Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

یورپ میں نوکری ٗ عورت اور موسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا

by | Sep 2, 2020

IMG_20200902_191251

جاوید چوہدری

جوزف رافیل سے میری ملاقات ایک لائف ٹائم تجربہ تھا۔ جوزف ایمسٹرڈیم میں فاسٹ فوڈ کی سب سے بڑی کمپنی کا مالک تھا۔ شہر میں اس کے پچاس سے زیادہ ریستوران تھے ٗ وہ دن میں آدھ گھنٹہ کیلئے اپنے کسی ریستوران پر جاتا ٗ اپنے کارکنوں سے ملتا ٗ ان کے ساتھ گپ شپ لگاتا اور اگلے ریستوران کی طرف نکل جاتا ٗ شام کو وہ ’’ڈیم سکوائر‘‘ کے ایک ریستوران میں بیٹھتا ٗ کافی پیتا ٗ اپنے دوستوں کے ساتھ گپ لگاتا اور گھر چلا جاتا ٗ یہ اس کا معمول تھا ٗمیرا ایک دوست اس کے ریستوران میں کام کرتا تھا ٗ میرا یہ دوست 1990ء میں ہالینڈ گیا تھا ٗ اس نے جوزف کے پاس نوکری شروع کی تھی اور اس کے بعداس نے 16 سال جوزف کے ساتھ گزار دئیے ٗ میں اس کی مستقل مزاجی پر حیران تھا یورپ میں ایک ہی ادارے اور ایک ہی نوکری سے چپکے رہنے کو نفسیاتی مرض سمجھا جاتا ہے ٗ یورپ کے بارے میں کہا جاتا ہے وہاں نوکری ٗ عورت اور موسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا لیکن میرے اس دوست نے یورپ کے اس فلسفے کو بدل دیا ٗ اس نے 16 سال ایک ہی ریستوران کے کاؤنٹر پر گزار دئیے ٗ میں نے ایک دن اس سے اس کی وجہ پوچھی ٗ وہ مسکراکر بولا’’صرف جوزف کی وجہ سے‘‘ مجھے بڑی حیرت ہوئی ٗ میرے دوست نے اپنی بات جاری رکھی’’صرف میں نہیں بلکہ آج تک جس شخص نے بھی جوزف کو جوائن کیا وہ اسے چھوڑ کر نہیں گیا‘‘ میرے لئے یہ بات بھی حیران کن تھی ٗ میں نے اپنے دوست سے وجہ پوچھی ٗ وہ مسکرا کر بولا ’’جوزف ہر شام ہمارے ریستوران میں آتا ہے‘کافی پیتا ہے اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتا ہے ٗ میں آج اس کے ساتھ تمہاری ملاقات طے کر دیتا ہوں ٗ تم اس سے خود پوچھ لینا۔‘‘ میں نے فوراً حامی بھر لی۔

جوزف کے ساتھ میری ملاقات طے ہو گئی ٗشام چھ بجے جوزف وہاں آ گیا ٗ وہ ایک کٹڑ یہودی تھا ٗ اس کی ناف تک لمبی داڑھی تھی ٗ سر پر سیاہ ہیٹ اور گھٹنوں تک لمبا کوٹ تھا ٗ اس کے ہاتھ میں قیمتی پتھروں کی چھوٹی سی تسبیح تھی اور وہ وقفے وقفے سے عبرانی زبان میں کچھ بڑبڑاتا تھا ٗ میرے دوست نے مجھے اس کے سامنے بٹھا دیا ٗ میں نے جوزف کا غور سے جائزہ لیا ٗ مجھے اس کی شخصیت میں ایک ان دیکھی کشش محسوس ہوئی ٗ وہ دھلادھلایا سا نرم مزاج شخص تھا ٗ اس نے میرے ساتھ گپ شپ شروع کر دی ٗوہ مختلف موضوعات پر سوال کرتا اورمیرے جوابوں میں سے نئے سوال نکالتا ۔

 سوال و جواب کے اس سلسلے کے دوران میں نے اس کے ملازمین کا حوالہ دیا اور اس سے پوچھا ’’آپ کے ملازم آپ کو چھوڑتے کیوں نہیں؟.

وہ مسکرایا ’’میں ملازمین کا انتخاب بڑی احتیاط سے کرتا ہوں ٗ میرا اپنا کرائیٹریا ہے اور جو شخص اس کرائیٹریا پر پورا نہیں اترتا میں اسے ملازم نہیں رکھتا‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا ٗ وہ بولا ’’جب کوئی شخص میرے پاس نوکری کے لئے آتا ہےتو میں اس سے پوچھتا ہوں ٗ کیا تم عبادت کرتے ہو ٗ اگر وہ ہاں میں جواب دے تو وہ میرا پہلا امتحان پاس کر جاتا ہے‘‘ میں نے اسے ٹوک کر پوچھا ’’عبادت سے تمہاری کیا مراد ہے‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’اگر وہ مسلمان ہے تو کیا وہ نماز پڑھتا ہے ٗ وہ عیسائی ہے تو کیا وہ چرچ جاتا ہے ٗ یہودی ہے تو سیناگوگا ٗ ہندو ہے تو مندر اور بدھ ہے توکیا وہ ٹمپل جاتا ہے ٗ وہ کسی مذہب کا ماننے والا ہو میں صرف یہ دیکھتا ہوں کیا اس کا مذہب کے ساتھ تعلق قائم ہے‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ٗوہ بولا ’’میں اس سے پوچھتا ہوں وہ اپنے خاندان ٗ بیوی اور بچوں کو کتنا وقت دیتا ہے ٗ اگر اس کا جواب روزانہ چار گھنٹے اور ہفتے میں دو دن ہو تو میں اسے ملازم رکھ لیتا ہوں ٗ میں طلاق یافتہ اور مطلقہ لوگوں کو ملازمت نہیں دیتا ٗ اگر کوئی کنوارہ شخص میرے ادارے میں ملازم ہوجائے تو وہ سال کے اندر اندر شادی کا پابند ہوتا ہے‘‘ میرے لئے یہ شرط بھی عجیب تھی لیکن میں خاموش رہا ٗ وہ بولا ’’میں یہ دیکھتا ہوں کیا وہ سال میں ایک مہینے چھٹیاں لیتا ہے اورکیاوہ یہ چھٹیاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی اچھے مقام پر گزارتا ہے ٗ میں یہ دیکھتا ہوں وہ اوور ٹائم تو نہیں لگاتا اور وہ ہفتے اور اتوار کی چھٹی اپنے خاندان ٗ اپنے دوستوں کے ساتھ گزارتا ہے ٗ اگر مجھے معلوم ہو وہ سارا سال کام کرتا ہے ٗ وہ اوور ٹائم لگاتا ہے یاوہ ہفتے اور اتوار کے دن بھی کام کرتا ہے تو میں اسے ملازم نہیں رکھتا ٗ ‘ میں خاموش رہا ٗ وہ بولا ’’میں اس سے پوچھتا ہوں کیا وہ ہفتے میں کم از کم پانچ دن ایکسرسائز کرتا ہے ٗ کیاوہ واک ٗ جاگنگ ٗسائیکلنگ اور ویٹ ٹریننگ کرتا ہے ٗ اگر اس کا جواب ناں میں ہو تو میں فوراً معذرت کر لیتا ہوں‘‘ میں اس کی بات غور سے سنتا رہا ٗ وہ بولا ’’اور میں اس سے آخری سوال پوچھتا ہوں ٗکیا وہ باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہے ٗ کیا وہ اخبارات ٗ رسائل یا کتابیں پڑھتا ہے اور کیا اس کے دوستوں میں کوئی پڑھا لکھا شخص موجود ہے ٗ اگر وہ ہاں کہہ دے تو میں اسے نوکری دے دیتا ہوں‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔

میں نے جوزف سے کہا ’’یہ ساری چیزیں تو ذاتی ہیں ٗ ان کا کام کے ساتھ کوئی تعلق نہیںاور یہ ملازمت کے مروجہ اصولوں کے بھی خلاف ہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور میرا ہاتھ دبا کر بولا ’’مجھے معلوم تھا تم مجھ سے یہی کہو گے‘‘ وہ تھوڑی دیر رکا ٗ اس نے ہیٹ اتار کر سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر بولا ’’ان تمام چیزوں کا تعلق ذات سے نہیں بلکہ وفاداری سے ہے ٗ میں سمجھتا ہوں جو شخص اپنے ساتھ وفادار نہیں وہ دنیا کے کسی شخص کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتا ٗ جو شخص اپنے رب کی اطاعت نہیں کرتا وہ دنیا کے کسی شخص کی اطاعت نہیں کرتا ٗجو شخص اپنے آرام کا خیال نہیں رکھتا وہ کسی شخص کو آرام نہیں پہنچا سکتا ٗ جو شخص اپنے خاندان کو وقت نہیں دے سکتا وہ دنیا کے کسی شخص کو وقت نہیں دیتا ٗ جو شخص اپنی صحت اور سلامتی کا خیال نہیں رکھتا وہ شخص کسی شخص کی سلامتی اور صحت کا خیال نہیں رکھ سکتا اور جو شخص پڑھتا نہیں وہ شخص زندگی میں سیکھتا نہیں اورجو شخص زندگی میں سیکھتا نہیں وہ کسی ادارے کسی کمپنی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ‘ میرا فلسفہ ہے جو شخص اپنے ساتھ وفادار نہیںوہ کسی ادارے ٗ کسی کمپنی اورکسی شخص کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتا لہٰذا میں ہمیشہ اپنے لئے وفادار لوگوں کا انتخاب کرتا ہوں ‘‘

 اس کی بات میرے لئے بالکل نئی تھی ٗ میں نے سوچا ’’واقعی وفاداری کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے جو شخص اپنے ساتھ بے وفا ہو وہ دوسروں کے ساتھ وفاداری کیسے کرسکتا ہے ٗ جو شخص اپنے اللہ کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہو ٗ جو اپنی ذات کے ساتھ دغا کر رہا ہو ٗ جس نے اپنے خاندان ٗ اپنے وجود اور اپنے ذہن کو محروم کر رکھا ہووہ دوسروں کے ذہن ٗ وجود اور خاندان کو کیسے نواز سکتا ہے وہ ان کا بھلا کیسے سوچ سکتا ہے ‘‘ میں نے اس یہودی کا ہاتھ تھاما ٗ اسے سیلوٹ کیا اور باہر آ گیا اور فٹ پاتھ پر کھڑا ہو کر سوچنے لگا ’’میں بھی ان لوگوں میں شمار ہوتا ہوں جوروز اپنے ساتھ بے وفائی کرتے ہیں ٗ جو اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں اورانہوں نے اس دھوکے کو پروفیشن ٗ جاب اور مصروفیت کا نام دے رکھا ہے‘‘ میں نے اسی وقت اپنا تھیلا کندھے پررکھا اور فٹ پاتھ پر جوگنگ شروع کر دی ٗ میں نے وفاداری کے میدان میں پہلا قدم رکھ دیا۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...