ڈاکٹر کفیل کا قصور کیا ہے؟

معصوم مرادآبادی
معصوم مرادآبادی
معصوم مرادآبادی
گزشتہ تین سال سے اترپردیش کی یوگی سرکار ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کررہی ہے، اس کے چرچے ہر زبان پر ہیں۔ ہر شخص کہہ رہا ہے کہ ڈاکٹر کفیل کو مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔حالانکہ وہ اکیلے شخص نہیں ہیں، جنھیں موجودہ نظام میں مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن ڈاکٹر کفیل کا معاملہ اس لئے شہ سرخیوں میں ہے کہ یوگی سرکار انھیں سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے‘ وہ انھیں سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیتی ہے۔پچھلے دنوں ان پر جن الزامات کے تحت این ایس اے کی کارروائی کی گئ تھی، انھیں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے خارج کرتے ہوئے انھیں رہا کردیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سی اے اے مخالف احتجاجی پروگرام میں کی گئی ان کی جس تقریر کو نفرت انگیز اور تشدد آمیز قرار دیا گیاتھا، اسے عدالت عالیہ نے قومی یکجہتی اور اتحاد کی علامت قرار دیا ہے۔اس تقریر کی ویڈیو سننے کے بعد عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے اسے اپوزیشن نے یوگی حکومت کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچے سے تعبیر کیا ہے۔ ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس نے ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ”ڈاکٹر کفیل کی رہائی کا حکم ظالم وجابر اقتدار کے منہ پر کرارا طمانچہ ہے۔ظلم کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ عدالتیں انصاف کے لئے کھلی ہیں۔“ ڈاکٹر کفیل نے متھرا جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنے گھر گورکھپور جانے کی بجائے راجستھان کے شہر جے پور کی راہ لی ہے۔ انھوں نے وہاں پہنچ کر کہا کہ”میں یہاں خود کوزیادہ محفوظ محسوس کررہا ہوں، کیونکہ اترپردیش میں مجھے اور میرے بیوی بچوں کی جان کا خطرہ ہے۔“ یہ کسی بھی صوبائی حکومت کے لئے سب سے شرمناک صورتحال ہوسکتی ہے کہ اس کا کوئی شہری عدم تحفظ کے احساس کے تحت کسی دوسرے صوبے میں پناہ لے۔
 مرکز کی مودی سرکار اور اترپردیش کی یوگی سرکار کے عمل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ راج دھرم نبھانے کی بجائے اس ملک کے کمزور طبقوں اور بالخصوص مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے کی راہ پر گامزن ہیں۔پوری بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ ایسے ظالمانہ اقدامات کئے جارہے ہیں کہ ہمیں یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم ایک سیکولر جمہوری ملک کے باشندے ہیں۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے غیر جمہوری اور مسلم مخالف فیصلوں سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس“ کے نعرے پر اقتدار میں آنے والی حکومت صرف اکثریتی طبقے کو خوش کرنے اور مسلم اقلیت کو ہراساں کرنے کے اقدامات پوری ڈھٹائی کے ساتھ کررہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ سرکاری مشینری کی جابرانہ کارروائیوں سے ملتا ہے۔شہریت ترمیمی قانون پوری طرح مذہبی تفریق پر مبنی ہے اور اس میں مسلمانوں کے علاوہ تمام دیگر مذاہب کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا التزام ہے۔ یہ واضح طور پر دستور میں کی گئی ایک قطعی فرقہ وارانہ ترمیم ہے جو ہندوستان کے سیکولر جمہوری آئین میں دئیے گئے بنیادی شہری حقوق کی نفی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس غیر دستوری ترمیم کے خلا ف ملک کے تمام انصاف پسند حلقے میدان میں آگئے ہیں اور اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے بھی اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
مسلمانوں نے اس صریحاً ناانصافی کے خلاف احتجاجی تحریک میں حصہ لیا،جو  ان کا جائز جمہوری حق تھا، لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے ایسے تمام سرکردہ لوگوں کو ’سبق‘ سکھانے کے لئے ان پر سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کرکے انھیں جیلوں میں ڈال دیاہے۔دہلی جو اس احتجاجی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا اور جہاں شاہین باغ جیسا بے نظیر احتجاج کیا گیا، وہاں پولیس نے اس میں حصہ لینے والے تمام سرکردہ لوگوں پر دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی۔ان پر نارتھ ایسٹ دہلی میں فساد بھڑکانے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ دہلی میں فساد برپا کرنے کی مکمل ذمہ داری بی جے پی کے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما جیسے لیڈروں پر ہے جو دہلی اسمبلی کے چناؤکو فرقہ وارانہ رخ دینے کے لئے مسلسل اشتعال انگیزیاں کررہے تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس نے عدالت عالیہ کی ہدایت کے باوجود ان لوگوں کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا ہے۔جبکہ اس معاملے میں ہرش مندر اور پروفیسر اپوروا نند جیسے انسانی حقوق کے نامی گرامی کارکنوں پر فساد بھڑکانے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔جے این یو کے طالب علم عمر خالد نے الزام لگایا ہے کہ پولیس ان کے خلاف فساد پھیلانے کے الزام میں جھوٹ کا طومار باندھ رہی ہے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں پولیس کمشنر کو خط بھی لکھا ہے۔اترپردیش کے لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر سنگین مقدمات قائم کرنے کے علاوہ ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔
 اس کا واضح پیغام یہی ہے کہ حکومت کی من مانی اور دستور مخالف اقدامات کے خلاف کوئی احتجاج نہ کرسکے۔ڈاکٹر کفیل خان بھی حکومت کی اسی ظالمانہ پالیسی کا شکار بنے اور ان پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قومی یکجہتی کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی۔ان کا ’جرم‘اتنا سنگین تھا کہ یوپی پولیس نے ممبئی تک ان کا تعاقب کیا اور انھیں گرفتار کرکے متھرا جیل میں ڈال دیا گیا۔ہائی کورٹ کے حکم پر اپنی رہائی کے بعد ڈاکٹر کفیل نے ان مظالم کی داستان بیان کی ہے، جو قید وبند کے دوران ان پر روا رکھے گئے۔دراصل ڈاکٹر کفیل2017 سے یوپی سرکار کے نشانے پر ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے شہر گورکھپور کے بی آرڈی میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی کے باعث 60سے زیادہ بچوں کی موت ہوئی تھی تو اس وقت ڈاکٹر کفیل نے اپنی جان پر کھیل کر آکسیجن سیلنڈر مہیا کئے اور کئی بچوں کی جانیں بچالیں۔ اس واقعہ سے جہاں یوگی سرکار کی بدنامی ہوئی تو وہیں اس معاملے میں ڈاکٹر کفیل کے کردار کی سراہنا کی گئی اور وہ ایک ہیرو کے طور پر ابھرے۔مگرحکومت نے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انھیں ملازمت سے معطل کردیا اور ان کے خلاف انکوائری بٹھا دی گئی۔وہ اس جانچ میں قطعی بے قصور پائے گئے، لیکن اس کے باوجود انھیں بحال نہیں کیا گیا اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری رکھی گئیں۔
 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تقریر کرنے کی پاداش میں ان پر قائم کیا گیا مقدمہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا، جسے عدالت عالیہ نے غیر قانونی قرار دے کر ان کی رہائی کا حکم سنایا۔الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس سومتر دیال سنگھ کی بنچ نے گزشتہ منگل کو کہا کہ ڈاکٹر کفیل خان کی تقریرنفرت اور تشدد کو بڑھاوا نہیں دیتی۔ اس تقریر میں قومی یکجہتی اور شہریوں سے اتحاد کی اپیل کی گئی ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ ڈاکٹر کفیل کی ماں نزہت پروین کی طرف سے داخل عرضی پر سنایا۔ عدالت عالیہ نے کہا کہ پہلی نظر میں یہ تقریر ایسی نہیں ہے کہ کوئی معقول شخص اس نتیجے پر پہنچے گاجیسا کہ علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ نے حکم دیا۔ عدالتی بنچ نے کہا کہ”پہلی نظر میں تقریر پوری پڑھنے سے نفرت یا تشدد کو بڑھاوا دینے کی کسی بھی کوشش کا انکشاف نہیں ہوتاہے۔ اس سے علی گڑھ شہر کے امن کے لئے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ تقریر ہر قسم کے تشددکی مخالفت کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ضلع مجسٹریٹ نے تقریر کے کچھ ہی حصوں کو پڑھا ہے اور اسی کا تذکرہ کیا ہے اور تقریر کے اصل ارادے کونظر انداز کیا۔“ڈاکٹر کفیل کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے منصفانہ فیصلے سے ایک بار پھر عدلیہ پر مسلمانوں کا اعتماد مضبوط ہوا ہے۔اس سے قبل ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے تبلیغی جماعت کے غیر ملکی  کارکنوں کو تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے جو تاریخی فیصلہ سنایا تھا‘ وہ بھی انصاف کی راہ میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ظاہر ہے ظلم اور نا انصافی کی رات کتنی ہی سیاہ اور مہیب کیوں نہ ہو‘اس کی صبح ضرور ہوتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *