Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

علامہ اقبال کے سسر ڈاکٹر عطا محمد کی قبر پر حاضری

by | Sep 10, 2020

gjhw

تحریر : شیخ عبدالرشید
مفکر پاکستان علامہ اقبال کی پہلی شادی 5مئ 1893ء کو گجرات کے نامور ڈاکٹر شیخ عطا محمد کی بیٹی کریم بی بی سے ہوئی تھی ۔ تاریخ میں اس کا خوب ذکر ہے ۔ آج برادرم شاہد گلزار کے ہاں لنچ پر ادبی بیٹھک کا موقع ملا جہاں باتوں ہی باتوں میں علامہ اقبال ،انکی شادی اور سسرال کا ذکر چل نکلا تو میں نے ڈاکٹرایم ابو بکر فاروقی سے عرض کیا کہ کیوں نہ خسر اقبال کی قبر پر فاتحہ ہی پڑھ آئیں ۔علمی ذوق کے ابو بکر فاروقی نے اپنی مصروفیات کو پسِ پشت رکھتے ہوئے کہا کہ ضرور ،اگر واپسی پر ڈاکٹر عطا محمد سے نئ نسل کو متعارف بھی کروانے کا وعدہ کریں ۔میرے ذہن میں اقبال اور گجرات کا عکس ابھرا اور میں ادب دوست شاہد گلزار اور ڈاکٹر ابو بکر فاروقی کے ہمراہ گجرات کے مشہور قبرستان بھٹیاں میں علامہ اقبال کے پہلے سسر خان بہادر الحاج ڈاکٹر حافظ شیخ عطا محمد کی قبر پر حاضری دینے اور دعائے مغفرت کے لیے نکل پڑا ۔قبرستان پہنچے تو تھوڑی تگ و دو کے بعد وہ مختصر احاطہ کھوج لیا جہاں انکی قبریں ہیں ۔قبر اور ملحقہ قبور کی حالت بتا رہی تھی کہ شاید عرصہ سے کوئی ان خستہ حال قبور پر پھول ڈالنے کے لیے نہیں آیا ۔ قبر پر کھڑے ہو کر گجرات کے اس گھرانے کو بہت یاد کیا جس کا تذکرہ تحقیق و تحریر کے حوالے سے فخر گجرات ڈاکٹر منیر احمد سلیچ اپنی کتابوں ” خفتگان خاک گجرات ” اور ” اقبال اور گجرات ” میں بھرپور انداز اور تکریم و تحقیق سے کر چکے ہیں ۔
شاعر مشرق علامہ اقبال کے خسر ڈاکٹر شیخ عطا محمد گجرات شہر کے محلہ کٹڑہ شالبافاں کے رہائشی تھے ۔ان کے دادا تجارت کے لیے کشمیر سے آ کر گوجرانوالہ آباد ہوئے ۔ ان کے صاحبزادے شیخ عبداللہ نے تعلیم کے حصول کے بعد انگریز سرکار میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد گجرات میں سکونت اختیار کی ۔انہی کے ہاں 20 نومبر 1855ء کو عطا محمد گجرات میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم کے ساتھ انہوں نے قرآن مجید بھی حفظ کیا۔ 1872ء میں مشن سکول گجرات سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔بعد ازاں لاہور میڈیکل سکول جسے آجکل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کہتے میں داخلہ لیا اور جنوری 1878ء میں سب اسسٹنٹ سرجن کا کورس مکمل کیا ۔اس سال اس ادارے سے یہ کورس پاس کرنے والے گیارہ طالبعلموں میں شیخ عطا محمد واحد مسلمان تھے۔ یکم اگست 1878ء سے انہوں نے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا۔15 ستمبر سے 15دسمبر 1878ء تک ہری پور ڈسپنسری میں انچارج رہے۔پھر میو ہسپتال جنرل ڈیوٹی پر آگئے اور وہاں 20 جنوری 1879 تک رہنے کے بعد ان کی خدمات فوج کے سپرد کر دی گئیں ۔مہاراجہ پٹیالہ اور جھینڈ کی افواج کے ساتھ بطور اسسٹنٹ میڈیکل آفیسر رہے۔چند ماہ کوہاٹ اور بنوں میں رہنے کے بعد واپس میو ہسپتال آگئے ۔ کچھ مہینوں بعد پھر فوج میں فیلڈ فورس میں خدمات سر انجام دینے لگے۔جہاں وہ 31 اکتوبر 1880ء تک رہے ۔ اس کے بعد انہیں فرسٹ گریڈ اسسٹنٹ سرجن کے عہدے پر ترقی دے دی گئ۔ چونکہ انہوں نے جنگ افغانستان کے دوران خدمات انجام دی تھیں اس لیے انہیں افغانستان وار میڈل بھی عطا کیا گیا۔ اس کے بعد وہ جنرل ڈیوٹی پر میو ہسپتال لاہور ،علی پور ڈسپنسری انچارج مظفر گڑھ , امرتسر میں سول ہسپتال کے انچارج ،سنٹرل جیل لاہور میں ڈپٹی میڈیکل آفیسر اور گجرات کے سرکاری طبیبوں کے انچارج بھی رہے ۔
مارچ 1883ء ان کی خدمات گورنمنٹ آف انڈیا کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دی گئیں ۔وہ قلات کی سرکاری ڈسپنسری کے انچارج بھی رہے۔اس دوران انہیں ہز میجسٹی کونسل حدیدہ جو آجکل یمن کی بندرگاہ ہے اور قامران میں طبی خدمات کے لیے تعینات کر دیا گیا۔ وہاں کی پیشہ وارانہ خدمات کا اعتراف سیکرٹری آف سٹیٹ نے بھی کیا ۔انہیں 24 مئ 1889ء کو ” خان بہادر ” کا خطاب دیا گیا۔ سلطان روم نے بھی انہیں ” تمغۂ عثمانی ” سے نوازا لیکن اسے وہ سرکاری وجوہات کی بنا پر قبول کرنے سے قاصر رہے۔ 1891ءمیں وطن واپس آگئے کچھ عرصہ پنجاب میں جنرل ڈیوٹی پر رہے اور پھر چکوال ڈسپنسری اور پنڈ دادنخان ڈسپنسری میں رہے۔ نومبر 1894ء میں اسسٹنٹ سرجن درجہ اول ہو گئے۔ انہی دنوں 1893ء میں ان کی بڑی صاحبزادی کریم بی بی کی شادی محمد اقبال سے ہوئ۔ ان کی پنڈ دادنخان میں تعیناتی کے دوران ہی ان کی بیٹی کریم بی بی کے ہاں بیٹے آفتاب اقبال کی پیدائش ہوئی ۔1889ء میں ڈاکٹر عطا محمد کو وائسرائے ہند کا اعزازی سرجن مقرر کر دیا گیا۔1900ء میں انہیں سینئر گریڈ میں ترقی دی گئ۔ پھر وہ سول سرجن شاہ پورڈیرہ اسماعیل خا ن گوڑگاںراولپنڈی ،اٹک ڈیرہ غازی خان،مظفر گڑھ اور میانوالی میں یکم دسمبر 1912ء تک رہے۔ انکی ریٹائرمنٹ پر ان کی 34 سالہ خدمات کے اعتراف میں ملکہ وکٹوریہ نے انہیں گولڈ میڈل بھی دیا۔ شیخ عطا محمد دو سال تک انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عطا محمد والئ ریاست مالیر کوٹلہ نواب سر محمد احمد علی خان کے ہاں چیف میڈیکل آفیسر ہو کر 15ستمبر 1918ء تک خدمات انجام دیتے رہے ۔اس کے بعد گجرات میں اپنے آبائی گھر میں ہی باقی زندگی مقیم رہے ۔
1921ء میں اچانک انہیں بڑا صدمہ سہنا پڑا کہ ان کا جوان بیٹا ڈاکٹر غلام محمد جو چند سال پہلے ہی لیورپول یونیورسٹی انگلینڈ سے میڈیسن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آیا تھا بھری جوانی میں صرف 29 سال کی عمر میں راولپنڈی ملٹری ہسپتال میں وفات پا گیا ۔ اس کے بعد وہ بہت غمزدہ رہنے لگے اور یہی دکھ ان کی جان کے درپے ہو گیا۔ وہ 14 دسمبر 1922ء کو دم توڑ گئے ۔ انہیں محلہ گیان پورہ جو تقسیم ہند کے بعد مسلم آباد کہلانے لگا کے مشہور تاریخی قبرستان بھٹیاں والا میں بیٹے ڈاکٹر غلام محمد کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ڈاکٹر شیخ عطا محمد کی قبر پر دو کتبے ہیں ۔ان کے ایک طرف ان کے بیٹے غلام محمد کی قبر ہے تو دوسرے پہلو میں اگست 1938ء میں وفات پانے والی ان کی اہلیہ زینب بی بی کی قبر ہے ۔ آج ان قبور پر اللہ کریم کے حضور دعا کی کہ تاریخ گجرات کے ان ناموروں کی قبور کو اپنی رحمت و فضل سے نواز دے اور ان کے درجات بلند کرے۔ میں ہمیشہ برادرم ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کے لیے دعاگو ہوں کہ.گجرات کی تاریخ ان کے محققانہ ذوق و شوق سے محفوظ ہو گئی ہے ۔
پروردگار عالم جزائے خیر عطا کرے ۔۔آمین

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...