لکھنو:(معیشت نیوز)آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مشہور شیعہ عالم دین ڈاکٹر کلب صادق اس دارفانی سے کوچ کرگئے اناللہ واناالیہ راجعون ۔کئی روز قبل بھی ان کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی لیکن ان کے صاحب زادے نے تردید کی اور ان کی خیریت سے آگاہ کیا تھا۔مولانا کلب صادق گزشتہ 3 سال سے بیمار چل رہے تھے۔ میدانتا اسپتال میں ان کا ایک مشکل آپریشن کیا گیا تھاجس کے بعد لکھنؤ کے ایرا میڈیکل کالج میں ان کاعلاج ہو رہا تھا اور وہ وہیں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہ رہے تھے۔ مولانا پر 17 نومبرکو نمونیا کا حملہ ہوا اور سانس لینے میں پریشانی کے بعد انہیں آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تھا۔ ان کی صحت میں کوئی قابل اطمینان بہتری نہیں ہوئی اور آخرکار انہوں نے 24 نومبر 2020 کو رات تقریباً 10 بجے 83 برس کی عمرمیں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ ان کے انتقال کی خبرسے عالم اسلام میں رنج وغم کی لہر دوڑ گئی اور سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات کا سیلاب آگیا۔
آل انڈیا حلال بورڈ کے جنرل سکریٹری دانش ریاض نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ’’دنیا سے صاحب علم کا اٹھتا جانا بھی قیامت کی نشانیوں میں شامل ہے کہ جس پائے کے یہ لوگ تھے اب ان کے برابر کا کوئی نہیں ہے ۔شیعہ سنی اتحاد پر مرحوم کی گفتگو جب بھی سنتا تو دیر تک سنتا رہتا۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے جن جن اجلاسوں میں مجھے شرکت کا موقع ملا میں مرحوم سے مستفید ہونا اپنی سعادت سمجھتا اور ان کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ۔ایک ملاقات میں جب معیشت میگزین ان کی خدمت میں پیش کیا تو بہت خوش ہوئے اور پھر معاشی معاملات پر گفتگو کرتے رہے ۔ الله تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت کرے آمین ۔
نواب علی اختر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’’ماڈرن تعلیم پر مولانا کا خاصا زور رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں ماڈرن ایجوکیشن ہی اصلی طاقت ہے اور جس کے پاس طاقت نہیں ہوتی ہے، زمانہ اس کو نوچ کھسوٹ کر ختم کر دیتا ہے۔ مدارس میں جانے سے دینی تعلیم اور یونیورسٹی میں جانے سے دنیاوی تعلیم حاصل ہونے کی بات کو وہ غلط مانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مضمون سے دین اور دنیا کا فرق طے نہیں کیا جاتا بلکہ نیت سے طے کیا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ آج کے دور میں عزت کی زندگی گزارنے کے لیے لازمی طور پر ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنا ہوگا۔ ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ بلا تفریق مسلمان ماڈرن ایجوکیشن کے حصول کے لیے سنجیدہ ہوں۔ اس طرح ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ موجودہ دور کے ایسے دانشور تھے جنہوں نے سرسید کی طرح زمانے کی نبض کو پہچان لیا تھا۔ اسی لئے وہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ جہالت انسان کی زندگی میں تاریکی کے سوا کچھ نہیں لاتی، جب کہ علم انسان کو ایک مکمل آدمی بناتے ہوئے اس کی کامیاب زندگی کا ضامن ہوتا ہے۔‘‘

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع
ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...