مولانا آفتاب اظہر صدیقی
اللہ تعالیٰ نے جب دنیائے فانی میں اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو اس وقت یہ دنیا تمام طرح کی برائیوں میں ملوث تھی اور اچھائی برائے نام رہ گئی تھی۔ جو اچھائیاں دنیا سے مفقود ہوتی جارہی تھیں ان میں سے ایک “حسن معاشرت” لوگوں نے باہمی رہن سہن کا طریقہ تبدیل کرکے مطلب و مفاد حتی کہ جانوروں والی زندگی گزارنا شروع کردی تھی، کوئی کسی کی بھلائی کی نہیں سوچتا تھا، بلکہ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں لگے رہتے تھے، حقوقِ انسانیت کو ادا کرنے والے کہیں کہیں بمشکل نظر آتے تھے، پڑوسیوں کو ستایا جاتا، رشتہ داروں سے قطع تعلق روا رکھتے تھے، ذرا ذرا سی بات پر دو قبیلوں کے درمیان نسلوں تک جنگ جاری رہا کرتی تھی۔ الغرض حسن معاشرت کی صفات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی تھی۔ لیکن جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کا بچپن اور آپ کی جوانی حسن معاشرت کے اعلیٰ اوصاف سے عبارت رہی۔ دشمنوں نے آپ کو صادق اور امین کا لقب دیا، آپ نے ساری انسانیت کو حسن معاشرت کی تعلیم دی، لوگوں کو ان کے حقوق بتائے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، بولنے اور معاملات کرنے کا بہترین طریقہ بتایا۔ چنانچہ ان کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افراد نے حسن معاشرت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ رہتی دنیا تک کے لیے حسن معاشرت کی بہترین مثال بن گئے۔
آج کی اس تحریر میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر مسلموں کے ساتھ حسن معاشرت کے کچھ واقعات پیش کیے جاتے ہیں:
نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنوں کے علاوہ غیروں کے ساتھ بھی حسن سلوک ہی فرمایا ہے، بلکہ آپ تو ساری انسانیت کے لیے ہی رحمت بن کر تشریف لائے تھے لہٰذا آپ نے اپنے اخلاق و کردار سے انسانیت کے لیے وہ ضابطہ حیات پیش فرمایا جس کے ہر حصے میں بھلائی اور خیر خواہی کا سبق موجود ہے۔
ایک بار ایک یہودی اور ایک مسلمان کا مقدمہ حضور پاک ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا، آپؐ نے مذہب اور عقیدے کا لحاظ کیے بغیر حقائق کی بنا پر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ عدل و انصاف پر زور دیتے ہوئے آپؐ نے قرآن کریم کی یہ تعلیم پیش فرمائی کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم بے انصافی سے کام لو، ہمیشہ عدل و انصاف کو قائم کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔
غزوہ بنو مصطلق میں رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی سلول نے سرکار دوعالم ﷺ کی شان میں گستاخی کا یہ فقرہ کہا کہ مدینہ جا کر میں جو سب سے زیادہ معزز ہوں سب سے زیادہ ذلیل شخص کو مدینہ سے نکلوا دوں گا ( نعوذباﷲ)۔ ایسی گستاخی پر صحابہ کرامؓ نے چاہا کہ اسے قتل کر دیا جائے کیوں کہ یہ گستاخ رسول ﷺ ہے۔ مگر حضور پاک ﷺ نے انہیں اس سزا کی اجازت نہیں دی۔ گستاخی کے اس فقرے کا جب اس کے مخلص بیٹے کو علم ہوا تو اس نے حضور ﷺ سے اپنے گستاخ باپ کو خود قتل کر دینے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے اسے بھی منع کیا اور فرمایا کہ ہم تمہارے باپ سے نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے اس کے باوجود غیرت مند بیٹے نے مدینہ میں داخل ہونے سے قبل اپنے باپ کو گھوڑے سے اتار لیا اور اس سے جب تک یہ نہ کہلوایا کہ وہ خود مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل ہے اور محمد ﷺ سب سے زیادہ معزز ہیں، اس کو چھوڑا نہیں۔ یہی عبداﷲ بن ابی سلول جب فوت ہوا تو اس کے مخلص بیٹے نے حضور پاک ﷺ سے جنازہ پڑھنے کی درخواست فرمائی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں جنازہ پڑھ دیتا ہوں۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ خدا پاک نے قرآن میں منافق کا جنازہ پڑھنے سے منع کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر آپ ستّر بار بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں تو پھر بھی ﷲ ان کی مغفرت نہیں کرے گا۔ یہ سن کر سراپا رحمت ﷺ نے فرمایا کہ میں (اگر جانتا کہ اکہتر بار بھی دعائے مغفرت کرنے سے اس کی بخشش ہوجاتی تو) اس کے لیے اکہتّر بار مغفرت کی دعا کرتا۔
محمد ﷺ تمام نوع انسانیت کے ساتھ مساوات، عدل وانصاف، حسن اخلاق کا معاملہ فرماتے تھے۔اور مسلم غیر مسلم سبھی کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے تھے۔اگر معاشرے یاسماج میں کوئی شخص بیمار پڑتا تو اس کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے اور اس کے لیے مناسب دعا فرمایا کرتے تھے۔ ماخذ بتاتے ہیں
’’َانَّ غْلَامًا لِیَھْودَ،کَانَ یَخدْمْ النَّبِیَّ ،فَمَرِضَ فََاتَاہْ النَّبِی ّْیَعْودْہْ‘‘۔
(صحیح البخاری ،کتاب المرض)
’’رسول کریم کا ایک خادم یہودی تھا بیمار ہو گیا۔ رسول کریم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے‘‘۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں آپ مسلمانوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے وہیں غیر مسلموں کے ساتھ بھی ہمدردی، غم گساری کا رویہ اپناتے تھے۔ آپ ہمیشہ قوم کی باہم اتفاق ،روادری کی طرف رہنمائی فرماتے تھے۔ماخذ میں مذکور ہے ۔
عَن اَبِی ھْرَیرََ َنَّ رَسْولَ اللہِ ضَافَہْ ضَیف کَافِر،فََمَرَلَہْ رَسْولْ اللہِ بِشَاٍفَحْلِبَت فَشَرِبَ،ثْمَّ اْخرَی فَشَرِبَہْ،ثْمَّ ْخرَی فَشَرِبَہْ حَتَّی شَرِبَ حِلَابَ سَبعِ شِیَاہٍ،ثْمَّ َصبَحَ مِنَ الغَدِ فََسلَمَ،فََمَرَ لَہْ رَسْولْ اللہِ بِشَاٍ فَحْلِبَت فَشَرِبَ حِلَابَھَا،ثْمَّ َمَرَلہ بِاْخری فَلَم یَستَتِمَّھَا۔
(سنن الترمذی ،کتاب الاطعمہ، باب ما جاء ان المؤمن یاکل فی معی واحد)
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے ایک کافر کی مہمان نوازی کی۔نبی کریم نے اس کے لئے ایک بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ وہ اس کا دودھ پی گیا۔ پھر ایک دوسری منگوائی گئی اور اس کا دودھ دوہا گیا تو اس نے اس کا دودھ بھی پی لیا۔ پھر ایک تیسری بکری منگوائی گئی تو وہ اس کا دودھ بھی پی گیا۔ حتیٰ کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ اگلے دن صبح کے وقت اس نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر رسول کریم نے بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ پس اس نے دودھ پی لیا پھر نبی کریم نے اس کے لئے ایک اور بکری منگوائی مگر وہ اس کا دودھ مکمل طور پر نہ پی سکا‘‘۔
یہ مثالیں اس بات پر شاہد ہیں کہ اسلام کی تعلیمات معاشرتی پہلو پر ہندو مسلم کا فرق کے بغیر رہنمائی کرتی ہیں تاکہ معاشرے میں امن اور سکون قائم رہے۔ لوگ باہم ہمدرد ، معاون بن سکیں کیونکہ اسی وقت معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا اور سماج کی جملہ برائیوں اور بدعنوانیوں کا قلعہ قمع ہوگا جب معاشرے کا ہر طبقہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت کا رویہ اپنائے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنے نبی پاک ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور آپس میں رواداری، محبت بھائی چارہ اور حسن معاشرت قائم کریں۔

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں
دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...