
وعدوں کا انبار جیتے گا بہار

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
اس وقت بہار کا الیکشن پورے شباب پر ہے ۔ ووٹ حاصل کرنے کے لئے وعدوں کی جھڑی لگی ہوئی ہے ۔ بی جے پی ہوا ہوائی وعدوں، فرضی ایگزٹ پول، رام مندر، دفعہ 370، ترقی کے جملوں کے سہارے عوام کو گمراہ کر الیکشن جیتنے کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ اس نے بڑی چالاکی سے اتحادی حکومت کی خامیوں کو نتیش کمار کے سر مڑھ دیا ہے ۔ اس لئے بہار کے لوگ ان سے پندرہ سالہ حکومت کا حساب مانگ رہے ہیں ۔ ڈبل انجن کی سرکار کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے ۔ نتیش کمار کو جھنجھلا کر یہ تک کہنا پڑا ہے کہ ووٹ نہیں دینا چاہتے مت دیجئے، بات تو سن لیجئے ۔ این ڈی اے کے وزیروں سے لے کر وزیراعظم تک کی ریلیوں میں بھیڑ اور کارکنان کے جوش میں کمی دکھائی دے رہی ہے ۔ کئی جگہ تو کرسیوں کو بیٹھنے والے بھی میسّر نہیں ہوئے ۔ چراغ پاسوان بھی نتیش کمار کی مشکلوں میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کی حکومت بنی تو نتیش کمار کو جیل بھیج دیں گے ۔ دوسری طرف مہا گٹھ بندھن کے چھوٹے چھوٹے لیڈران کی ریلیوں میں بھی بھاری بھیڑ جمع ہو رہی ہے ۔ تیجسوی یادو اور کنہیا کمار نوجوانوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں ۔ تیجسوی یادو میں لوگوں کو بہار کا مستقبل دکھائی دے رہا ہے ۔ نوجوانوں میں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ کچھ تو بدلاؤ ہونا چاہئے ۔
تیجسوی کے ذریعہ اٹھائے گئے بے روزگاری، نقل مکانی، تعلیم، صحت، مہنگائی، فاقہ کشی، کسانوں، بزرگوں اور بیواؤں کی پینشن کے سوالوں نے لوگوں کو متوجہ کیا ہے ۔ بے روزگاری بہار میں ہمیشہ سے ہی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے ۔ مگر پہلی بار کسی نے اسے الیکشن میں اچھالا ہے ۔ بہار میں بےروزگاری کی شرح 10.2 فیصد ہے جو قومی شرح 5.8 فیصد سے قریب دوگنی ہے ۔ 18-2019 کے سروے کے مطابق بہار میں تنخواہ پانے صرف 10.4 فیصد تھے جبکہ قومی اوسط 23.8 فیصد تھا ۔ آر جے ڈی کے تیجسوی یادو نے جب دس لاکھ نوکریاں دینے اور ان میں سے 85 فیصد بہاریوں کے لئے مخصوص کرنے کا اعلان کیا تو بی جے پی سمیت پورا این ڈی اے سوال کرنے لگا کہ نوکریاں دینے کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ سشیل مودی نے تو حساب لگا کر یہ تک بتا دیا کہ دس لاکھ نوکریاں دینے سے خزانہ پر 58 ہزار کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا ۔ مگر بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں 19 لاکھ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ کیا یہ دو کروڑ روزگار سالانہ دینے یا پندرہ لاکھ روپے ہر ایک کے کھاتے میں آنے جیسا ہی وعدہ ہے؟
بی جے پی نے اس کے علاوہ 2022 تک 30 لاکھ لوگوں کو پکا مکان، دو لاکھ نئے اساتذہ کی بحالی، بہار کے عوام کو مفت کورونا ویکسین فراہم کرنے اور دوکروڑ خواتین کو خود انحصار بنانے کا وعدہ کیا ہے ۔ مگر انتخابی تشہیر میں اس کا پورا زور ذات، پاکستان، سی اے اے، رام مندر، دفعہ 370 وغیرہ کے ذریعہ ووٹوں کو پولرائز کرنے پر ہے ۔ پندرہ سال حکومت کرنے کے بعد بھی وہ بہار کو بدلنے کے لئے ایک موقع مانگ رہی ہے ۔ ساتھ ہی لالو کے راج کو جنگل راج بتا کر عوام کو ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اسے آج کے بہار میں لا اینڈ آرڈر کی حالت نظر نہیں آ رہی ۔ جہاں تشہیر کے دوران آر جے ڈی کے امیدوار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ بی جے پی کو بہار کے علاوہ ملک میں کہیں بھی جنگل راج دکھائی نہیں دیتا ۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں تو بالکل بھی نہیں ۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے اور رائے دہندگان کی رائے بدلنے کے لئے آپریشن ٹی وی پورم چلایا جا رہا ہے ۔ ٹی وی پر بی جے پی لیڈران کے یکطرفہ لمبے لمبے انٹرویو دکھائے جا رہے ہیں ۔ فرضی بے بنیاد پری پول سروے میں بی جے پی کی جیت دکھا کر عوام میں بھرم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
دوسری طرف آر جے ڈی گٹھ بندھن نے بدلاؤ کا جو ایجنڈہ سیٹ کیا ہے ۔ اس کے سامنے بی جے پی کا کوئی ہتھ کنڈہ کام نہیں آ رہا ۔ راشٹریہ جنتا دل نے اپنے انتخابی منشور میں نوکریوں کے علاوہ اساتذہ کی بحالی، کسانوں کی قرض معافی، غریبوں کے لئے فری ڈائلیسس کی سہولت فراہم کرنے، ڈومیسائل کی نئی پالیسی لانے، نئی صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے، پروفیشنل کمیشن، کسان کمیشن، یوتھ کمیشن بنانے، نوکری کی مستقل پالیسی تیار کرنے، نجی کرن پر تالا لگانے، تعلیم کا بجٹ 22 فیصد کرنے، یکساں کام کے لئے یکساں اُجرت، اسپتال و حفاظتی دستہ کا قیام اور 35 سال تک کے بے روزگاروں کو 1500 روپے کا بھتہ دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ نوکری کے لئے دی جانے والی درخواست پر کوئی فیس وصول نہ کرنے اور امتحان گاہ تک جانے کے لئے مفت سواری کا انتظام کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔ بزرگوں وبیواؤں کے لئے 400 سے بڑھا کر پینشن ایک ہزار روپے کرنے، آشا و آنگن واڑی کارکنوں کی تنخواہ ڈبل کر انہیں ریگولر کرنے کا عہد کیا گیا ہے ۔ کانگریس نے تو اپنے منشور کو ہی بدلاؤ پتر کا نام دیا ہے ۔ اس میں کسانوں کی قرض معافی کے علاوہ بجلی بل معاف کرنے، آبپاشی کی سہولت بڑھانے کی بات کی گئی ہے ۔ کانگریس نے کہا ہے کہ اگر ہماری حکومت آتی ہے تو الگ سے کسان بل لا کر این ڈی اے کے زرعی قانون کو خارج کر دیں گے ۔ جیساکہ پنجاب میں کیا گیا ہے ۔
چھوٹی پارٹیاں بھی دل کھول کر وعدے کر رہی ہیں ۔ پپو یادو بہار کو دنیا کی سب سے ترقی یافتہ ریاست بنانے کی بات کر رہے ہیں ۔ اویسی بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے خود کو بہتر نعم البدل بتا رہے ہیں ۔ چراغ پاسوان سیتا مڑھی میں سیتا کا مندر بنانے، ایس سی ایس ٹی ہاسٹل میں فری وائی فائی، سوکھے و سیلاب سے نبٹنے کیلئے ندیوں کو جوڑنے اور مہاجر مزدوروں کے لئے الگ وزارت قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ بہار کے عوام جانتے ہیں کہ ان میں سے کون کتنے پانی میں ہے ۔ کس کی ڈور کہاں سے ہل رہی ہے ۔ چراغ پاسوان، اویسی اور کشواہا کس کے پیادے ہیں اور الیکشن کے بعد ان کی وفاداری کس کے ساتھ ہوگی ۔
بہار کے سیاسی منظر نامہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سیدھا مقابلہ بی جے پی اور مہاگٹھ بندھن کے بیچ ہے ۔ بی جے پی کے تازہ پوسٹر نے تو اور صاف کر دیا ہے کہ مقابلہ بی جے پی اور آر جے ڈی کے بیچ ہے ۔ اس پوسٹر سے نتیش کمار کا فوٹو ہٹا دیا گیا ہے ۔ جبکہ وہ بہار میں این ڈی اے کا چہرہ ہیں ۔ اب انہیں مہاگٹھ بندھن کے ساتھ ایل جے پی سے بھی لڑنا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور نتیش کمار کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ مگر بھاجپا کے صدر جے پی نڈا نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم ایمان داری سے جو کہتے ہیں وہ نبھاتے ہیں ۔ انہوں نے ایل جے پی کو ووٹ کٹوا پارٹی بتاتے ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی جے ڈی یو سے زیادہ سیٹوں پر بھی کامیاب ہوتی ہے پھر بھی نتیش کمار ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے ۔ وہ ہمارے لیڈر ہیں نتیجے جو بھی ہوں ہم نے جو بات کہی ہے ہم اس پر قائم رہیں گے ۔ الیکشن کے بعد ایل جے پی کی حمایت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔
بہر حال ووٹنگ کے بعد ہی یہ طے ہوگا کہ میڈیا جو خبریں دکھانے کے بجائے بی جے پی کی تشہیر کر رہا ہے اس کی تشہیر اور فرضی ایگزٹ پول کا رائے دہندگان پر کتنا اثر ہوا ۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ 18 سے 39 سال کے 3.66 کروڑ بےروزگار، مزدور، دو جون کی روٹی کے لئے جدوجہد کرنے اور ٹکٹکی لگا کر تعلیم کی طرف دیکھنے والے نوجوان ووٹر کدھر جاتے ہیں ۔ اگر وہ بدلاؤ کے لئے متحد ہوکر ووٹ کرتے ہیں تو نہ صرف بہار میں ذاتوں کا سمیکرن بہہ جائے گا بلکہ خواب اور جھوٹے وعدے کر دھوکہ دینے والوں کا بھی صفایا ہو جائے گا ۔ یہ الیکشن بہار کو مگدھ، متھلا، بھوجپور، سیمانچل اور انگ پردیش میں بانٹنے کے بجائے ایک جٹ کرنے والا ہوگا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام نعروں، وعدوں پر بھروسہ کرتے ہیں یا پھر بہار کو جتاتے ہیں ۔