبی آزاد، کپل سبل اور دیگر 23قائدین کا مکتوب سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو خواب غفلت سے جگانے کا سب بنا۔ اگرچہ کہ راہول نے تردید کا کہ انہوں نے کپل سبل یا غلام نبی آزاد کی بی جے پی سے ساز باز کی کوئی بات کہی تھی اس کے باوجود ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“ کے مصداق ایسی کوئی بات ضرور ہوئی جس نے سینئر قائدین کی اَنا کو ٹھیس پہنچائی۔ غلام نبی آزاد 71برس کے ہیں‘ اور ان کی زندگی کے 47برس کانگریس کی خدمت میں گذر گئے۔جموں و کشمیر کے بھالیسا بلاک کانگریس کمیٹی کے سکریٹری سے جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کے صدر اور پھر آل انڈیا یوتھ کانگریس کے صدر سے مرکزی وزیر اور اب راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن کی حیثیت سے ان کی اپنی پہچان ہے۔ وہ 2006ء میں جموں و کشمیر کے چیف منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ کانگریس سے وابستگی کا خمیازہ انہیں اُس وقت بھگتنا پڑا تھا جب 1992ء میں ان کے سالے تصدق کو العمر مجاہدین نے اغوا کرلیا تھا اور تین عسکریت پسندوں کی رہائی کے عوض انہیں سہی سلامت چھوڑ دیا تھا۔ ایک اطلاع کے مطابق غلام نبی آزاد کانگریس کے موقف پر ناراض ہیں کہ اس نے جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی برخاستگی پر جو شدید ردعمل کا اظہار کرنا تھا نہیں کیا۔ جبکہ کشمیر سے تعلق رکھے والے ایک قائد نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ 5/اگست 2019ء کو کشمیر سے موقف کے متعلق مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد جب کئی اہم کشمیری قائدین کو گرفتار کیا گیا تھا یا نظر بند رکھا گیا تھا تو اس میں ایک سابق چیف منسٹر کو شامل کیوں نہیں کیا گیا ان کا اشارہ غالباً غلام نبی آزاد کی طرف تھا جس سے یہ بدگمانی پیدا کی گئی کہ غلام نبی آزاد کے بی جے پی سے بہتر روابط ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کشمیر میں انہی قائدین کو نظربند کیا گیا جو اُس وقت کشمیر میں موجود تھے۔ البتہ شاہ فیصل کو بیرون ملک پرواز سے پہلے ایرپورٹ پر گرفتار کیا گیا تھا۔بہرحال کپل سبل جیسے اہم ماہر قانون اور کانگریس کے قائد پر بھی جب الزام تراشی کی گئی اور پھر اس سے انکار کیا گیا تو اس سے کئی سوال پیدا ہوئے ہیں۔
سچن پائلٹ، سندھیا کے واقعہ کے بعد سینئر قائدین کی ناراضگی یا ان کی بے چینی کو پارٹی قیادت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اس وقت کانگریس مجموعی طور پر ونیٹلیٹر پر ہے۔ اُسے آکسیجن اور نئے خون کی ضرورت ہے۔سینئر اور جونیئر قائدین کے درمیان نظریاتی اور فکری اختلافات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کا سیکولر کردار اب باقی نہیں رہا۔ 5/اگست 2020ء کو نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تو کانگریس کے سینئر قائدین نے جن میں ڈگ وجئے سنگھ قابل ذکر ہیں‘ بڑے فخر سے یہ کہا تھا کہ شیلانیاس تو راجیو گاندھی کرچکے تھے‘ اس فخریہ دعویٰ کے بعد کانگریس اخلاقی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے تائید اور ہمدردی کے حق سے بڑی حد تک محروم ہوچکی ہے۔ بدھ مذہب اختیار کرنے والی پرینکا گاندھی نے اڈوانی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ اڈوانی مذہبی اعتبار سے سندھی ہے‘ مگر انہوں نے سیاسی اقتدار کے لئے رام مندر کی تحریک چلائی اور بدھ مذہب کے پیرو پرینکا گاندھی نے اب تقریباً ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر بی جے پی نے سینا ٹھونک کر رام مندر کی تعمیر کی بات کہی ہے تو کانگریس وہی بات بہت سلیقے سے نرم اور ملائم لہجہ میں کہہ رہی ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ پورا ملک کورونا کی وجہ سے اپنے آپ کو تک فراموش کرچکا ہے ایسے میں CAA پر عمل آوری کے لئے دستاویزات مکمل کی جاچکی ہے۔ جو جو والینٹرس‘ کارکن اور قائدین مخالف سی اے اے تحریک میں سرگرم رہے‘ ان میں سے بیشتر کو بی جے پی میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آسام میں 20مخالف سی اے اے قائدین بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں اور دہلی میں بھی کچھ نے اپنے مفادات کی خاطر مسلم مفادات کا سودا کرلیا۔ وقتی طور پر انہیں فائدہ ضرور ہوگا مگر وہ اپنی نظر میں بھی گرے ہوں گے اور دوسروں کی نظر سے تو اٹھ نہیں پائیں گے۔ کانگریس قیادت اگر اب بھی خواب غفلت سے نہ جاگی تو وہ دن دور نہیں جب‘ یہ ماضی یا تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گی۔ اس وقت بی جے پی حکومت من مانی اس لئے کرررہی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس کی اکثریت بھی ہے اور اپوزیشن میں کوئی دم نہیں ہے۔ اپوزیشن تعداد میں کم بھی ہو‘ مگر اس میں دم ہو تو حکومت کو کچھ بھی کرنے کیلئے سوچنا پڑتا ہے۔ جہاں تک سونیا گاندھی کو مکتوب لکھنے والے قائدین کا تعلق وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ دیر سے سہی‘ ان میں ہمت تو پیدا ہوئی۔ ان کی ناراضگی کو پارٹی سے بغاوت اس نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے پارٹی کو بچانے کیلئے یہ کام کیا!!

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...