Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ہندوستان میں مسلمانوں کو الله سے بغاوت پر آمادہ کرنے والے افراد اور ادارے

by | Sep 16, 2020

سود

ڈاکٹر خالد حامدی فلاحی
جناب امین عثمانی ندوی صاحب، سکریٹری اسلامی فقہ اکیڈمی (IFA)، نئی دہلی، جن کا ابھی چند دن قبل 2 ستمبر 2020ء میں انتقال ہوا، وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں میرے کلاس فیلو تھے،اس فرق سے کہ وہ بی اے پاس  کا کورس  کر رہے تھے اور میں بی اے انرز ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ نہایت ہنس مکھ بہترین صلاحیتوں کے مالک ایک متحرک شخص تھے۔ سیمی (SIMI) کے بنیادی بانی اراکین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ بعد میں وہ جماعت اسلامی ہند کے بھی رکن بنے، جس پر وہ تاحیات باقی رہے۔ انسٹٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز (OIS) سے متعلق اسلامک فقہ اکیڈمی (IFA) کے سیکریٹری ہی نہیں بلکہ  اس کے روح رواں تھے اور اس طرح ڈاکٹر منظورعالم اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے گہرے روابط میں تھے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک وقت میں ڈاکٹر منظور عالم کا دایاں ہاتھ امین عثمانی صاحب اور بایاں ہاتھ مجاہد الاسلام قاسمی صاحب تھے۔
اسلامی فقہ اکیڈمی (IFA) نے مختلف مسائل میں مسلمانان ہند کی رہنمائی کے لیے مختلف فیصلے کیے۔ ان میں سے کم از کم ایک فیصلہ ایسا ہے جو کہ کوئی بھی اللہ اور آخرت پر یقین کرنے والا صاحب ایمان بہ قید ہوش و حواس  اسے کسی طرح بھی   صحیح  تسلیم نہیں کر سکتا۔
30-31 اکتوبر 1992ء میں جامعۃ الرشاد آعظم گڑھ (یوپی) میں اسلامک فقہ اکیڈمی (IFA) نئی دہلی کے زیر اہتمام زکوۃ جیسے فرض اور بنیادی رکن اسلام سے متعلق امور پر بلائے گئے ساتویں فقہی سیمینار میں مندرجہ ذیل اسلامی شریعت کو صریحا مسترد کر دینے والا مندرجہ ذیل فیصلہ کیا گیا:
“مروجہ انشورینس اگرچہ شریعت میں ناجائز ہے کیوں کہ وہ ربا (سود)، قمار (جوا)، غرر (دھوکےبازی/سٹّےبازی) جیسے شرعی طور پر منموع معاملات پر مشتمل ہے، لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں، جب کہ مسلمانوں کی جان و مال، صنعت و تجارت وغیرہ کو فسادات کی وجہ سے ہر آن شدید خطرہ لاحق رہتا ہے، اس کے پیش نظر “الضرورات تبيح المحظورات” رفع ضرر دفع حرج اور تحفظ جان و مال کی شرعا اہمیت کی بنا پر ہندوستان کے موجودہ حالات میں جان و مال کا بیمہ کرانے کی شرعا اجازت ہے۔”
(اہم فقہی فیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی(IFA)، صفحہ: 43، نئی دہلی، 1997ء)
اس فیصلے پر دست خط کرنے والوں کی تعداد 53 بتائی گئی۔ واضح رہے کہ انسٹٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز (OIS) اقوام متحدہ کے ماتحت ادارے یونیسکو (UNESCO) کا رجسٹرڈ ممبر ہے اور اس کی ساری سرگرمیاں اس سودی رقم سے چلتی ہیں جو کہ امریکہ اور یورپ کے بینکوں میں عرب اکاؤنٹ سے ملتا ہے۔ اپنی سرگرمیوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے ایفا نے سود خور اور سود نواز علما کو جمع کرکے یہ فیصلہ کروایا۔
اس فیصلے کے سلسلے میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں:
1۔ کیا جن امور کو الله  نے نص صریح کے ذریعے حرام یا حلال کیا ہو، اسے آج کے علما تو کیا خود اللہ کے آخری رسولﷺ اپنے طور سے بدل سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب قرآن اور احاديث کی روشنی میں ‘نہیں’ کے علاوہ کچھ اور نہیں ملتا ہے۔
2۔ فیصلے میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ سود، جوا اور دھوکا/سٹّے بازی، یہ تینوں چیزیں شریعت میں حرام و ممنوع ہیں، تو پھر کون سے ضابطے اور قانون کے تحت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے ان چیزوں کو جائز قرار دے دیا گیا جب کہ قرآن اور احادیث میں کہیں پر بھی ان امور خصوصا سود کو جاری رکھنے کے سلسلے میں کوئی استثنا بھی نہیں دیا گیا ہے؟
3۔ الضرورات تبيح المحظورات. (ضرورتیں ممنوع چیزوں کو مباح کر دیتی ہیں) اس کو اس طرح سے پیش کیا گیا گویا کہ یہ قرآن کی کوئی آیت یا مستند حدیث یا کوئی مسلمہ فقہی ضابطہ ہو۔ حقیقت میں یہ ایک ابلیسی اصول ہے جس کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اسلام میں پھر کوئی چیز حرام باقی ہی نہیں رہتی۔ مثلا شادیاں بہت دشوار ہو گئی ہیں اس میں بہت تاخیر ہو رہی ہیں، تو کیا بدکاری اور ہم جنسی کو مباح قرار دیا جائے گا؟
غریبی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے تو کیا چوری، ڈاکہ زنی، دھوکا دہی اور فریب کو مباح قرار دیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔
4۔ جن امور یعنی تحفظ جان و مال کو سامنے رکھ کرمسلمانوں کے لیے اللہ کی واضح طور پر حرام کردہ چیزوں کی اجازت دی گئی ہے تو کیا اس سے زیادہ برے حالات اس وقت نہ تھے جب کہ سود کو الله اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے حرام کیا جا رہا تھا۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جب کہ ملک میں بابری مسجد کے تعلق سے کافی تناؤ پایا جاتا تھا اور حالات بگڑتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمانوں کو دعوت دی جاتی کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں، الله کی نافرمانی اور سرکشی سے باز آ جائیں، توبہ وہ استغفار کریں اور آئندہ کے لیے عہد کریں کہ وہ الله اور اس کے رسولﷺ کی کوئی نافرمانی نہیں کریں گے، جیسا کہ ہمیں تاریخ میں اپنے اسلاف سے اسی قسم کے رویے کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ بالکل برعکس کہ انتے پرخطر ماحول میں کھلّم کھلّا الله کی ان حرام کردہ چیزوں پر مسلمانوں کو عمل کی دعوت دی جارہی تھی، جن سے باز نہ آنے کی صورت میں الله نے ان لوگوں کو بھی پمیشہ کے لیے جہنم کی دھمکی دی ہے اور الله اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کرنے والا قرار دیا ہے، جو کہ ایمان کا دعوا کرتے ہیں(دیکھیے: قرآن، البقرۃ 2: 275، 278، 279)
اس وقت تک رسالہ ماہ نامہ ‘اللہ کی پکار’   نئی دہلی کا اجرا عمل میں نہیں آیا تھا، لیکن میں نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کرکے اس کے خلاف ایک تحریر اشاعت کے لیے اخبارات کو روانہ کی جو کہ 3 دسمبر 1992ء کو سہ روزہ ‘دعوت’ نئی دہلی  میں ‘یہ اسلامی اصولوں کی فتح سمجھی جائے گی یا شکست؟’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
یہ فیصلہ عام افراد کا نہیں بلکہ کچھ علما کا تھا، جس کو بڑے پیمانے پر نشر بھی کیا گیا۔ سود کے تعلق سے اللہ تعالی نے جہاں یہ بتایا ہے کہ سود لینے سے باز نہ آنے والے پمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے، وہیں یہ بھی بتایا ہے کہ سود سے باز نہ آنے والوں کے خلاف الله اور اس کے رسول کا اعلان جنگ ہے۔ اور جس کے خلاف الله کا اعلان جنگ ہو، وہ نہ دنیا میں کام یاب ہو سکتا ہے نہ آخرت میں۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا، بابری مسجد جس کو دستوری، قانونی، صوبائی اور مرکزی تحفظ کی مکمل یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں، 6 دسمبر 1992ء کو دن دہاڑے کھلی روشنی میں تمام سیکیورٹی فورسیز کی موجودگی میں زمین سے برابر کر دیا گیا اور اسے گرانے سے کوئی بھی بچا نہ سکا۔ گویا کہ الله تعالی نے یہ بتا دیا کہ جس طرح الله کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، بلکہ تقوا پہنچتا ہے، اسی طرح الله کو مسجد کے اینٹ پتھر اور عمارت نہیں، بلکہ نمازیوں کا تقوا پہنچتا ہے۔ اب جب کہ وہ باقی نہیں رہا اور الله تعالی کے خلاف کھلّم کھلّا بغاوت اور سرکشی کا اعلان کر دیا گیا تو الله تعالی نے اپنے مشرک بندوں سے بابری مسجد زمین سے برابر کرا دی، بالکل اسی طرح جس طرح کہ اللہ نے مسجد اقصی کو  عیسی مسیح علیہ السلام سے تقریبا 600 سال قبل بابل کے مشرک فرماں روا بخت نصر اور دوسری بار عیسی علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد رومی مشرک بادشاہ ٹیٹس کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ مسمار کرایا، بلکہ بنی اسرائیل اور یہودیوں کا قتل عام بھی کرایا۔ اور ان کے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ( قرآن، بنی اسرائیل / الاسراء  17 : 8_4 ) یہ اسی صورت میں ہوا جب کہ بنی اسرائیل/یہودی سمجھانے اور بتانے کے باوجود الله کی سرکشی سے باز نہیں آئے۔ بالکل یہی عمل بابری مسجد کے سلسلے میں بھی دیکھنے میں آیا کہ نہ صرف یہ کہ 5 سو سالہ قدیم بابری مسجد مسمار کی گئی بلکہ اس کے بعد وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام اور تباہی اور بربادی بھی سامنے  ہی نہیں آئی بلکہ بہ تدریج ان کے اوپر ایسے حکم راں مسلط کر دیے گئے، جو ان کے وجود اور ان کے مذہب کو ختم کرنے ہی کے درپے نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ڈاکٹر منظور عالم بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان کو بے انتہا مالی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ علما اور مدارس کو انھوں نے خوب خوب نوازا ہے۔ دس بارہ سال سے وہ ہر سال شاہ ولی اللہ ایوارڈ اور ایک لاکھ روپے کسی نہ کسی اہم شخصیت کو دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ علما کی جانب سے ان کے کسی اقدام کی بھرپور مخالفت کی گئی ہو۔ لیکن چوں کہ یہ سارا پیسہ سود کا  ہوتا ہے،اس لیے کہیں بھی فائدہ دیتا اور بارآور ہوتا نظر نہیں آیا۔
ڈاکٹر منظور عالم اور ان کی ہم نوا دوسری شخصیات ملکی اور عالمی پیمانے پر اتنی بااثر ہیں کہ وہ چاہتے تو اس پورے سودی نظام کے خلاف فضا بناکر اس کا اسلامی متبادل بھی فراہم کر سکتے تھے۔ لیکن چوں کہ سود ہی کے پیسے سے یہ ساری چیزیں ہو رہی تھیں، تو اصلاح کے بجائے فساد فی الارض کے نتائج ہی دیکھنے کو ملے۔
بیمہ اور انشورینس اور بینکنگ سود کے بڑھتے ہوئے چلن کو دیکھتے ہوئے ڈی پی اے (DPA) نیوز ایجنسی کے مطابق 17 دسمبر 2004ء کو انڈونیشیا کی مجلس علما کے سربراہ شیخ معروف امین نے اعلان کیا:
“بینک، انشورینس کمپنیوں اور کارپوریٹو جسے تمام مالی اداروں کی طرف سے ملنے والا سود اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سود بالکل اس ربو کے مترادف ہے جسے پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے زمانے میں حرام قرار دیا گیا ہے۔”
مسلمانان ہند میں بڑھتے ہوئے لعنتی اور ابلیسی سودی رجحان پر صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ شیخ رابع حسنی ندوی نے فروری-مارچ 2008ء کے بورڈ کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطبے میں خصوصی طور سے اس طرح سے تنبیہ کی:
“مسلمانوں میں بھی سود لینے اور دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ وہ برائی ہے جسے اسلام اور دیگر سبھی بڑے مذاہب میں ممنوع قرار دیا ہے۔  الله نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر تم نے سود لینا اور دینا بند نہیں کیا تو الله اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔”
ابھی اس انتباہ کی بازگشت جاری ہی تھی کہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی واضح تنبیہ کو بے اثر کرنے، مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کے انحراف کے عمل کو تیز تر کرنے اور الله سے بہ راہ راست مسلمانوں کا ٹکراؤ کرانے کے لیے امین عثمانی ندوی   صاحب کا اپنے استاد کے بیان کے خلاف ایک بیان 23 مارچ 2008ء کو مختلف نیوز ایجنسیز کے ذریعے عام کیا گیا کہ اسلامی فقہ اکیڈمی اپنے چودویں اجلاس میں ببمہ اور انشورینس کے سلسلے میں اپنے سابقہ 1992ء کے فیصلے کا اعادہ کرتے ہوئے حرام ہونے کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کو بیمہ کرانے کی خاص چھوٹ دی جاتی ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو ڈاکٹر منظور  عالم اور امین عثمانی ندوی کی سربراہی میں مسلمانوں کو ذہنی اور عملی طور سے الله سے بغاوت اور سرکشی اور الله سے کھلّم کھلّا جنگ کے لیے تیار کیا گیا۔ یہ اسی چیز کا نتیجہ تھا کہ بابری مسجد کیس نہ تو ہائی کورٹ میں جیتا جا سکا اور سپریم کورٹ میں تو  اسے مکمل طور سے زمیں ہی میں دفن کر دیا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ  بھی تھی کہ بابری مسجد مقدمے میں  جو پیسہ لگایا جا رہا تھا، وہ زیادہ ترسود ہی کا پیسہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ الله کا غیظ و غضب اتنا بھڑکا کہ بابری مسجد تو ہاتھ سے گئی ہی، ملک میں مسلمانوں کی ذلت و خواری اپنی انتہا کو جا پہنچی اور ان کا مستقبل بھی ملک میں تاریک سے تاریک تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر مسلمان اب بھی اپنی باغیانہ حرکتوں سے باز نہیں آئے، تو اس عمل میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔
وما علينا إلا البلاغ.

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...