Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ممبئی لوکل

by | Nov 13, 2020

ممبئی کے لوکل ٹرین میں سوار مسافر

ممبئی کے لوکل ٹرین میں سوار مسافر

عبد اللہ زکریا،ممبئی

عبد اللہ ذکریا

عبد اللہ ذکریا

بات سنہ ۱۹۹۳ کی ہے۰بابری مسجد کی شہادت اور اسکے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے۰دلوں میں ابھی بھی غبار باقی تھا۰ایسے جب ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ سے کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری سے لیس ہو کر باہر نکلے تو کیریر کے انتخاب کے لئے صرف دو شہر تھے ۰دل والوں کی دلی اور سپنوں کا شہر ممبئی۰لبرلائیزیشن کا عمل گوکہ شروع ہوچکا تھا ،لیکن اسکے ہمہ گیر اثرات جو آنے والے سالوں میں دکھے ،انکا عشرِ عشیر بھی ابھی افق پر دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا تھا،ہاں بعض تاڑنے والے کی قیامت کی نظر رکھتے ہیں ،آنے والے دنوں کی تصویر صاف دیکھ رہے تھے اور اسکی تیاریوں میں مصروف تھے۰سڑکوں پر ابھی فیاٹ اور ما روتی کا ہی راج تھا ،ہواسے باتیں کرتی،سڑکوں کا سینہ چیرتی اور دیسی گاڑیوں کا مذاق اڑاتی ،چمچماتی ،امپورٹڈ گاڑیاں خال خال ہی دکھائی دیتی تھیں۰سالِ گزشتہ جب ہم نے بلریا گنج کی اوبڑ کھابڑ سڑکوں پر ایک BMW دیکھی تو نیرنگئِ زمانہ پر مسکرا کر رہ گئے۰ان دنوں معدود ے چند لوگ ہی کار رکھنے کی استطاعت رکھتے تھے،انمیں سے ایک اللہ بخشے ہمارے پھوپھا بھی تھے جنکی فیاٹ میں بیٹھ کر ہماری گردن میں ایک عجیب اکڑ پیدا ہو جاتی تھی۰کمیونیکیشن کی فیلڈ ابھی پاؤں پاؤں چلنا سیکھ رہی تھی اور اگر دوردرشن کو چھوڑ دیں تو پرائیویٹ میڈیا کمپنیاں صرف دو یا تین تھیں۰سنہ ۲۰۰۰ آتے آتے نیوز چینل مشروم کی طرح اگنے اور بکنے لگے۰ ہماری قسمت اچھی تھی کہ جوتے چٹخائےبغیر(جوتے تو ہم نے محاورتاً لکھ دئے ہیں ،اس زمانے میں ہم صرف سینڈل پہنا کرتے تھے)business India گروپ کے ایک نیوز چینل میں عکاس (کیمرا مین ) کی نوکری مل گئی۰ہماری دقّت یہ تھی کہ انگریزی میں شد بد رکھنے کے باوجود رپورٹنگ کے لئے جس انگریزی کی ضرورت تھی ،وہ ہماری پہونچ سے بہت دور تھی۰اس وقت ہندی چینلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی ۰کمونیکشن کی زبان انگریزی تھی اور ہندی والوں کے ساتھ سرِ عام سوتیلا سلوک ہوتا تھا۰سہل پسند طبیعت نے جس پروفیشن کو چنا ،والد مرحوم زندگی بھر اس سے نالاں رہے۰وہ خفت اور شرم کے باعث کسی کو بتاتے نہیں تھے کہ انکا کم ہمت بیٹا کیمرا مین بن گیا ہے۰انھوں نے شادی بیاہ کی تقریبات میں کیمرا کاندھے سے لٹکائے اور لوگوں کی گھڑکیاں کھاتے ہوئے کیمرا مین دیکھے تھے اور انکا زمیندارانہ مزاج یہ گوارا نہیں کر رہا تھا کہ انکا بیٹا اس کام کو اپنا پروفیشن بنائے۰سچ کہیں تو زندگی میں جو بھی عزت کمائی اور جن مشاہیر سے ملاقات کا موقع ملا اسی پروفیشن کی وجہ سے ممکن ہو سکا۰ دلی میں جب تک رہے بڑی شان سے آٹو رکشہ میں بیٹھ کر آفس جاتے رہے کہ طبعِ نازک پر بس کی سواری گراں گزرتی تھی اور چکر آنے لگتا تھا۰بمبئی آئےتو پتہ چلے کہ آفس نریمن پوائنٹ میں ہے اور ٹرین کی سواری کے علاوہ کوئی چارانہیں۰یہ تھا لوکل سے ہمارا پہلا تعارف۰تمہید طولانی ہو گئی لیکن اگر حکایت لذیذ ہو تو دراز کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۰پھر جیسے سب ممبیکر ٹرین کے دو پاٹوں میں پستے ہیں ،ہم بھی پسے اور خوب پسے۰
میدانِ حشر کی نفسانفسی کے بارے میں سنا اور کتابوں میں پڑھا ہے،روزِ حساب سے پہلے اسکا مشاہدہ تو ناممکن ہے ،ہاں اگر ٹریلر دیکھنا مقصود ہو تو صبح اور شام کے اوقات میں لوکل ٹرینوں میں دیکھ سکتے ہیں۰تا حدِّ نگاہ صرف سر ہی سر،کھوے سے کھوے چھلتا ہوا،بلکہ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہیکہ اپنے اعضاء و جوارح اپنے نہیں رہے ،کسی اور کے ہو گئے ہیں۰صبح کے اوقات میں وسئی،ورار،بوریولی،کلیان ،کرلا،ممبرا،میراروڈ اور واشی اور شام کے اوقات میں وی ٹی(سی ایس ٹی)،چرچ گیٹ اور دادر۰(جن اسٹیشنوں کے نام ہم نے نہیں لئے ہیں وہ آزردہ خاطر نہ ہوں،وہ بھی مردم آزاری میں برابر کے شریک ہیں).آفس کے اوقات میں جو صبح ۶ بجے سے ۹ تک کچھ بھی ہو سکتے ہیں،اپنے وجود کو ثابت وسالم آفس پہونچانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے(یہ ظالم شہر نہ خود سوتا ہے اور نہ سونے دیتا ہے)۰رش کا یہ عالم ہوتا ہیکہ عین دورانِ سفر اگر خارش حد سے زیادہ بڑھ جائے تو جو پیٹھ آپ نے کھجائی ہوتی ہے وہ کسی اور کی نکلتی ہے۰اور اگر آپ خدانخواستہ ہماری طرح کوتاہ قد ہیں تو اللہ ہی آپ کا حافظ ہو۰بارہا ایسا ہواکہ اپنی پسلیوں کو بچانے کے لئے ہم اس “پوز” میں کھڑے ہو گئے جو جنتی بیبیاں نماز میں اختیار کرتی ہیں یعنی سینے پر ہاتھ باندھ کر۰سنا ہے دل پسلیوں کے عین نیچے رہتاہے اور اردو شاعری سے شغف کے باوجود ہم دل کے معاملے میں بہت محتاط رہتے ہیں۰اردو کے شاعروں کا کیاہے ،وہ ہر آیے گئے کو اپنا دل دیتے رہتے ہیں ،ہمارے پاس لے دے ایک ہی دل ہے سو ہم اسکی حفاظت جان سے بڑھ کر کرتے ہیں۰کئی بار ایسا ہواکہ کچھ دراز قامت لوگ ہمارے اوپر سایہ فگن ہو گئے تو سانس کی آمدورفت کے لئے انھیں میں سے کسی کی ناک ادھار لے لی۰ٹرین میں چڑھنے اور اترنے کے کوئی ادب آداب نہیں ہیں،لوگ باگ چڑھا اور اتار دیتے ہیں۰ہاں دروازے پر لٹکنے کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑ سکتا ہیکہ آپ کو دھکے مار مار کر منزلِ مقصود سے پہلے ہی اتار دیاجائے،پھر ہمارے محبوب شاعر کی طرح آپ کے سامنے یہ مشکل نہیں آن کھڑی ہوگی کہ دل کو پیٹوں کہ جگر کو،بس ہوگا یہ کہ ٹرین توسرپٹ بھاگ جائے گی اور آپ پلیٹ فارم پیٹتے رہ جائیں گے ۰نوحہ گری بھی آپ کوئی کرنی پڑے گی۰
بمبئی غالباً دنیا کا واحد شہر ہے جسکی حد بندی ریلوے لائن سے کی گئی ہے،ویسڑن اور سنٹرل،رہی ہاربر تو وہ ابھی بعد کی پیداوار ہے۰پھر ویسٹ(مغرب)اور ایسٹ (مشرق)کا قضیہ الگ ہے۰اگر ممبئی میں کسی کا سوشل اسٹیٹس جاننا ہو تو اسکا ایک بڑا انڈیکیٹر یہ لائنیں ہیں۰اگر آپ کا فلیٹ ویسڑن لائن پر ہے تو You have made it.اس جملے کی بلاغت کا اردو کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ہے۰سینٹرل پر رکھنے کا مطلب ہے آپ ابھی بھی struggle کر رہے ہیں(یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے،لیکن کافی حد تک سٹیک ہے)پھر ویسڑن لائن میں ویسٹ والے حصے زیادہ “پوش”ہیں،سینٹرل میں یہ ترتیب الٹی ہے(بمبئی کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے،ہمیں بھی دو عشروں سے زیادہ وقت لگ گیا اور آج بھی ہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں)۰معاشی اور معاشرتی اونچ نیچ کو سمجھنے کے لئے ایک اور انڈیکیٹر بھی ہے۰شہر” ٹاؤن” اور “سبرب” میں تقسیم ہے۰ماہم سے لیکر کولا بہ اور اسکے آگے تک رہنے والے “ٹاؤنی” کہلاتے ہیں اور اپنے سرِ پرغرورکو نخوت سے اور اونچا کئے رہتے ہیںکہ انکا سوشل اسٹیٹس “سبرب” میں رہنے والوں سے بہت بلند اور معتبر ہے۰انکے لئے انگریزی میں ایک لفظ استعمال ہوتاہے “SOBO”جو انکے بلند مرتبہ کو بلکل واضح کر دیتا ہے۰
ہم آپ کو “ٹاؤن “اور”سبرب”کافرق سمجھا دیتے ہیں۰جہاں سے رکشہ چلنے کی حد ختم اور ٹیکسی چلنے کی حد شروع ہو جاتی ہے ،ٹاؤن وہیں سے شروع ہو جاتا ہے“بینہما برزخ لا یبغیان”(دونوں کے درمیان ایک حد ہے جسے وہ “کراس” نہیں کر سکتے ہیں ) یہ معاشرتی اونچ نیچ ممبئی لوکل میں بھی دکھائی دیتی ہے،کچھ ڈبے مخصوص ہوتے ہیں جو فرسٹ کلاس کہلاتے ہیں اور جہاں صرف چمڑے کے سوٹ کیس اور اس سے موٹی چمڑوں والوں کو گھسنے کی اجازت ہوتی ہے۰غریب غربا کا یہاں گزارا نہیں اور اگر کوئی غلطی سے چڑھ جائے تواسکو ایسا دھتکارتے ہیں گویا اس سے بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے۰غریبوں کے لئے سکینڈ کلاس کی سہولت موجود ہے۰ہم نے بھی زندگی بھر فرسٹ کلاس میں سفر کیا ہے گو کہ نہ ہمارے پاس چمڑے کا سوٹ کیس رہا اور نہ ہی اتنے سالوں میں ہماری چمڑی موٹی ہوئی۰فرسٹ کلاس اور سکینڈ کلاس میں ہمیں تو بس اتنا فرق محسوس ہوا کہ سیکنڈ کلاس میں اور دیگر لوازمات کے ساتھ پسینے کی مہکار چہکار اور چیخ پکار کے ساتھ وہ مزہ بھی دو بالا ہوجاتا ہے جو “بمبیاً لنگو “میں “فری مساج” کہا جاتاہے۰فرسٹ کلاس میں لوگ ڈیوڈ رینٹ (deodorants)لگا کر آتے ہیں۰لوکل ٹرینوں کی ایک خاص کشش لیڈیز کمپارٹمنٹ ہیں،یہ الگ بات ہیکہ یہ ڈبے الگ ہوتے ہیں اور صبح چھ بجے سے رات دس بجے تک مرد حضرات کا داخلہ انمیں ممنوع ہے۰صبح اور شام کے اوقات میں کچھ لیڈیز اسپیشل بھی چلتی ہیں جو بہتوں کو جنت کا نمونہ لگتی ہیں اسی لئے خلد سے نکالے آدم کو اسمیں داخلہ نہیں ملتا ہے۰سنٹرل لائن کی بعض ٹرینوں میں لیڈیز ڈبہ ،جنٹس کے فرسٹ کلاس ڈبہ سے متصل ہوتاہے۰بیچ میں محض ایک آہنی کھڑکی لگی رہتی ہے۰یہ درشنی جھروکہ کہلاتا ہے اور اس سے وہی کام لیا جاتا ہے جو پرانے زمانے میں چلمن سے لیا جاتا تھا۰قسمت یاوری کرے تو بات تاک جھانک سے آگے بڑھ کر شادی خانہ بربادی تک بھی پہونچ جاتی ہے۰
راقمِ آثم کو بھی ایک بار لیڈیز ڈبہ میں سفر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۰ہم لوگ ممبئی لوکل پر ایک ڈاکومینٹری بنا رہے تھے۰اس دن پتہ چلا کہ عورتیں کس قدر کم سخن اور کم گو ہوتی ہیں۰وہ صرف دوسری عورتوں کے شوہروں اور ساس کی برائیاں سنتی ہیں۰یہ ڈبہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۰بھانت بھانت کی ان آوازوں میں یہ پتہ لگانا نا ممکن تھا کہ کس آواز کا مبدء کہاں ہے اور مخرج کہاں،؟ہم عورتوں کے اس کمال کے دل سے معترف ہیںکہ ایک ہی وقت میں کئی ساری عورتیں بولتی بھی ہیں،سنتی بھی ہیں اور ایک دوسرے کو ٹرانسمٹ بھی کرتی رہتی ہیں۰سائنس کو یہ ٹکنالوجی دریافت کرنے اور قابلِ عمل بنانے میں ابھی اور بہت سال لگیں گے۰ جھگڑا کرنے میں عورتوں کا کوئی ثانی نہیں ہے۰ہم نے گاؤں میں جاہل عورتوں کو جھگڑا کرتے دیکھا اور سنا ہے۰ان گناہ گار کانوں نے جیسی طبع زاد اور گندی گندی گالیاں سنی ہیں،کوئی اوباش سے اوباش مرد بھی ایسی گالیاں نہیں دے سکتا ہے۰شہر کی یہ پڑھی لکھی بیبیاں ان سے دو قدم آگے ہیں۰ٹرین کے سفر میں آپ کو بھانت بھانت کے لوگ ملتے ہیں،پیر فقیر،سنیاسی،جوگی ،بھک منگے،پھیری کرنے والے اور بد دعاؤں کی دھمکی دیکر لوگوں کی جیبیں خالی کرانے والے زنخے،مگر ہمارے لئے سب سے زیادہ دلچسپی کا سامان کراماتی بنگالی باباؤں کے اشتہار ہیں جن میں ۲۴ گھنٹے میں ہر کام میں سپھلتا(کامیابی)کی خوشخبری ہوتی ہے۰ایسے ہی اشتہار ہمیں اسوقت بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جب ٹرین سے دلی کا سفر کیا جائے۰فرق صرف اتنا ہیکہ وہ مردانہ کمزوری دور کرنے کے ہوتے ہیں اور “گرافیٹی” کی شکل میں دیواروں پر لکھے ہوتے ہیں۰جب یہ اشتہار دکھنے شروع ہوجاتے ہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ دلی قریب ہے۰سنا ہے ادھیڑ عمر کے مرد یہ اشتہار بڑی للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۰ ٹرینوں میں وقت کے ساتھ بڑی تبدیلی آئی ہے۰فریکوینسی بڑھ گئی ہے۰سیٹیں کشادہ ہوگئی ہیں،بس ایک چیز ہمیں اچھی نہیں لگتی ہے۰پہلے لوگ باگ ٹرین میں اخبار پڑھتے تھے ،نئی نئی دوستیاں بناتے تھے ،عشق معاشقہ بھی ہو جاتا تھا،اب ہر آدمی اپنی کھال میں مست،کانوں میں ایرفون اور ہیڈ فون لگائے نجانے کیا دیکھتا ،سنتا رہتا ہے۰ٹیکنالوجی نے دنیا کو “گلوبل ولیج” تو بنا دیا ہے لیکن دوریاں بھی بہت بڑھا دی ہیں۰رشتوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے۰انسان پھر سے اکیلا ہو گیا ہے۰اسے ایک ساتھ اور دسراتھ چاہئے۰ایسی ہی صورتِ حال سے جل کر کسی دانا نے کہا کہ “مارکونی” کی قبر پر پبلک ٹوائلٹ بنا دینا چاہئے۰ہم کہتے ہیں اس سے عبرتناک سزا یہ ہوگی کہ اسے پھر سے زندہ کیا جائے اور اسمارٹ فون کے حوالے کر دیا جائے۰خیر ہم کچھ بھی لکھیں اور کہیں،حقیقت تو یہ ہیکہ اس سے بہتر ،مربوط اور پنکچول نظام ہندوستان کے کسی اور شہر میں نہیں ہے ۔پچاس،ساٹھ کلومیٹر کی کیا بات کریں ،ہم ایسے لوگوں کو جانتے جو روزانہ پونہ اور ناسک سے سفر کرتے ہیں۰یہ دونوں شہر ممبئ سے تقریباً دوسو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں۰ہاں موسمِ باراں میں ضرور دقّت ہوتی ہے۰
ہر سال ممبئی میں ایک دن ضرور ایسی بارش ہوتی ہیکہ سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے،ہمیشہ چلنے والا شہر تھم جاتا ہے،لوگ باگ دفتروں میں اور ریلوے اسٹیشنوں پر رات گزارنے کو مجبور ہو جاتے ہیں،کچھ باہمت پیدل ہی اپنے کھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۰میڈیا والے چیخ پکار مچاتے ہیں ،انتظامیہ کو گالی دیتے ہیں ،لیکن ایک سچا ممبئیکر کبھی اس سے ہراساں نہیں ہوتاہے۰وہ سب کچھ بھول بھال کر دوسرے دن اپنے کام دھندے میں لگ جاتا ہے۰اگراسکوکسی بات سے تکلیف پہونچتی ہے تو وہ ہے میڈیا رپورٹنگ سے۰میڈیا نے کئی برسوں سے ایسی صورتحال کے لئے دو لفظcoin کئے ہیں۰ممبئی اسپرٹ اور resilience.ہم نے اس سے زیادہ بھدے،بھونڈے اور مذاق اڑانے والے الفاظ نہیں سنے ہیں۰ہم نے سنہ دو ہزار پانچ میں ۲۶ جولائی کی طوفانی بارش بھی دیکھی ہےاور ٹرین بلاسٹ کے جانکاہ حادثے بھی ،لیکن ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے ڈر کر ٹرین میں سفر کرنا بند کر دیا ہو لیکن اسکا سبب resilience نہیں ہے۰بچارے ممبئکر کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں ہےاور نہ کوئی متبادل نظام ہے۰اوسطاً ہر روز ٹرینوں سے گر کر یا کٹ کر اسی (۸۰)لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں،لیکن ٹرینیں اپنی اسی رفتار سے پٹریوں پر دوڑتی بھی ہیں اور اسمیں سفر کرنے والوں میں روزافزوں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۰میڈیا والو خدا کے لئے ان الفاظ کا استعمال بند کردو۰
ممبئ لوکل کی یہ نہ ختم ہونیوالی داستان اب ختم کرتے ہیں کہ بعض قصے دل ودماغ کے بجائے شریانوں میں اتر جاتے ہیں۰قلم اٹھایا تو نہ جانے کیسی کیسی باتیں یاد آ گئیں،کتنے قصہ دامن گیر ہوگئے اور پھر جب وقت کے دھند لاتے آئینہ میں اپنا عکس دیکھا تو بے ساختہ ایک مسکراہٹ بھی لبوں پر آگئی کہ یہی اپنا سرمایہِ حیات بھی ہے اور اپنی ساری عمر کی کمائی بھی۰باقی رہے نام اللہ کا

Recent Posts

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...