آفتاب اظہرؔ صدیقی
آج کل مساوات اور برابری کو لے کر دنیا بھر میں تحریکوں اور تنظیموں کی طرف سے بیداری مہم چلائی جارہی ہے، مساوات کے نام پر سب سے زیادہ اٹھایا جانے والا مسئلہ ’’عورت کی آزادی‘‘ ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صنف نازک کے لیے برابری اور مساوات کا مطالبہ کرنے اور تحریکیں چلانے والے لوگ خود مساوات کو نافذ کرنے سے قاصر ہیں، انہیں مساوات کے نام پر فحاشی چاہیے، انہیں حقوق خواتین کے نام پر ہر محکمے میں جی بہلانے والی نوکرانی چاہیے، انہیں عورت کی گھریلو زندگی سے اختلاف ہے، وہ بیوی کو صرف ’’ہاؤس وائف‘‘ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے؛ بلکہ اسے ’’رونق بازار‘‘ بناکربے وقعت کردینا چاہتے ہیں۔ اگر مساوات کا وہی مطلب سمجھا جائے جو انہوں نے سمجھا ہے یعنی ’’برابری‘‘ تو وہ خود ہر جگہ مساوات کرنے پر راضی نہیں ہوں گے؛ اس لیے کہ اللہ پاک نے اس دنیا میں بے شمار مخلوقات پیدا کی ہیں، پھر ان کی الگ الگ انواع و اقسام ہیں، کہیں جنس کا فرق ہے تو کہیں صنف کا، اب اگر نوع انسان کے ساتھ صرف کھانے پینے میں مساوات کیا جائے تو جتنا کھانا بوڑھے کے لیے ہوگا اتنا ہی بچے کے لیے ہونا چاہیے اور اتنا ہی جوان کے لیے؛ لیکن مساوات کا ڈھونگ رچانے والے خود ایسا نہیں کرتے کہ سب کو برابر کھانا پروستے ہوں؛ وہ سمجھتے ہیں کہ بچہ کھانا ضائع کردے گا تو اسے کم دیا جائے، بوڑھا اس کی بنسبت زیادہ کھائے گا تو اسے اس کے مطابق دیا جائے اور جوان آدمی اپنی محنت اور جوانی کی وجہ سے ان دونوں سے زیادہ بھوکا ہوتا ہے تو اسے تھوڑا اور بڑھاکر پیش کیا جائے گا۔ ایسے ہی اگر مساوات کی بات کی جائے تو تمام نوع انسانی کے کپڑے بھی یکساں ہونے چاہیے، پھر مرد و خواتین کے کپڑوں میں یہ تمیز کیوں ؟ سب کے لیے ایک ہی جیسے کپڑے کیوں نہیں؟ مکان میں مساوات کیوں نہیں؟ سب کو ایک جیسا گھر کیوں نہیں دیا جاتا؟ شادی میں مساوات کیوں نہیں؟ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی بارات کیوں نہیں لے کر جاتے؟ بچہ پیدا کرنے میں مساوات کیوں نہیں؟ خواتین کی طرح مرد بھی کیوں نہیں بچہ پیدا کرتے؟ جبکہ اب سائنس کی ترقی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عورت کی بچہ دانی کو مرد کے جسم میں فٹ کیا جاسکتا ہے تو آخر یہاں مساوات کب دیکھنے کو ملے گی؟ اور پھر مساوات کی بات کرنے والے عورتوں کے ساتھ مساوات میں انہیں مردوں کے برابر کھڑا کرنے کے لیے ہر میدان عمل میں عورتوں کو کیوں نہیں بھیجتے، ان سے پتھر کیوں نہیں اٹھواتے، ان سے کھیتی کیوں نہیں کرواتے، ان سے ہل کیوں نہیں چلواتے؟کیا انہیں’ ایک بے حیا اور بے پردہ عورت جو کسی آفس کے مینیجر کے لیے اپنی اداؤں کے پرکشش جلوے دکھانا جانتی ہو‘ میں ہی مساوات کی منزل نظر آتی ہے؟ تو پھر ان لوگوں نے مرد و خواتین کے لیے الگ الگ بیت الخلا کیوں بنائے؟ ریل اور بسوں میں عورتوں کے لیے الگ سیٹوں کی نشاندہی کیوں کی؟ دونوں کے کاموں کو کیوں بانٹ دیا؟ دونوں کی تنخواہوں میں فرق کیوں رکھا؟ ظاہر ہے کہ یہ خود اپنے دعوے میں الجھے ہوئے ہیں، حق تو یہ ہے کہ انہیں مساوات سے کوئی غرض نہیں ، یہ اپنے مفادات کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اسلام میں عدل کیوں ہے، مساوات کیوں نہیں؟
اللہ پاک نے اپنے مبارک کلام ’’قرآن مجید‘‘ میں ارشاد فرمایا: کہہ دیجیے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو لوگ نہیں جانتے برابر ہیں؟(الزمر ( 9 ) اسی طرح دوسری سورت میں ارشاد ہے : کہہ دیجیے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا اندھیرے اور روشنی برابر ہوسکتے ہیں؟ (الرعد ( 16 )اللہ پاک نے ان آیات میں مساوات کی نفی فرماکر یہ سمجھا دیا ہے کہ اگر کوئی مساوات کی بناپر عدل قائم کرنا چاہے گا تو وہ عقل و فطرت کے خلاف ہے، مساوات کی بناپر عدل کیا ہی نہیں جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ مساوات کا تقاضا ہے کہ ہر انسان کے مابین ہر جگہ برابری قائم کی جائے اس سے یہ مساوات بعض جگہ ظلم بن جاتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ نعرہ لگایا کہ مرد و عورت کے مابین کونسا فرق ہے؟ انہوں نے مرد و عورت کو برابر کر دیا ہے، حتی کہ کیمونسٹ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حاکم اور محکوم کے مابین کونسا فرق ہے؟ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ایک دوسرے پر تسلط رکھے اور حکمرانی کرے، حتی کہ والد اور بیٹا بھی، والد کو اپنے بیٹے پر بھی تسلط اور طاقت نہیں ہے، اسی طرح آگے بڑھے اور سماج کی ہر ترتیب کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔
اسلام چونکہ دین فطرت ہے ، اسلام کا کوئی قانون عقل کے خلاف نہیں ہوسکتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے نظام حیات میں انسانوں کے لیے مساوات سے بڑھ کر جس چیز کا فیصلہ کیا وہ ’’عدل‘‘ ہے، عدل و انصاف سے کسی پر ظلم ہونے کا اندیشہ نہیں، اللہ پاک نے انسان کو اسی کام کا مکلف بنایا ہے جس کی اسے طاقت بخشی ہے، یہی اس کا عدل ہے، اسی عدل کے فارمولے کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے میراث کا قانون طے کیا، اسلام نے عورت اور مرد کی عبادت میں فرق رکھا، اسلام نے مرد کو اپنی بیوی کا کفیل بنایا کہ وہ صنف نازک ہے اس سے باہر کے شدید و ثقیل کام نہیں ہو سکیں گے؛ نیز باہر اس کی عزت و آبرو کو بھی خطرہ ہے؛ لہذا اسے گھر میں ہی ملکہ بن کر گھریلو کام کاج تک محدود رہنا ہے اور مرد کو اس کے نان و نفقہ اور سکنیٰ کاذمہ دار بنادیا۔ یہی انصاف ہے، یہی عدل ہے اور اس سے بہتر انسان کے لیے کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن میں ہے : اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سنتا، دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء:58) دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے ’’بے شک اللہ تعالی عدل اور احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل:90) ایک اور جگہ اللہ کا فرمان عالیشان ہے’’(اے نبیؐ فرما دیجیے کہ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے ساتھ عدل کروں۔‘‘ (شوریٰ: 15)
ان آیات بینات کی روشنی میں معلوم ہوگیا کہ اسلام نے مساوات کا نہیں بلکہ عدل کا حکم دیا ہے، اور عدل ہی دنیا کے لیے خیر و بھلائی کا ذریعہ ہے، جہاں عدل نہیں ہوگا خواہ کس قدر بھی مساوات کرلیں ظلم سے نہیں بچا جاسکتا، ہاں! اگر مساوات کو عدل کے معنی میں لیا جائے توٹھیک ہے ورنہ برابری تو صرف ایک دھوکہ ہے۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...